کتنے حکمران آئے اور چلے گئے

فاطمہ نقوی  اتوار 8 مئ 2022
fnakvi@yahoo.com

[email protected]

رمضان کا برکتوں والا مہینہ گزر گیا ، ہمیں اس مہینے میں تین روزہ نفلی اعتکاف کی توفیق نصیب ہوئی ، موبائل نہیں، کسی سے بات چیت نہیں، صرف اللہ پاک کے حضور سجدے اور تلاوت قرآن پاک اور کسی سے بات نہیں۔

ایک ایسی کیفیت تمام اعتکاف کے دوران طاری رہی کہ جس کی لذت آج بھی محسوس ہوتی ہے دنیا کے جو کام کرنے میں ہی دن گزر جاتا تھا جلدی جلدی میں نمازیں پڑھی جاتی تھیں جن میں نہ لذت نہ لطافت، دعا بھی جلدی میں مانگ لی جاتی تھی دنیا داری میں ہی الجھے رہے لیکن جب یہ توفیق ملی تو محسوس ہوا اصل عبادت اور اسکی لذت تو یہ ہی ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے یہ کیفیت یہ دعائیں ہماری زندگی کا حصہ بنی رہیں، پھر ایک کیفیت یہ رہی کہ ہم سمجھتے تھے کہ ہمارے بغیر کوئی کام نہ ہوگا ہم جو مشورہ دیں گے وہی صحیح ہوگا اور یہی سوچ کر ہر ذمے داری کو اٹھانے کے لیے تیار رہتے تھے کہ دنیا کے کام ہمارے بغیر نہیں ہوسکتے نمازوں کو بھی اپنے کاموں کے اوقات کے حساب سے ادا کرتے لیکن جب اعتکاف میں بیٹھے دنیا کا تصور چھوڑ کر صرف اللہ کے آگے تہہ دل سے سربسجود ہوئے تو احساس ہوا باقی کچھ بھی نہیں صرف اللہ اللہ ہے گھر اور آفس کے کام کیسے ہو رہے ہیں کوئی فکر نہیں، سحری اور افطاری میں کیا ہوگا کوئی بوجھ نہیں، صرف اللہ کا ذکر ہمارے ساتھ اور ہم درود کی محفل منعقد کرتے تو لگتا ہمارے آس پاس کچھ لوگ موجود ہیں، مگر یہ صرف روحانی احساس ہوتا۔

ایک عجیب سی کیفیت تھی جس کا بیان کرنا بھی بہت مشکل ہے، اپنے بیگانے جانے انجانے سب کے لیے دعا کی تو احساس ہوا کہ ہماری دعائیں تو فوراً ہی قبول ہوجائیں گی کبھی کسی کی تکلیف کا سوچ کر آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں تو کبھی اپنوں کے لیے درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہوئے محسوس ہوا کہ ہمارے والدین ہمارے اپنے، غیر سب خوش ہو رہے ہیں کہ ان کو رمضان کا تحفہ مل رہا ہے تو کبھی شان رسولؐ کی نعتیں سنتے پڑھتے سیرت پاک کا تصور کیا تو اپنا محاسبہ ضرور کیا کہ ہمارے نبیؐ کا درس کیا ہے اور ہم کس طرح کے کاموں میں الجھے ہوئے ہیں غرض یہ دن کڑے محاسبے کے دن تھے، اپنی تربیت کے بھی تھے لوگوں کی بھلائی کے لیے کی جانے والی دعائیں بھی تھیں اور ایک بات یہ سیکھی کہ اگر ہم صرف اپنی اصلاح کرلیں، یہ بات سب اپنے دل میں ٹھان لیں تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے ہم دنیا میں دوسروں کی اصلاح کی فکر میں رہتے ہیں اپنی نہیں، تو یہ بھی سوچنا ہے غرض وہ لطف ملا کہ جس کی حد نہیں، تنہائی اور اللہ کی یاد۔

اس کی عبادت سب نے مل کر ایسا سماں باندھ دیا کہ جب آخری روزہ تھا تو اعتکاف توڑنے کو دل نہیں کر رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ ہم کسی سے بچھڑ رہے ہیں ہم پھر اس دنیا میں واپس جا رہے ہیں جہاں جھوٹ ہے، نفرت ہے، مذہب سے دوری ہے اور اپنی غرض کے ہاتھوں اتنے مجبور ہیں کہ احساس نہیں کہ ہماری حرکتوں سے کسی کا دل ٹوٹے گا تو کہیں کسی کی زندگی خراب ہوگی، اللہ پاک سب کو ایسی زندگی گزارنے کا موقعہ دے جس میں اطاعت اللہ اور اطاعت رسولؐ ہو۔

اعتکاف سے باہر آئے تو علم ہوا کہ مسجد نبوی میں جو واقعہ ہوا اس کی بازگشت ابھی تک گونج رہی ہے جو ہوا برا ہوا مگر لوگوں کے اندر اتنا غم اور غصہ بھرا ہوا تھا کہ ان لوگوں کی تکلیفیں دیکھ کر لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے اتنا پیسہ خرچ کرکے لوگ وہاں صرف اور صرف عبادت کرنے جاتے ہیں یہ سوچ لے کر نہیں جاتے کہ کسی کو تنگ کریں گے گالیاں دیں گے بلکہ آخری عشرے میں تو صرف اور صرف مکہ مدینے جانے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ آخری طاق راتیں مقدس ترین جگہ پر گزاریں اپنی مناجات اور حاجات کو اللہ کے حضور پیش کریں کوئی یہ سوچ کر نہیں جاتا کہ اپنے دشمنوں سے جو تم بیزار ہوگی گالم گلوچ ہوگا لیکن جو یہ صورت حال پیش آئی تو اس سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ اس بے عزتی کو حکمران یہ سوچ لیں تو اس شر سے بھی خیر نکل سکتا ہے اللہ پاک سے توبہ کا مقام ہے کہ روضہ رسولؐ پر چور چور کے نعرے سننے کو ملے۔

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

اس لیے تھوڑا اپنا محاسبہ کرلیں تو شاید کچھ عاقبت سنور جائے۔ جس طرح سے حکمرانی چھینی گئی راتوں رات کایا پلٹ ہوگئی یہ ایسے ہی تو نہیں ہو گیا کہ چوروں ڈاکوؤں قاتلوں کے ہاتھ الٰہ دین کا چراغ لگ گیا کہ جیسے ہی رگڑا سب کام اچانک حسب منشا ہوگئے آج جب موجودہ وزیروں کے ہونٹوں سے پھول جھڑتے ہیں کہ 3 سال میں ملک کا بیڑا غرق ہو گیا تو کوئی ان سے پوچھے تیس سال میں آپ نے کیا کیا تھا ۔ ابھی بھی وقت ہے تمام پارٹیاں اپنی دولت پاکستان میں لے کر آئیں تاکہ عوام کو ریلیف دیں تو پھر آپ کا ہی راج ہوگا، قدم اٹھا کر تو دیکھیں تجوریوں کے منہ کھول دیں۔ ملک کا خزانہ بھر دیں کتنے حکمران آئے اور چلے گئے مگر دنیا سے خالی ہاتھ گئے آپ یہ کام کر جائیں تو نہ آئی ایم ایف کی غلامی کرنی پڑے گی نہ کسی کے تلوے چاٹنے پڑیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔