جہیز ضروری یا مجبوری

عمرفاروق سردار  پير 24 فروری 2014
دور جدید میں بہت سے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ شادیاں نہ ہونے کی بنا پر بچیاں نفسیاتی مریض اورپاگل تک ہوجاتی ہیں. ڈیزائن: منظرالہٰی

دور جدید میں بہت سے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ شادیاں نہ ہونے کی بنا پر بچیاں نفسیاتی مریض اورپاگل تک ہوجاتی ہیں. ڈیزائن: منظرالہٰی

ماں باپ بڑی محبت اور محنت مشقت کے ساتھ اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں اور انہیں بڑا کرتے ہیں ۔بچیوں کے پیدا ہوتے ہی ماں باپ کو ان کی شادی کی فکر شروع ہو جاتی ہے جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اس فکر میں بھی اضافہ ہو تاجاتا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں ایک غریب خاندان کے لیے اپنی بیٹی کا جہیز تیار کرنا ہی ایک بڑا چیلنج بن گیاہے ۔جہیزضروری ہے یا مجبوری یا لعنت ۔ اس مسئلے پر میں نے ایک 100 سے زائد افراد کی رائے لی ہے ۔80فیصد نے جواب دیا کہ آج کے دور میں جہیز ایک مجبوری ہے ۔اور کچھ نہ کچھ ضرورت بھی بن چکی ہے۔دیکھا جائے تو اس ماحول میں تو جہیز ضروری اور مجبوری دونوں بن چکا ہے ۔ جو لوگ جہیز نہیں دے سکتے وہ بچیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں ان کے ہاتھ پیلے نہیں ہوپاتے ، ہمارے رسم رواج جہیز کلچر کی سولی پر لٹکے ہوئے ہیں۔

دور جدید میں بہت سے ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ شادیاں نہ ہونے کی بنا پر بچیاں نفسیاتی مریض اورپاگل تک ہوجاتی ہیںاس کے علاوہ ایسے کیسزبھی سامنے آئے ہیں کہ لڑکیاں اسی غم کو دل کولگائے اور بالکل دل برداشتہ ہوکر خودکشی جیسا اقدام کر بیٹھتی ہیں۔

ابھی چند ماہ پہلے 4بہنوں نے اجتماعی خودکشی کی جس کی وجہ بھی یہی بتائی گئی کہ والدین غربت کی وجہ سے دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے پوری کررہیںتھے چار جوانی کی حد پار کرکے بالوں میں چاندی اترتی عمر میں پہنچی ہوئی بیٹوں کا اس مہنگائی کے دور میں جہیزکہاں سے تیارکرتے۔والدین اور بچیاں دونوں نفسیاتی مریض بن چکے تھے اور آخر کار بیچاری لڑکیاں اتنا دل برداشتہ ہوئیںکہ نوبت اجتماعی خودکشی تک جاپہنچی اب کون ذمہ دار تھا والدین ۔حکومت یا ہم عوام(معاشرہ) والدین جو بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرپاتے تھے وہ کیسے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔حکومت وقت جن کے پاس عوامی مسائل کے لیے وقت ہی نہیں بچا صوبائی وزراء کے صرف لاہور سے ساہیوال تک دورے پر 3کروڑ اڑا دیے جاتے ہیںاور اس کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔یہ لوگ عوامی مسائل اور لوگوں کی مجبوریوں سے بے خبر ٹیکسوں میں اضافے کے ذریعے عوام کی کھال اتارنے میں مصروف ہیں ۔

حکمران تو وہ بھی تھے حضرت عمرؓ جوہروقت صرف اس لیے پریشان رہتے کہ میری سلطنت میں اگرکوئی بھوکا مر گیا تو رب کے ہاں جواب دینا پڑے گا۔اس جواب دہی کے احساس نے ان سے راتوں کی نیند تک چھین لی تھی وہ رات بھر علاقے میں نکلتے تاکہ لوگوں کے دکھ درد جان سکیںاور عوام کی رسائی براہ راست حکمرانوں تک موجودتھی ۔لیکن آج کے دور میںوزراء ہی کو وزیراعظم سے ملنے کے لیے کئی دن درکار ہوتے ہیں۔اور ہم عوام ایک بہت بڑا کردار ہمارا اپناہے۔ہم خود اپنے اس پاس خیال نہیں رکھتے کون کس حال میں ہے، اب تو ہماری اپنی حالت یہ ہے کہ ہر ایشوپر حکومت وقت کو موردالزام ٹھہرا کر نکل جاتے ہیں لیکن خود اپنی ذمہ داری کااحساس ختم ہوکر رہ گیا ہے۔

ہمارے آس پاس لوگ راتوں کو بھوکے سوتے ہیں، بچیاں جوان ہیں لیکن شادی صرف اس لیے نہیں ہو پارہی کہ غریب خاندان جہیز کا بندوبست نہیںکر پارہا۔یہ ہماری اپنی ذمہ داری ہے ہم اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں اپنے محلے کی سطح پر فلاحی سوسائٹی قائم کرکے ان غریب بہنوں کی شادی کا بندوبست کردیں اور ان کے والدین کے کمزور کندھوں کا بوجھ ہلکا کر دیں۔نوجوان یہ کام بڑے اچھے اندازسے اپنے محلوں کے بزرگوں کی سرپرستی میں سرانجام دے سکتے ہیں۔اور چندعلاقوں میں یہی مثالیں موجود ہے ہیں کہ نوجوان اپنی مددآپ اپنے محلے کے بزگوں کی سرپرستی میں یہ کام سرانجام دے رہیں ہیں ۔ ہم ان این جی اوز اوران کے ورکرز کو سلام پیش کرتے ہیں ۔جو معاشرے میں والدین کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے بچیوں کی شادیاں کرواتے ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سے ایسے افراد بھی معاشرے میں موجود ہیں جو ہر سال بچیوں کی اجتماعی شادیوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ اگر ہر علاقے میںصاحب حیثیت لوگ مل کر اجتماعی شادیاں کروانے کا عہد کر لیںتو یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہوگا اس کے علاوہ حکومت کو بھی ایک منصوبہ بنانا چایئے کہ ہر یونین کونسل کی سطح پر اس حوالے سے کمیٹاں قائم ہو اور ایسے منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکیں اور ہمارا عوام کا فرض ہے کہ جہیز مانگنے اور اس پر مجبور کرنے کے کلچر کی حوصلہ شکنی کی جائے ہر فرد کو اس بات کا احساس دلایاجائے ۔

بلوچستان کے کچھ اضلاع بالخصوص مکران کے علاقوں میں ایک سینکڑوں سال پرانی بہت خوبصورت رسم موجود ہے ۔جس کے مدد۔ امداد۔لین دین۔اسرا جیسے مختلف نام ہیں۔ اس رسم کی خوبی یہ ہے کہ دلہن والے جہیز تیار نہیں کرتے ان کے والدین کو اس پریشانی سے آزادی ہوتی ہے بلکہ لڑکا جو بیروزگاربھی ہوتا ہے اور شادی کا خواہش مند بھی ہوتا ہے ۔وہ اپنے رشتہ داروں،دوستوں،اورقبیلے کے لوگوں سے ملتاہے وہ تمام لوگ لڑکے کی اپنی حیثیت کے مطابق مدد کرتے ہیں مثلا نقدی رقم،بکریاں۔اونٹ ،بیل ،یا اناج وغیرہ دیتے ہیں جس سے لڑکا اپنا جہیز تیار کرتا ہے اور اپنی شادی کے اخراجات پورے کرتا ہے اور ساتھ ساتھ ان ہی روپوں سے اپنا کوئی نہ کوئی کاروبار بھی شروع کرتا ہے۔

اس رسم کا ایک اور حسن یہ بھی ہے کہ لڑکا اپنا کاروبارچلانے کے چند عرصہ بعد ہی اپنے رشتہ داروں ،دوستوں اور قبیلے والوں کو شادی کے لیے لیا ہوا روپیہ وغیرہ وآپس کر دیتا ہے یا دوسرا طریقہ کہ ان کی شادی کے موقع پر لوٹاتا رہتاہے۔بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اگر ایسی رسم موجود ہے جس سے لڑکی کے والدین کے کندھوں کا بوجھ لڑکا اپنے دوست احباب کی مددسے اپنا فرض سمجھ کر خود نبھتاہے تو ہم اس رسم کو پنجاب خیبر اورسند ھ سمیت پورے پاکستان میں کیوں پرموٹ نہیں کرسکتے ۔
ہمیں جہیز کلچر کی حوصلہ شکنی کے لئے بڑے پیمانے پر ایک مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے اس کلچر کو جڑسے اکھاڑ پھینکے۔ آئیے ہم اپنے گھر سے اس وباء کے خاتمے کاآغاز کریںاورہمیں بلوچستان کے ضلع مکران کی اس رسم (مدد،اسرا،امداد)کو اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھانا ہے جس سے جہیز کلچر کا خاتمہ ہوسکتے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔