ڈاکٹر پروفیسر سید علی جعفر نقوی

شہناز احد  پير 23 مئ 2022
جن کے جانے سے نیفرولوجی یتیم ہوگئی! ۔ فوٹو : فائل

جن کے جانے سے نیفرولوجی یتیم ہوگئی! ۔ فوٹو : فائل

نیفرولوجی کسی کا نام نہیں، یہ امراض گردہ کی ان بیماریوں کی اسپیشلٹی ہے جسے امراض گردہ کے ماہر دواؤں سے بہتر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امراض گردہ کا وہ ماہر جو چاقو چھریاں چلاتا ہے اسے یورولوجسٹ کہتے ہیں۔ یہ وضاحت میں نے اس لیے کی ہے کہ پڑھنے والے جان سکیں نیفرولوجی کون ہے؟ کیا کرتی ہے؟ کہاں پائی جاتی ہے؟ اور کیوں یتیم ہوگئی ہے؟

اس ملک میں اب سے تقریباً پانچ دہائی قبل کوئی نیفرولوجی کانام تک نہیں جانتا تھا۔ مختلف امراض کے ذیلی اثرات سے متاثرہ افراد کے گردوں کا علاج ایک عام فزیشن ہی کرتا تھا اور کیوں کہ علاج کی سہولیات بہت ہی محدود تھیں لہٰذا مکمل خرابی گردہ کے مریضوں کو آخر میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔

ستر کی دہائی کے ابتدائی دنوں میں ایک ڈاکٹر نے پاکستان میں قدم رنجہ فرمایا کہ انھیں ان کے والد بزرگوار نے جناح اسپتال میں ڈاکٹروں کی ضرورت کا اشتہار بھیجا تھا، جس کے جواب میں انھوں نے شکاگو کے ایک بڑے اسپتال کی نوکری کو خیرباد کہا اور رخت سفر باندھنا شروع کردیا تو ان کے پروفیسر نے انھیں احساس دلایا کہ وہ ’’بہت بڑی غلطی کرنے جارہے ہیں۔‘‘ یہ بات انھیں بہت بری لگی جواب میں انھوں نے گرین کارڈ کے دو ٹکڑے کیے اور پروفیسر کو واپس کردیے۔

گرین کارڈ کے دو ٹکڑے کرنے والی اس شخصیت کو دنیا ڈاکٹر پروفیسر سید علی جعفر نقوی کے نام سے جانتی ہے۔ اپنی تنک مزاجی کا یہ قصہ وہ سب کو ہنس ہنس کے سناتے اور خاص طور پر ان سب کو جو پاکستان سے بے زار اور دیارغیر میں رہنے کے خواب دیکھتے۔

اپنی زندگی کے مدوجزر کی کہانی سناتے ہوئے وہ بہت فخر سے بتاتے کہ قیام پاکستان کے بعد ابا کو جمشید کوارٹرز میں گھر ملا تھا اور وہیں رہتے ہوئے انھوں نے اپنی میڈیکل کی تعلیم مکمل کی۔ ہاؤس جاب کے بعد پہلی ملازمت کا آغاز بھی وہیں سے کیا۔

ان کی ابتدائی ملازمت ڈرگ روڈ میں واقع ایک سرکاری ڈسپنسری میں تھی ان کا کہنا تھا،’’ابا جس اسکول میں تدریس کا فرض انجام دیتے تھے وہ بھی وہیں تھا لہٰذا صبح سویرے ہم دونوں باپ بیٹے ٹہلتے ہوئے لسبیلہ سے بس پکڑتے، ڈرگ روڈ اترتے، ریلوے لائن کراس کرتے اور اپنی، اپنی ڈیوٹی پر پہنچ جاتے، اس بہانے ہم دونوں کی بہت اچھی واک بھی ہوجاتی تھی۔‘‘

یہی نوکری کرتے، کرتے وہ مزید تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔ ابتدا میں انھوں نے نفسیات داں بننے کی کوشش کی کہ چند بہت اچھے دوست اسی شعبے میں زیرتربیت تھے۔ پھر اچانک ذہن بدلا اور نیفرولوجی کی طرف رخ کرلیا۔ شعبہ طب میں اس وقت نیفرولوجی کا نام خال خال ہی سننے کو ملتا تھا۔ ڈاکٹر جعفر نقوی نے اپنا ایم ڈی نیفرولوجی مکمل کرنے کے بعد چند سال کام کیا اور پھر امریکا چلے گئے۔ اس دوران ان کی خانہ آبادی ہوئی اور وہ باپ کے ’’عہدے‘‘ پر بھی فائز ہو چکے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکا میں اپنے قیام کے تذکرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کہتے سب کچھ بہت اچھا تھا لیکن پھر بھی ایک ادھورے پن کا احساس ہوتا تھا اسی لیے ابا نے جب مجھے جناح اسپتال کی ویکینسی کا بتایا تو مجھے کچھ سوچنا نہیں پڑا، میں نے ایک دم فیصلہ کیا اور اپنے پروفیسر کو مطلع کر دیا۔

مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ گرین کارڈ کے ٹکڑے اسی لیے کیے کہ کبھی پلٹنے کا خیال نہ آئے۔ بوقت واپسی ان کے پروفیسر نے انھیں دو عدد ڈائلیسس مشینوں کا تحفہ بھی دیا۔ اس وقت کی وہ مشین آج کے دور کی سلم اسمارٹ کم از کم چھے میشینوں کے برابر کا احاطہ کرتی تھی۔

وطن واپسی پر ان کو ملازمت تو مل گئی لیکن اتنے بڑے جناح اسپتال میں نہ تو ان کے بیٹھنے کا ٹھکانا تھا نہ ہی مریضوں کے لیے کوئی جگہ مختص تھی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ ستر کی دہائی تک جناح اسپتال کے بیشتر وارڈ انگریزوں کی بنائی ہوئی بیرکس میں ہوتے تھے۔

ان بیرکوں میں سے ایک خالی بیرک جو کہ انتہائی بوسیدگی کا شکار تھی اور جس کو زمین بوس کرنے کے پروگرام بن رہے تھے، ڈاکٹر نقوی نے اس وقت کے ڈائریکٹر جناح ہسپتال سے اس کو اپنی ذمہ داری پر لے لیا۔ جب بھی اس کا نقشہ بیان کرتے تو یہ ضرور کہتے کہ ’’بھوت بنگلہ ‘‘ تھا۔ بیرک کے برآمدے کی صفائی ستھرائی کے بعد مستعار لی ہوئی میز کرسی پر بیٹھ کے مریضوں کی تشخیص کا کام شروع کردیا۔

وہ بتاتے تھے ابتدائی چند ماہ بہت مشکل تھے لیکن پھر ان کے جوش، جذبے اور یقین کے آگے راہیں کھلتی چلی گئیں۔ مشہور زمانہ محکمہ پی ڈبلیو ڈی سے انھوں نے کس کس طرح بیرک کو انسانی استعمال کے قابل بنوایا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ بتانے کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ جناح اسپتال کے نیفرولوجی وارڈ میں آج بھی اس گرائی جانے والی بیرک کی سیڑھیاں اور چھت قائم دائم ہیں۔

کہانی اصل یہ ہے کہ ڈاکٹر جعفر نقوی کا ایمان اس ایک بات پر بہت پختہ تھا کہ کمیونٹی یعنی لوگوں کو ساتھ ملا کر آگے بڑھنے کی صورت میں بڑے سے بڑا کام کیا جا سکتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لوگ ملتے گئے، اچھے، برے، معصوم، کینہ پرور، جان دینے والے، مطلب پرست، محبت میں سرشار یوں ان کے ساتھ لوگوں کا قافلہ بنتا گیا۔

جس کا ثبوت ان کا ۲۲ نمبر کا وہ نیفرولوجی وارڈ ہے جو جناح اسپتال کا واحد وارڈ ہے جس میں آج سے ۳۵ سال پہلے بھی ایکسرے مشین، الٹرا ساؤنڈ، آپریشن تھیٹر، آئی سی یو تھا اور آج بھی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کے عام رواج کے مطابق ۲۲ نمبر وارڈ میں آنے والا مریض کبھی بھی اسپتال کی مرکزی لیب، ایکسرے یا کسی اور ضرورت کے لیے ادھر ادھر نہیں پھرتا تھا۔ ان کے وارڈ میں کبھی زنگ آلود ٹوٹے پلنگ، بنا چادر کا بستر یا باتھ روم میں غلاظت نظر نہیں آتی تھی۔

صبح ساڑھے سات بجے وارڈ میں پہنچتے تو سب سے پہلے باتھ روم چیک کرتے پھر مریضوں کی فائلوں پر سرسری نظر ڈالتے کہ گزری رات کے اندراج مکمل ہیں یا نہیں۔ نیچے آتے تو اسٹاف کی حاضری دیکھتے اور فوراً ہی پوسٹ گریجویٹ کی کلاس شروع ہوجاتی کہ او پی ڈی کو بھی تو وقت پر شروع ہونا ہوتا تھا۔

جب تبدیلی گردہ کا پروگرام بنایا تو ٹشو ٹائپنگ سے لے کر، اسٹاف کی تربیت، ضروری آلات دوائیں غرض کہ ہر چیز کو کمیونٹی کی مدد سے پایۂ تکمیل کو پہنچایا۔ یہ ان ہی کا وضع کردہ اصول تھا کہ گردہ دینے والا خاندان کا فرد ہوگا کوئی مول تول نہیں ہوگا۔ جاننے والے اتنے ہیں کہ آج بھی کراچی واحد شہر ہے جہاں کاروبار گردہ نہیں ہوتا۔ان کا قافلہ چلتا رہا، لوگوں کی محبتیں اور تعاون ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے، تو انھوں نے ایک اور خواب دیکھنا شروع کردیا۔ ایک مکمل گردہ اسپتال کا خواب، ایک ایسا اسپتال جہاں امراض گردہ کے علاج کی تمام تر سہولیات ایک چھت کے نیچے مہیا ہوں۔

under the one roof ان ہی کا بنایا ہوا سلو گن تھا۔ابتدا میں دوست احباب، جاننے والوں، ہم پیشہ، فارما انڈسٹری سے اس بارے میں تبادلہ خیال شروع کیا تو کچھ نے پذیرائی کی اور کچھ نے حوصلہ شکنی، لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے ساتھ ان کی گفت و شنید چلتی رہی۔ ۸۰ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں وہ لوگوں کا ایک ایسا گروپ تشکیل دینے میں کام یاب ہوگئے جو دامے، درمے، سخنے ان کا ساتھ دینے کو تیار تھا۔

ابتدا میں جب وہ مختلف اداروں اور افراد کے گروپس میں اپنے برین چائلڈ کو لے جاتے تھے تو شہر کے لوگ ہنستے تھے اور کہتے تھے آپ ساڑھے آٹھ کروڑ روپے جمع کرنے کی بات ایسے کرتے ہیں جیسے ساڑھے آٹھ سو روپے۔پھر دیکھتی آنکھوں نے دیکھا اور سنتے کانوں نے سنا کہ اس شہر میں شروع ہونے والا یہ پروجیکٹ نہ صرف شہر کراچی کا بلکہ پورے پاکستان کا پہلا پروجیکٹ تھا جس کی بنیاد عوامی عطیات کے حصول پر رکھی گئی تھی۔ اور عطیات کے لیے اس شہر نے کیا نہ کیا عید کارڈ، سیزن کارڈ، فیشن شو، گانا بجانا، میراتھون، واک اے کاز غرض کہ ہر وہ کام کیا گیا جس میں کمیونٹی بھرپور انداز میں حصہ لے سکے اور عطیات جمع ہو سکیں۔

ایک وقت ایسا تھا کہ امراض گردہ کے لیے بننے والا اسپتال ٹاک آف دی ٹاؤن تھا۔ شہر کے لوگ اس کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار فخریہ کرتے تھے۔

مجھے یاد ہے نوے کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں لاہور سے کینسر اسپتال کے لیے کام کرنے افراد کا ایک گروپ ڈاکٹر جعفر نقوی سے ملاقات کے لیے آیا تھا اور بار بار ایک ہی بات پوچھتا تھا کہ آپ نے اتنے پیسے کیسے جمع کرلیے؟ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا،’’اگر آپ لوگ لاہور شہر سے سو ڈیڑھ سو پاگل جمع کر سکتے ہیں جیسے میں نے کراچی میں جمع کیے ہیں تو سب کچھ کر سکتے ہیں۔‘‘ پھر مسکراتے ہوئے میری طرف اشارہ کیا دیکھیں ایک پاگل یہ بیٹھی ہے۔ ہر سال کئی لاکھ تو یہ اکیلی جمع کر لیتی ہی۔

ان دنوں اس ملک کے بہت سارے اداروں اور لوگوں کو یہ جاننے کا شوق تھا کہ ڈاکٹر جعفر نقوی کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے جسے سونگھا کر وہ لوگو ں کو رام کر لیتے ہیں۔ گیدڑ سنگھی کا تو پتا نہیں لیکن اپنے کام سے جنونی محبت، کمٹمنٹ اور پیسے پیسے کا حساب یقیناً وہ کرشمہ تھا جس نے اس خواب کو نہ صرف شرمندۂ تعبیر کیا اس ملک کے لوگوں کے لیے ایک مثال بنا کے کھڑا کردیا۔ اسپتال کی تعمیر میں دو روپے سے لے کر لاکھوں روپے کے عطیات جمع ہوئے۔لوگوں کے لیے یہ بات تعجب خیز ہوگی کہ اسپتال کی تعمیر میں ایدھی مرحوم اور ان کی مرحومہ بیگم نے بھی تین لاکھ کا عطیہ دیا تھا۔آج پیچھے مڑ کر دیکھوں تو یادوں کی ایک بارات ہے۔ جھلمل، جھلمل کرتی سیکڑوں شکلیں میرے ذہن کی اسکرین پر ابھر رہی ہیں ڈوب رہی ہیں۔

اُن سے وابستہ ہزاروں قصے اور واقعات ہیں۔ سبق آموز، آنکھیں کھولنے والے، دل بڑھانے اور گھٹانے والے، اسپتال بنا اور خوب بنا، دور دور سے لوگ دیکھنے آتے۔اور تو اور نوازشریف بھی اپنے دوسرے وزارتی دور میں اس بات کا کامل یقین کر لینے کے بعد یہاں کوئی وی آئی پی کلچر نہیں، نہ یہاں حکومتی رعب دبدبہ چلتا ہے، نہ ہی یہ کسی کو بلاتے ہیں، جس کو آنا ہے آجائے ایک شام خاموشی سے چلے آئے اور بولتی بند کے مصداق واپس چلے گئے۔ بے نظیر کو بھی ایک شام ایسی ہی خاموشی کے ساتھ جسٹس دراب پٹیل کی مزاج پرسی کے لیے آنا جانا کرنا پڑا تھا۔

ڈاکٹر جعفر نقوی کو کام کرنے کا جنون تھا۔ اس سر اٹھا کر ابھرتے ہوئے اسپتال کے ساتھ ساتھ انھوں نے نہ صرف جناح اسپتال کے ۲۲ نمبر وارڈ کی مرمت کروائی۔ ایک پورا یورولوجی وارڈ معہ تھیٹر بھی بنوایا، اس سب کے بعد پورے ملک میں ایسی بھیڑچال چلی کہ درجنوں امراض گردہ کے اسپتال بن گئے، پہلے سے قائم اسپتالوں میں گردہ وارڈ کھل گئے، سیکڑوں ڈائلیسس یونٹ کھل گئے اور کئی سو نیفرولوجسٹ تیار ہوگئے۔

پاکستان میں تبدیلی گردہ کا پہلا آپریشن جناح اسپتال میں ڈاکٹر نقوی کی نگرانی میں ہوا پھر سیکڑوں آپریشن ملک کے مختلف اسپتالوں میں ہوگئے۔ قطع نظر اس کے کہاں صحیح ہوا کہاں غلط ہوا، گردے کی تبدیلی کا آپریشن اور اس سے جڑے لاتعداد مسائل کو کنٹرول کرنے کے لیے مخدوم شہاب الدین کے ذریعے اسمبلی میں بل پیش کروایا جو مختلف حکومتی ادوار کے بعد بالآخر کسی نہ کسی طور منظور ہو ہی گیا۔

نیفرولوجی کے بارے میں اتنا کچھ ہوا کہ آخر کار اس اسپیشلٹی کو اس کی شناخت دینی پڑی یوں نیفرولوجی میں ایم ڈی اور ایف سی پی ایس ہونے لگا۔

ڈاکٹرجعفر نقوی کو ریسرچ اور اکیڈمک کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس ایک کام کے لیے وہ ہر ادارے اور شخص کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہوجاتے۔ امریکا سے واپسی کے بعد وہ سوسائٹی آف نیفرولوجی اور یورولوجی بناء بعدازآں پاکستان سوسائٹی آف نیفرولوجی کا قیام عمل میں لائے۔ پاکستان کڈنی فاؤنڈیشن یہ سب ان کے ہی برین چائلڈ ہیں۔

انٹر نیشنل سوسائٹی آف نیفرولوجی کی ایگزیکٹیو کمیٹی میں گئی تو پاکستان کے چھوٹے بڑے ہر نیفرولوجی یونٹ کے ڈاکٹر کو اس کا ممبر بنایا۔ اس کی ساؤتھ ایشیا کمیٹی کو سنبھالا تو خطے کے ڈاکٹروں کی بہتری کے لیے ہر ملک سے دو، دو ڈاکٹروں کی ترقی یافتہ ممالک میں تعلیم تربیت کا پروگرام شروع کیا۔ یہ ہی نہیں انٹرنیشنل سوسائٹی سے منظور کروایا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں ہونے والی کانفرنسوں میں وہ ترقی یافتہ ملکوں سے دو ڈاکٹروں کو اسپانسر کر کے بھیجے گی۔ ساؤتھ ایشیا کے ممالک کی بھی ایک سوسائٹی بنوائی اور اس کے صدر بھی بنے۔

ان کی بڑی خواہش تھی کہ ایک سوسائٹی ایران اور گلف کے ممالک کے ساتھ مل کر بھی بنے اس سلسلے میں بہت ساری کاغذی کارروائیاں ہوئیں لیکن کچھ قانونی اور دیگر مسائل کی وجہ سے کام آگے نہ بڑھ سکا۔پاکستان میں ایشیا پیسفیک سوسائٹی اور دیگر کئی سوسائٹیوں کے ساتھ مل کے متعدد بار کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔

پاکستان کڈنی فاؤنڈیشن کے زیرانتظام انھوں نے صوبہ سندھ کی ہر ڈسٹرکٹ میں نہ صرف کیمپ کئے، لیکچر اور تربیتی پروگراموں کا انعقاد بھی کیا۔اُن کی سرپرستی میں پہلی دفعہ پاکستان میں ڈائلیسس رجسٹری کے کام کا آغاز ہوا اور بنا تعطل کے چودہ سال تک اس کے شمارے چھپتے رہے۔بیسویں صدی کے آغاز پر ڈاکٹر عطاالرحمٰن کی کاوشوں سے کراچی یونیورسٹی نے بھی ایک قطعہ اراضی امراض گردہ پر تحقیق و تالیف کے لیے دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے لوگوں کی شمولیت اور عطیات سے عمارت تو کھڑی کرلی لیکن پیرانہ سالی اور صحت کے متعدد مسائل کے سبب اسے اس کے مقام تک نہ لاسکے۔

پاکستان سوسائٹی آف نیفرولوجی کے مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد اب گذشتہ کئی سالوں سے سوسائٹی کے پیٹرن تھے۔ اور سوسائٹی کے پروگراموں میں انھیں فادر آف نیفرولوجی کہہ کے بلایا جانے لگا تھا۔ جب، جب جونیئر ڈاکٹرز کے کسی فعل پر دل برداشتہ ہوتے تو میں انھیں یہ کہہ کے آپ فادر آف نیفرولوجی ہیں اور اولاد تو کیسی بھی ہو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ ماحول کا تناؤ کم کردیتی، میرے جواب پر مسکراتے ہوئے کہتے اولادیں ناخلف ہوتی جارہی ہیں۔

اولادوں کے نا خلف ہونے پر مجھے وہ ان گنت چہرے ایک دم سے یاد آگئے جو کبھی ان کے گرد مکھیوں کی طرح بھن بھنا تے رہتے تھے اور ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ قدموں کی خاک آنکھوں میں لگالیں۔ وقت کی دھول نے ان کے چہرے چھپا تو لیے ہیں لیکن خیال تو آتا ہے نا، اس شہر کے کتنے لوگ صرف اس لیے آگے پیچھے پھرتے تھے کہ ڈاکٹر نقوی انھیں دو لائن کی سند لکھ دیں۔ وقت بڑا ظالم ہے۔

اکتوبر ۲۰۱۹ میں صحت کے متعدد مسائل کے باوجود سوسائٹی آف نیفرولوجی کی سالانہ کانفرنس میں لاہور گئی اور ہر پروگرام میں پوری دل جمعی کے ساتھ شریک ہوئی، بہت خوش واپس آئی اور باربار کہتے ’’وقار اور اس کی ٹیم نے بہت محنت کی، میں یہ ہی چاہتا ہوں کہ یہ لوگ سوسائٹی کو own کریں اور آگے کی طرف بڑھیں۔‘‘ ہمیشہ کی طرح الیکشن ہوا، اگلی میٹنگ کے لیے کوئٹہ کا انتخاب ہوا۔

یہ بھی ڈاکٹر نقوی ہی کا فلسفہ تھا کہ سب کو موقع ملنا چاہیے۔ اس سال مارچ میں میٹنگ کا انعقاد ہوا تو کوئٹہ جانے سے پہلے اور واپسی میں متعدد ڈاکٹروں کے فون آئے یہ کہنے کے لیے’’جب سے سوسائٹی بنی ہے یہ پہلا موقع تھا کہ ڈاکٹرنقوی اور تم میٹنگ میں نہیں تھے۔‘‘زندگی کے سفر میں گو کہ یہ ایک معمول کا حصہ ہے کہ اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں۔

میں سوچ رہی ہوں کہ کیا اب ایسا ہوگا کہ اصولی طور پر کوئی ڈاکٹر اساتذہ اور صحافیوں سے فیس نہیں لے گا، سرکاری اسپتال میں آکر مریض کو پرائیویٹ کلینک میں نہیں د یکھے گا، وفات پا جانے والے مریض کی فیس واپس کردے گا، اپنے نام کے آگے اس ’’ تمغہ امتیاز‘‘ کا اندراج نہیں کرے گا جو طب کے شعبے میں ان کی خدمات پر حکومت پاکستان نے دیا تھا۔ ان کا فلسفہ تھا کہ وہ مجھے ملا ہے، دنیا کو بتانے کے لیے نہیں۔

ڈاکٹر صاحب! آپ نے مادی دنیا سے تو آنکھیں موند لی ہیں لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے، آپ کا شمار تو ہمیشہ اُن لوگوں میں ہوگا جو سمندر گہرے ہوتے ہیں، ڈوبنے والی جانوں کو تنکوں کا سہارا ہوتے ہیں، چٹانوں کا سینہ، مثال ابر رواں، اونچے درختوں کا سایہ، دل خرچ کیا لوگوں پر، چراغوں کی صورت راہوں میں اجالا کرتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ اب کوئی آپ جیسا نہ آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔