سیاستدانوں کا بھاگ

وارث رضا  اتوار 24 جولائی 2022
Warza10@hotmail.com

[email protected]

اردو دانش کی ضرب المثل بھی شاید ہر موقع محل کے لحاظ سے بڑی دانائی سے کشید کی گئی ہے، اردو میں یہ مثل کہ ’’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘‘ آج کی موجودہ نسل کے برگر ماحول میں کچھ عجیب سی لگے اور اس مثل کو سمجھنے میں شاید دشواری بھی محسوس ہو تو سب سے پہلے اس مثل کی غرض اور ضرورت کو سمجھنا ضروری ہے، سو کہا جاتا ہے کہ بلی ہر اس چیز پر نظر رکھتی ہے جو اسے چاہیے ہوتی ہے۔

اس مثل میں دودھ کو بلی سے محفوظ کرنے کے لیے گھر کے صحن میں اونچائی پر ایک چھینکا لٹکا کر اس میں دودھ رکھ دیا جاتا تھا تاکہ بلی کی پہنچ سے دودھ محفوظ رہے، کچھ ایسا ہی ہوا بھی مگر بلی کی للچائی نظریں مسلسل چھینکے پر تھیں مگر وہ دودھ تک پہنچ نہیں پا رہی تھی کہ اچانک کمزوری سے بندھا چھینکا گر پڑا اور یوں دودھ پینے کے لیے بلی کے بھاگ جاگ گئے، آج کل کے سیاسی ماحول اور بطور خاص پنجاب میں ضمنی انتخابات کے بعد کی دلچسپ صورتحال پر مذکورہ مثل مکمل صادق معلوم ہوتی ہے۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات کے بعد محسوس ہو رہا تھا کہ پرویز الٰہی کے ’’بھاگ‘‘ کھلنے والے ہیں اور بلی مانند ان کی اقتدار حاصل کرنے کی لالچی دیوی بہت جلد ان پر مہربان ہونے والی ہے، اور یہ دیوی جلد ہی پرویز الٰہی کے سر پر ہما بٹھا کر انھیں پنجاب کا اعلیٰ منصب دار بنا دے گی، مگر لگتا ہے کہ پرویز الٰہی کی للچاتی خواہش نے چھینکے پہ پڑے اقتدار کے تخت پر نظر آنے والی ھما پر نظریں گاڑ کر اقتدار کا چھینکا تو توڑ دیا، لیکن پتہ چلا کہ ہما پرندے نے اڑ کر شاید جاتی امرا کے کسی درخت کو اپنی پناہ گاہ بنا لیا ہے۔

پنجاب کے اقتدار کی یہ ھما دور بیٹھی، پرویز الٰہی کے ہاتھ نہیں لگ رہی یا سر دست ان کے سر پر بیٹھنے میں ہچکچا رہی ہے، یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ ہمارے ملک کے مرکزی اقتدار کے بادشاہ کی جان ہمیشہ پنجاب کے طوطے میں اٹکی رہتی ہے، یہی کچھ صورتحال پنجاب میں موجودہ ضمنی انتخاب کے نتیجے کے بعد دیکھنے کو ملی۔

17 جولائی کے انتخابی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے 20 وفاداری تبدیل کرنے والے نمایندے اسمبلی کی رکنیت سے جب فارغ کیے گئے تو ان ارکان اسمبلی کے انتخابات کرائے گئے، ان 20 نمایندوں میں سے 5 سیٹیں ہارنے کے بعد بھی پی ٹی آئی اور پرویز الٰہی پرامید تھے کہ پنجاب پر حکمرانی کرنے کی مطلوبہ تعداد باآسانی لی جا چکی ہے لہٰذا ملک بھر میں فتح کے شادیانے بجائے گئے اور جیتنے کی خوشی میں پی ٹی آئی والے یہ بھی بھول بیٹھے کہ 5 سیٹیں مسلم۔ لیگ (ن) کو اضافی مل گئیں جو کہ اس سے قبل وہ سیٹیں پی ٹی آئی کی تھیں، بس پھر کیا تھا، فتح پرپی ٹی آئی والے مبارکباد اور مٹھائیاں کھاتے رہے، جب کہ دوسری جانب اقتدار کا ’’صیاد‘‘ خاموشی سے اپنی چال چل رہا تھا۔

آنکھ اس وقت کھلی جب پی ٹی آئی کی مطلوبہ تعداد کے نمبر کم ہونے کی اطلاع طشت از بام ہوکر ملک کی اہم خبر بنی، پھر کیا تھا، پی ٹی آئی قیادت خرید و فروخت کے الزامات “صیاد” پر لگاتی رہی اور یہ بھول گئی کہ انتخابات کے دوران دوسرے فریق کے ایک شرقپوری پرندے کی مبینہ قیمت لگا کر اسے خریدا گیا تھا، مگر اس لمحے نہ پی ٹی آئی کو اخلاقیات یاد آئیں اور نہ کسی ندامت کا اظہار کیا گیا، جب کہ مبینہ طور پر جب یہ الزام سے بھرا کھیل بقول پی ٹی آئی ’’صیاد‘‘ نے کھیلا تو تحریک انصاف اور ان کے حمایت یافتہ اینکرز کو اخلاقیات یاد آنے لگیں۔

اصولی طور سے اس قسم کے کسی بھی جانب سے کھیلے گئے کھیل کو قطعی طور سے نہ جمہوری اور نہ سیاسی عمل قرار دیا جا سکتا ہے۔ سیاسی پنڈت اسے بالکل 2018 کی ریہرسل قرار دے رہے ہیں، جب اکثریتی جماعت مسلم لیگ کی عددی برتری روند کر اور خرید و فروخت کر کے پی ٹی آئی حکومت بنوائی گئی تھی۔

ہمارے ایک سینئر صحافتی کنبے کے دوست کا استدلال ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لانی چاہیے تھی، بادی النظر میں یہ سوال عمومی طور سے کرنے کا عام فرد کا حق ہے اور اس دلیل کے پیچھے ملک میں معاشی ابتری، ڈالر کی پرواز اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط ماننا اور ملک کو معاشی بحران میں مبتلا کرنا نظر آتا ہے۔

ان کا امریکی مخالف بیانیہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے امریکا کی مخالفت کرتے ہوئے کچھ لوگ افغان وار میں ڈالر سمیٹ کر امریکی مرضی کے طالبان مسلط کر رہے تھے، جو آج تک ملک کے امن کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ اس ملک پر پچھلے 70 برس سے اسٹیبلشمنٹ حکمرانی کر رہی ہے۔ اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بیل آؤٹ کروانے والے افراد کتنے فرمانبردار اور کس طرح کنٹرول میں آسکتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کو بیل آؤٹ کرنے والے افراد جب چالوں سے واقف ہو جاتے ہیں تو پھر ’’نیو برانڈ‘‘ سیاست کی ابجد سے نا واقف ہی اسٹیبلشمنٹ کا سہارا رہ جاتے ہیں اور یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ حالات کے تناظر میں عمران کو بادی النظر میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اقتدار سے فارغ کروایا گیا ۔ اور نواز کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ پر عمران کو بولنے کی کھلی چھٹی دی گئی۔ جب کہ نواز پہلے ہی ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے تحت یہ سب سے کہہ بیٹھے تھے اور اپنی سیاسی حکمت سے سب پر باور کرا چکے تھے کہ ان کے مخالفین ایک پیج پر ہیں تاکہ 40 برس سے پنجاب پر حاوی مسلم لیگ نون کو کمزور کیا جائے۔

محض اسی وجہ سے نواز اس ضمنی الیکشن میں نہ متحرک ہوئے اور مریم کی شرکت سے یہ تاثر بھی پختہ کیا کہ وہ شہباز کے ساتھ ہیں۔مگر اس ضمنی الیکشن میں میرے تجزیے اور رائے میں نواز نے درپردہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں الیکٹیبلز کو ہروا کر پیغام دیا کہ پنجاب کا ووٹ نواز شریف کے بیانیے اور اس کی شرکت سے ہی ممکن ہے۔ اس کا ثبوت ایک حلقے سے پیر بخاری کی آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی پر نظر رکھیے حضور! جس نے کہا کہ میں نواز کے ساتھ ہوں اور میرے حلقے کا ووٹ نواز کا ہے لہٰذا وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔

یہ بات ریکارڈ پر رہے کہ عمران اب بھی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ امریکی لاڈلے ہیں۔ سیاست کے مہرے بہت احتیاط سے چلے جاتے ہیں جو کم از کم جھوٹ، سازش یا اسٹیبلشمنٹ مخالف دوسرے کے چرائے ہوئے بیانیے سے ممکن نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔