ہم سب ذمے دار ہیں

اطہر قادر حسن  ہفتہ 15 جنوری 2022
atharqhasan@gmail.com

[email protected]

الجھے ہوئے مسائل کا اتنا ہجوم ہے کہ کسی کو بھی چھیڑیئے تو ٹیس اٹھتی ہے ایک مسئلے کو زیر بحث لائیں تو دوسرے مسائل ہاتھ پھیلائے رہ جاتے ہیں ایک ایک کر کے مسائل سے نمٹنے کی کوشش کی جائے اور ہر روز ایک مسئلے کے بارے میں لکھا جائے تو سال کے دن اسی میں گزر جائیں ۔مسائل سے نبرد آزما ہونے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اہم ترین اور بنیادی مسائل پر گفتگو کی جائے مگر مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ہر مسئلہ دوسرے سے بنیادی اور اہم ترین ہے ۔

اگرچہ ہر شخص کی ترجیحات دوسرے شخص کی ترجیحات سے مختلف ہوں گی اس کے باوجود چند ایک مسائل ایسے ہیں جن کی اولیت اور اہمیت پر اکثریت متفق ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی بقا اور اس کی آزادی اور خودمختاری کا استحکام‘ ملکی معیشت کے بحران اور عام معاشی بدحالی سے پنجہ آزما ہونے کا منصوبہ‘ اقتصادی زوال کی خوفناک رفتار کو روکنے اور اسے اقتصادی کفالت کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی کوشش‘ اربوں کے قرضے گول کرجانے والوں کا احتساب ‘ افلاس کے بڑھتے اور پھیلتے ہوئے دائرے کو توڑنے کا عزم ‘ عام اشیائے صرف کے نرخوں میں حوصلہ شکن اضافے کی روک تھام اور قیمتوں کو عوام الناس کے لیے قابل برداشت بنانے اور اس پر عمل کی مضبوط اور دیانت دارانہ دیکھ بھال اور آخر میں بے روزگاری کے طوفان کا خاتمہ پاکستان کے اہم ترین اور بنیادی مسائل میں شامل ہیں۔ شاعر کی غزل کا ایک مصرع پاکستان کے آج کے حالات کی نہایت سچی اور حقیقی تصویر ہے۔

میں تمام درد ہی درد ہوں ‘ کہوں کیا کہ درد کہاں اٹھا

یہ درد اور مرض لادوا آج کی بات نہیں اس درد میں آہستہ آہستہ اضافہ ہوا اور اب یہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ دوا داروکی پہنچ سے دورہو چکا ہے ۔ ان لادوا امراض کے ساتھ ساتھ ایک اہم مرض جو قوم کو لاحق ہو چکا ہے وہ بے حسی اور سفاکی کا مرض ہے جو ہمارے معاشرے میں اس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ ہر شخص اس کا شکار ہوگیا ہے۔ اسی بے حسی اور سفاکی کا ایک مکروہ اور نفرت انگیز عمل سانحہ مری میں ہمارے سامنے آیا ۔ لاکھوں کی تعداد میں سیاح مری اور اس کے گرد و نواح کی سڑکوں اور گلیوں میں بے رحم اور سرد موسم کی لپیٹ میں تھے اور مقامی کاروباری آبادی کے حالات یہ تھے کہ وہ ان مجبور اور لاچار سیاحوں کو لوٹنے پرکمربستہ رہے۔ ایسی ایسی خوفناک اور دردناک رودادیں سنائی دے رہی ہیں کہ جن کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

سانحہ مری کے متعلق موبائل فون پر موصول ہونے والی ویڈیوز کی تعداد کا کوئی شمار نہیں لیکن ان کو دیکھنے کی ہمت نہیں ہے۔ کتنے ارمانوں اور چاہت سے ماﺅں نے اپنے جگر گوشوں کو مری کی سیر کے لیے تیار کیا ہوگا‘بچوں کی ضد کے آگے عموماً والدین ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور ان کی خوشی میں اپنی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ بچوں کے لیے سیر کا لفظ ان کی معصوم خواہشوں میں سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے ۔ وہ دل و دماغ میں اپنے پسندیدہ مقام کے سفرکے لیے خوشی خوشی تیار ہوتے ہیں ۔

بیٹیاں سجنے سنورنے کے لیے اپنے خوبصورت لباس اور پونیاں وغیرہ بیگ میں رکھتی ہیں تو لڑکے اپنے پسندیدہ کھلونے ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔ ماں سفر کے دوران بچوں کے لیے ان کی پسندیدہ اشیائے خورونوش ساتھ رکھتی ہے جب کہ باپ اپنے خاندان کو آرام دہ سفری سہولت کے لیے وافر مقدار میں رقم کا بندوبست کرتا ہے ۔یوں ایک خاندان مل کر اپنے پسندیدہ مقام کی سیر کو روانہ ہوتا ہے لیکن اسے یہ خبر نہیں ہوتی کہ قدرت نے اس کی منزل کا کوئی اور تعین کر رکھا ہے۔

اور اس کا مشاہدہ ہم اکثر کرتے ہیں۔ ہمارے رب کو کچھ اور ہی منظور تھا جو پھول سج سنورکر رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس ہوکر مری کے سفر کو روانہ ہوئے تھے وہ اپنی پسندیدہ منزل پر پہنچنے کے بجائے اپنی ابدی منزل کو پہنچ گئے۔ قوم کی زندگی میں ایک اورانتہائی دردناک سانحہ گزر گیا ہم سب چند دن اس کو یاد رکھیں گے اور پھر سب کچھ بھول بھال کر اپنی معمول کی مصروفیات میں کھو جائیں گے ۔یہی وہ لمحہ فکریہ ہے جس پر ہم نے کبھی غور کرنا گوارا نہیں کیا لیکن کچھ ذمے داریاں اللہ نے بندوں کے سپرد بھی کر رکھی ہیں جن میں ایک اہم ذمے داری اپنی جان کی حفاظت کا حکم بھی ہے۔

لیکن ہم اپنی روائتی لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ کچھ ایسا ہی سانحہ مری میں ہوا اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد موسم کی شدت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مری پہنچ گئی۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ہم سب نے دیکھ اور سن لیا۔ ریاست کی کیا ذمے داری تھی اور حکومت کو اس ضمن میں کیا پیشگی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی اور حکومت اس سانحہ کی کس حد تک ذمے دار ہے اس کا فیصلہ تو شاید کبھی نہ ہو سکے کیونکہ آج تک کسی بھی سانحہ میں حکومت کی ذمے داری کا تعین واضح نہیں ہو سکا، افسوسناک اور شرمناک ہے مشکل صورتحال میں جس طرح سیاحوں کو لوٹنے کے واقعات سامنے آئے ہیں وہ بحیثیت قوم ہماری اجتماعی بے حسی کی ایک شرمناک تصویر ہیں۔

سنتے ہیں کہ تحریک خلافت میں برصغیر کی خواتین نے اپنے زیور اتار کر خلیفہ کو بھجوائے تھے اور آج یہ علم ہوا ہے کہ ہماری ایک مجبور اور لاچاربہن نے مری میں ایک رات بسر کرنے کے لیے اپنے زیور اتار کر ہوٹل کا کمرہ کرائے پر حاصل کیا ۔ الامان الحفیظ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔