قومیتوں سے آگے نکل کر سوچیں

علی احمد ڈھلوں  جمعرات 24 مارچ 2022
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

23 مارچ ایک تاریخ ساز دن جب برصغیر کے مسلمانوں کی منزل کا تعین ہوا اور قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانوں نے اپنی اس منزل کو پا لیا۔ 23 مارچ 1940کو منٹو پارک لاہور میں قرارداد منظور ہوئی جو بعد میں ’’قرارداد پاکستان‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔

اس دن آل انڈیا مسلم لیگ نے اے کے فضل حق جو بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے کی پیش کردہ قرارداد منظور کر کے یہ پیغام دیا تھا کہ اب متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا ایک ساتھ رہنا بہت مشکل ہے۔

قرارداد پاکستان کی منظوری کے 7 سال بعد مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر مملکتِ خداداد پاکستان نمودار کر کے انقلاب برپا کر دیا۔ لیکن وہ دن اور آج کا دن پاکستان مسلسل بحرانوں کی زد میں ہے کیونکہ قائد کے دنیا سے چلے جانے کے بعد طالع آزماؤں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔

آپ کا وژن اور پاکستان کے بارے میں خیالات ہمیشہ اعلیٰ درجے کے رہے، قرار داد پاکستان پیش کرتے وقت قائداعظم محمد علی جناح سینئر مسلم لیگی رہنماؤں کے جلو میں جلسہ گاہ پہنچ گئے۔ ان کے ابتدائی الفاظ کچھ اس طرح تھے۔

My Dear Brother and Sisters, this is the month of march, and now we have to start the march towards victory.

قائد اعظم کی گرجدار اور رعب دار آواز سنتے ہی لاکھوں کا مجمع تالیوں سے گونج اُٹھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک وقت کے لیے دنیا کو ایسا پیغام گیا کہ ایک ایسی ریاست قائم ہوگی جو دنیا میں اپنا منفرد مقام رکھے گی۔ لیکن ہم آغاز میں ہی اُس وقت فیل ہو گئے جب ہم نے قائد اعظم کے جانے کے بعد اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کرنا شروع کردیا۔

حالانکہ پاکستان کو حاصل کرنے کے چیدہ چیدہ مقاصد میں سب سے اول مقصد ہر ایک کویہاں مذہبی آزادی ہوگی۔اس کے علاوہ دیگر مقاصد میں ایک نڈر ریاست، جھوٹ و جبر سے پاک ریاست، تعصب سے پاک ریاست، لسانیت سے پاک قومی بھائی چارے کی ریاست اور ایک آزاد ریاست کا قیام تھا جہاں ہر چیز معیاری ہوگی اور ایک سسٹم کے تحت ملک آگے بڑھے گا۔لیکن اس کے برعکس آج پاکستان کو قائم ہوئے 75 برس ہو رہے ہیں لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل تشنہ رہ گئی ہے۔ آج جب بھی کبھی پاکستان پر کوئی آفت آتی ہے تو یقین مانیں ’’قرار داد مقاصد ‘‘ کا بھرکس نکل جاتا ہے۔ بقول شاعر

اب کام نہیں کوئی، جز کار عزاداری

جب رو لیے جی بھر کے، پھر رونے کی تیاری

نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تاریخی جدوجہد اور لاکھوں جانوں کے نذرانے دے کر حاصل ہونے والا پاکستان آج مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔

آج اگر ہم اس ملک کو ٹھیک کرنے کا عہد کرنا چاہیں اور سب سے پہلے اس ملک کے مسائل کو ایک ایک کرکے ختم کرنا چاہیں تو اس میں سب سے پہلا مسئلہ ہمارے ہاں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹی ہوئی قوم کا ہے۔کیوں کہ قائد اعظم کی رحلت کے بعد ہم قومیتوں میں ایسا پھنسے کہ پھر ہمیں ایک قوم بننا یاد ہی نہ رہا۔ اسی قوم پرستی نے اس ملک کو اتنا نقصان پہنچایا کہ ہر کوئی انفرادی ترقی کے بارے میں سوچنے لگا۔ کسی نے اجتماعی ترقی کی طرف توجہ نہ دی۔ حالانکہ ہمارے قائدین نے اس ملک کو حاصل ہی ایک قوم بننے کے لیے کیا تھا۔

آپ مولانا محمد علی جوہر کو دیکھ لیں۔ 1930 میں وہ بیماری کی حالت میں لندن گئے جہاں انھوں نے ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کرنا تھی، وہاں وہ برطانیہ کے وزیراعظم جیمز رمزے میکڈونلڈ کو مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’’بیماری کے باوجود میرے یہاں آنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ میں اپنے ملک کے لیے آزادی کا پروانہ لے کر واپس جاؤ ں گاتاکہ ہم برصغیر کے مسلمان ایک ’’قوم‘‘ بن سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ایک غلام ملک میں جانے کی بجائے ایک آزاد ملک میں مرنا پسند کروں گا‘‘ ۔

ابھی لندن میں ان کی شاندار تقریر کی گونج باقی تھی کہ چند روز علیل رہنے کے بعد چار جنوری 1931کو وہ دیارِ غیر (لندن) میں انتقال کرگئے۔ ان کی خواہش کے مطابق انھیں ’’غلام ملک‘‘ میں واپس نہ لایا گیا۔ ان کے جسدخا کی کو فلسطین لے جایا گیا جہاں مفتی امین الحسینی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس مرد ِ درویش کو بیت المقدس میں دفن کیا گیا ۔ آج کے پاکستان کو ایک بار پھر قومیتوں سے نکل کر ایک قوم بن کر دکھانا ہے۔ سچ اور حق کے حصول کا جذبہ رکھنے کا مظاہرہ کرنا ہے۔ پاکستان سے لگن میں اپنے اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر ثابت قدم رہنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔