انتہا پسندی کے نتائج

جمیل مرغز  جمعـء 10 دسمبر 2021
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

حیرانی کا مقام ہے کہ ’ 50سے زیادہ اسلامی ملکوں میں توہین رسالت ‘توہین مذہب اور ختم نبوت کے مسائل نہیں ہوتے ‘یہ مسائل پاکستان میں کیوں اتنے شدید اور زیادہ ہیں؟ ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کے لوگ زیادہ بہتر مسلمان ہیں ؟‘کیا یہ مسائل حقیقت میں موجود ہیں ؟‘کیا یہ مسائل حکمرانوں کے مذہبی کارڈ استعمال کرنے کا نتیجہ ہیں؟‘

عجیب بات ہے کہ پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی 98فی صد ہے‘ یہاں ہمارے دین کوکیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟‘ جب حکمرانوں کی آشیر باد سے جھتے تیار کیے جاتے ہوں‘تو پھرسیالکوٹ اور چارسدہ جیسے واقعات پر افسوس کیسا؟۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا سوشل میڈیا پر پیغام۔ ’’سیالکوٹ حادثہ ‘بے حسی اور بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے‘ معاشرے میں ٹائم بم لگا دیے گئے ہیں ‘ناکارہ نہ کیا تووہ پھٹیں گے ‘لفظ بے عمل ہو گئے ‘وقت ریت کی طرح ہاتھ سے نکل رہا ہے ‘ایسے واقعات ہمیں صرف 48گھنٹے تکلیف دیتے ہیں پھر سب معمول پر آجاتا ہے‘ پھر اگلے واقعے تک احساس دفن رہتا ہے‘‘۔

جناب فواد چوہدری صاحب سے گزارش ہے کہ بم پھٹے گا نہیں بلکہ پھٹ چکا ہے ‘اب نتیجے کا انتظار کریں۔ریاست ابھی تک مذہبی تعلیمی اداروںیا مدارس کے سماجی‘سیاسی اور معاشی اثرات کا مکمل اندازہ نہیں لگا سکی ‘مختلف حکومتوں نے مدرسہ اصلاحات کی کوشش کی لیکن زمینی صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لا سکی ‘اس کی دو بڑی وجوہات ہیں‘رد عمل کاخوف اور ان اداروں کو وسائل کی فراہمی کا خوف‘ اس کمزوری اور الجھن کا فائدہ مدار س کی انتظامیہ نے اٹھایا اورعوام کے اندر اپنی جڑیں اور بھی مضبوط کر لیں ۔

مرکزی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے صاف کہہ دیا کہ ریاست ‘انتہا پسندی کے خلاف لڑنے کے لیے تیار نہیں ہے ‘انھوں نے اسلام آباد کے ایک کانفرنس میں جرات مندانہ تقریر کی‘ انھوں نے معاشرے میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کی وجوہات کی طرف اشارہ کیا‘انھوں نے مدارس کے کردار سے انکار نہیں کیا لیکن انھوںنے کہاکہ مدارس نہیں بلکہ پبلک اسکول اور کالج انتہا پسندی کی بڑے منبع ہیں‘یہ سارا سچ نہیں ہے‘ البتہ ان کی یہ بات سچ ہے کہ حکومت نے 1980/1990میں اسکولوں اور کالجوں میں مخصوص سوچ کے حامل اساتذہ بھرتی کیے۔

جنرل ضیاء الحق کا مقصد یہ تھا کہ تعلیمی اداروں میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جائے تاکہ افغانستان اور کشمیر میں جہاد کے لیے طلباء بھرتی کیے جائیں ‘ ضیاء الحق کے جہاد پروجیکٹ کے کئی پہلو تھے اور ان کو کامیابی تک پہنچانے کے لیے چند مدارس کا کردار بنیادی تھا‘ ان مدرسوں کے بغیر غریب افغانوں کو جہاد کے لیے تیار نہیں کیاجا سکتا تھا ‘اس میں شک نہیں کہ امریکا اور سعودی عرب اس پروجیکٹ کے بنیادی بانی تھے ‘لیکن جنرل ضیاء نے ملک میں نئے نئے مدارس کا جال پھیلا دیا‘اس کے دو مقاصد تھے‘ ایک تو ملک کو انتہا پسند بنانااور دوسری اپنے لیے ایک سیاسی حلقہ تیار کرنا‘تعلیمی اداروں اور مدارس میں جو تعلیم دی جا رہی تھی اس کی وجہ سے طلباء کے ذہن بند ہوگئے اور ان کو ایک خاص بیانیے پر لگادیا گیا۔

ریاست ابھی تک مدرسہ ‘مسجد اور معاشرے کے درمیان تعلق کو نہ سمجھ سکی ‘ہر مسجد کا مرکزی کردار اس کا پیش امام ہوتا ہے ‘یہ کسی نہ کسی مدرسے سے سند یافتہ ہوتا ہے‘  وہ اسی فرقے کی بات اور وعظ کرتا ہے جہاں سے اس نے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے اور اس طرح اپنے مقتدیوں کا ذہن بھی اسی طرح تیار کرتا ہے‘ اب تو مدرسوں کے تعلیمیافتہ طلباء عام تعلیمی اداروں میں استاد کی حیثیت سے تعینات ہو رہے ہیں‘ سرکاری افسر اور ملازم بھی ہیں‘ مدرسوںکی ایک خاص ذہنی کیفیت ہوتی ہے ‘وہ ہر نئی تجویز کو اپنے خلاف سازش سمجھتے ہیں‘اب تک ان مدارس نے اصلاحات کے لیے حکومتی اقدامات کو روکا ہوا ہے‘ حق پرست علماء کو احساس ہے کہ معاشرے میں انتہا پسندی کا عفریت بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور پورا معاشرہ فکرمند ہے۔

قائد اعظم کی موت کے بعد ایک فلاحی ریاست کو زبردستی مذہبی ریاست میں تبدیل کردیا گیا ‘اس عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب ‘معاشرت اور ریاست کی تعمیر کٹر مذہبی بنیادوں پر ہوگی اور مقابلہ اس مسئلے پر ہوگا کہ کون مذہب کے نام پر زیادہ فتنہ گر ہے؟‘تو پھر خیر کی امید کس سے لگائی جائے‘ آئین کا حلیہ بگاڑا گیا‘ ریاست کی جہادی و شدت پسند نظریاتی کایا پلٹ کی گئی ‘تعلیم کو غیر عقلی و غیر سائنسی بنایا جاتا رہا‘ معاشرے میں فرقہ وارانہ تفریق پڑھائی جاتی رہی کہ آمرانہ قوتیں اپنا کھیل کھیلتی رہیں تو ملک کے مستقبل کے بارے میںکون کوئی کیسے پر امید ہوگا۔؟

سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کے قتل‘ اس سے پہلے چارسدہ کا واقعہ اور انتہا پسند تنظیموں کے مطالبات کے آگے ریاست کے ہتھیار پھینک دینے کے بعد اب مملکت خداداد شدت پسندوں کے رحم و کرم پر ہے‘ حالانکہ الزا م ہمیشہ ’’بلڈی لبرلز‘‘یا ترقی پسندوں پرلگایا جاتا ہے۔آج مسلمان ان ملکوں اور معاشروں میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں جو سیکولر ہیں‘ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کا عجیب مخمصہ ہے کہ امریکا‘ یورپ‘ بھارت میں سیکولرزم چاہتے ہیں ‘لیکن اپنے ملک میں ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جس میں اپنے مذہبی خیالات کے علاوہ کسی کو زندہ رہنے یا جینے کا حق نہ ہو‘جو راز یورپین نے صدیوں پہلے پایا تھا کہ اگر ترقی کرنی ہو تو پھر کلیسا اور ریاست کو الگ کرنا ہوگا‘ وہ راز ہم آج تک نہ پا سکے۔

ہمارے دانشوروں نے سب سے بڑا ظلم یہ معاشرہ کے ساتھ کیا کہ سیکولرزم کا ترجمہ لادینییت کردیا ‘حالانکہ سیکولرزم کا مطلب رواداری‘ محبت‘ برابری اور ہر مذہب کے پیروکاروں یا سوچ کے لوگ ریاست میں برابر کے شہری ہیں‘ اس کے بجائے اس کو مذہب دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔یہ بانی پاکستان کی آخری منشاء تھی اور یہ ایک قومی ریاست بننے کا تقاضہ ہے‘اب تو بچت کی ایک ہی راہ بچی ہے کہ ریاست اور سیاست کو مذہب سے الگ کیا جائے۔

سب سے زیادہ حیرانی اس بات کی ہے کہ جو عناصر ’’مذہبی جن‘‘ کو بوتل سے نکالنے کے ذمے دار ہیں وہ آج سیالکوٹ حادثے پر تنقید کر رہے ہیں‘ سوویت یونین کی فوجوں کی افغانستان میں آمد سے بہت پہلے ہی سامراجی سازشیں شروع ہوگئی تھیں‘ان طاقتوں نے بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ سوشلسٹ کیمپ کو شکست دینا آسان نہیں ہے ‘اس کے لیے مذہبی کارڈ استعمال کرنا ہوگا‘ افغانستان میں جہاد کے نام پر بہت بڑا پروجیکٹ شروع کیا گیا ‘اس میں دنیا بھر سے شدت پسندوں کی پاکستان درآمد کے علاوہ پاکستان میںبڑی تعدادمیں درس گاہوں کا قیام بھی شامل تھا۔

ہزاروں طلباء اور نوجوانوں کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا‘اب جب ان پالیسیوں کا پھل جھولی میں گرنے لگا ہے تو سب فکرمند ہیں۔ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں سوائے اس کے کہ ’’ہور چوپو‘‘۔پوری دنیا چیخ رہی تھی کہ افغان انقلاب کے خلاف جنگ ختم کی جائے لیکن ہمارے حکمران سامراجی ڈالروں کی خوشی میں مذہبی جن کو استعمال کر رہے تھے ‘یہ ابھی پورے معاشرے کو تباہ کرنے کے درپے ہے ‘بدقسمتی یہ ہے کہ حکمران ابھی بھی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہو رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔