عوام کی سادگی

ظہیر اختر بیدری  پير 28 فروری 2022
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہمارے سیاستدان روپ بدل بدل کر ہم پر ہمیشہ مسلط رہے ہیں اورعوام کی بدنصیبی ہے کہ وہ تبدیلی کے اس کھیل کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔ ہمارے عوام کی سادگی دیکھیں کہ وہ دوست اور دشمن کو پہچانے بغیرسیاسی لیڈروں اور سیاسی جماعتوں کو اپنا مشکل کشا سمجھ لیتے ہیں۔

ہمارے حاکموں اور سیاستدانوں کی ساری لیڈری ان کے خاندانوں کی لوٹی ہوئی دولت، ان کے امیدواروں کے جلوسوں میں مہنگی سے مہنگی گاڑیوں کی شرکت اورلباس و رہائش میں تمکنت سے ہے۔غریب امیر کے درمیان فرق کی خلیج گہری سے گہری ہو چکی ہے۔ معاشرے میں غریبوں کے روٹی کپڑے کے سنگین مسائل حل نہ کرسکنے پر شرمندگی تو ایک طرف ہمارے سیاستدان اپنے وسائل اور اقتدار یا مقتدر حلقوں سے اپنے تعلق پر فخر کرتے اور محروم انسانوں کو ان کی محرومی کا احساس دلا کر اپنے تفاخر کا سامان کرتے ہیں۔ اس معاشرے میں حاکم اور محکوم میں ڈر،خوف یا بخشیش اور عنایات کے رشتے کو استعمال کرکے ہی لیڈری چمکائی جا رہی ہے-

اپنے لیڈروں سے توقعات وابستہ کرنے میں قوم دو انتہاؤں کے درمیان رہتی ہے۔ ہم ان سے ذاتی اوصاف کے سلسلے میں یا تو خلفائے راشدین والا کردار چاہتے ہیں یا اس جبر اور استحصال کی دنیا کے مطابق نہایت مضبوط، عالیشان،دولتمند اور مخالفوں کے لیے بے حد سخت اور جابر قسم کا انسان ہمارا ہیرو بنتا ہے۔ اس کے درمیان میں ہم ایک صاف ستھرے،دیانتدار، باصلاحیت اور نظم و ضبط کے پابند اور مزاج اور  اخراجات میں سادہ انسان کی کوئی گنجائش ہی نہیں رکھتے۔دوسری طرف ووٹروں کی امیدواروں سے قومی کے بجائے ذاتی توقعات زیادہ رہتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ انتخابات کے دوران زیادہ سے زیادہ روپیہ لٹانے والا ہی سرخرو رہتا ہے۔

اس کھیل میں کبھی اپوزیشن کا روپ دھار کر سیاسی جماعتیں عوام کو بے وقوف بناتی ہے،اور کبھی اقتدار میں آکر عوام کو بیوقوف بناتی ہیں۔ تبدیلیوں کے کھیل کا نیا ناٹک شروع ہو رہا ہے لہٰذا عوام کو بہت چوکنا رہنا ہوگا۔ یہ کھیل اس قدر طویل اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے بھولے عوام دوست اور دشمن کو پہچان نہیں پاتے، اس کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اچھے اور برے میں پرکھ نہیں پاتے، نتیجہ یہ ہے کہ یہ کھیل بڑے اطمینان سے کھیلا جا رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام اتنے ناسمجھ ہیں کہ طبقہ اشرافیہ کو اپنے سروں پر بٹھائے ہوتے ہیں۔

دراصل ہمارے ہاں ایسے کوئی ادارے نہیں جو اس سلسلے میں افراد قوم اور قومی رہنماؤں کی تربیت کر سکیں، ان پر دباؤ ڈال سکیں، اسمبلیوں اور حکومت میں پہنچنے سے پہلے لوگوں کو کفایت شعار اور قوم کے وفادار انسانوںکا درجہ دے سکیں؟ کیا ہمارے اسکول، کالج، یونیورسٹیاں، مساجد، مذہبی اور سماجی تنظیمیں اس پر کوئی توجہ نہیں دے سکتیں؟

عوام کی تربیت کرنے اور ملک میں اچھے انسانوں کو آگے لانے کی فضا پید ا کرنے کے لیے وہ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بے حد موثر اور کامیاب مہم شروع کرسکتے ہیںجن کا پس منظر لوٹ کھسوٹ والا نہیں۔اس طرح کے تربیتی پروگرام عوام کی طرف سے سراہے جائیں گے اور یہ کام کرنے والوں کے لیے یقینا کسی بھی طرح کے جھوٹے پراپیگنڈا اور اودہم مچانے والی مہموں سے زیادہ تائید و حمایت اور ہمدردی پیدا ہوگی –

جب تک خود عوام لغویات کو اپنا مقصد حیات بنانا نہیں چھوڑتے، ایک مطمئن اور اعلیٰ اقدار کی حامل زندگی کے متمنی نہیں ہوتے، اس وقت تک ان کے لیے اچھے لیڈروں اور حاکموں کا ملنا امر محال رہے گا۔ روزمرہ زندگی میں ایک عام آدمی اگر صرف ایسے لوگوں کی عزت ہی دل میں بسائے جن سے اسے کچھ ملنے کی توقع ہو، قوم وملک اور عام انسانوں کی بھلائی کے کام کرنے اور سچائی کے اصولوں کو اپنانے والے لوگوں کی عزت اور قدر کا رویہ نہ اپنایا جائے تو پھرایسے رویوں کی تبدیلی کے بغیر ہمارے مستقبل سنوارنے والے انقلاب کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اس حوالے سے سب سے بڑی غلطی اس طبقے کی ہے جو اس غلطی یعنی غلط فہمی کا ارتکاب کر رہا ہے کہ طبقاتی دشمنوں کو دوست سمجھ رہا ہے، اس غلطی کا ارتکاب وہ غریب عوام کر رہے ہیں جو عموماً غریب طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ نظربندی کے اس کھیل کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عوام دوست اور دشمن کو نہیں پہچانیں گے۔ طبقاتی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ وہ غریب عوام کو دوست اور دشمن کی پہچان سے محروم کر دیتی ہے۔ اس کھیل میں مڈل کلاس نادانی کی وجہ سے دشمن کو دوست سمجھتی ہے ،اور یہ ایک ایسا المیہ ہے جس نے انسانوں کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کردیا ہے اور یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں بلکہ ایک پری پلان منصوبہ ہے، اس کا مقصد غریب طبقات کو ایک دوسرے سے الگ کرنا اور طبقاتی تقسیم کو گہرا کرنا ہے۔

مشکل یہ ہے کہ اعلیٰ طبقات نچلے طبقوں کو تقسیم کرکے ایک دوسرے سے متصادم کردیتے ہیں اور ان کی طاقت کو کمزور کردیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا، یہ کام وہ لوگ کرسکتے ہیں جو طبقات میں بٹے ہوئے اور طبقاتی منافرت میں ڈوبے ہوئے بے بس انسانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے بجائے انھیں ایک دوسرے سے دور کرکے ان کی طاقت کو کمزور کر دیتے ہیں ،جب تک ان تلخ حقیقتوں کو غریب لوگ سمجھیں گے نہیں وہ طبقاتی ناانصافیوں کو ختم نہیں کرسکتے۔

کیا ہمارے عوام آیندہ انتخابات میں سادہ اور صاف ستھری زندگی گذارنے والے صحیح قائدین کے انتخاب پر توجہ دے سکیں گے؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم چمک دکھانے والے حاکموں اور لیڈروں کا ان کے اسراف پر محاسبہ اور انھیں اپنے ووٹ کا نااہل قرار دے کر چلتا کریں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔