تھر میں مستقل حل کی ضرورت

عابد محمود عزام  جمعـء 14 مارچ 2014

گزرے زمانوں کی بات ہے، کسی بادشاہ نے اپنے تین گورنروں کو انعامات سے نوازنا چاہا۔ طریقہ یہ اختیار کیا کہ ایک سال کے بعد بادشاہ خود ہرگورنر کی سلطنت میں جاکر معاینہ کرے گا، جس گورنر کی کارکردگی اتنی بہتر، عمدہ اور قابل تعریف ہو جسے دیکھ کر بادشاہ خوش ہوجائے تو اس گورنر کو بھاری بھرکم انعامات سے نوازا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد تینوںگورنر انعام حاصل کرنے کی مختلف تدبیریں کرنے لگے۔ ایک گورنر نے اپنی ریاست میں عمارتوں کی تعمیرات پر خصوصی توجہ دی،جگہ جگہ بلند و بالا عمارتوں کی تعمیرات شروع کردیں،تاکہ انھیں دیکھ کر بادشاہ خوش ہوجائے ۔ دوسرے گورنر نے اپنی ریاست کو خوبصورت بنانے پر خاص توجہ صرف کی اور پورے علاقے کو خوبصورت اور رنگ برنگے پھولوں سے سجا دیا،تاکہ یہ خوبصورت پھول بادشاہ کے دل کو موہ لیں ۔ تیسرے گورنر نے اپنی تمام تر توجہ کا محور ومرکز اپنے عوام کو بنایا،عوام کو بہتر کھانے، بہتر لباس اور بہتر زندگی فراہم کرنے کی فکر کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا،اس کے خیال میں رعایا کے خوش ہونے سے بادشاہ سلامت بھی خوش ہوجائیں گے۔

ایک سال گزر گیا،تینوں گورنر اپنی کارکردگی پر اپنے تئیں مطمئن تھے۔ بادشاہ سلامت اپنے گورنروں کے علاقوں کا دورہ کرنے نکلے۔ پہلے گورنر کی ریاست میں ہر طرف بلند و بالا عمارتیں نظر آئیں، لیکن عوام پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس تھے، کسی کے چہرے پر خوشی عیاں نہیں، بھوک کی وجہ سے ان کے چہروں کے رنگ پیلے پڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے گورنر کی ریاست میں ہر جانب خوبصورت و رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے ہیں، پوری ریاست خوبصورت باغیچے کا منظر پیش کررہی ہے لیکن عوام میں سے کسی کا چہرہ کھلا دکھائی نہ دیا۔ چار سو مرجھائے چہرے ہیں۔بادشاہ سلامت نے جب تیسرے گورنر کے علاقے کا دورہ کیا تو اسے پوری ریاست میں بڑی بڑی عمارتیں دیکھنے کو ملیں اور نہ ہی رنگ برنگے پھول کھلے نظر آئے، لیکن ہرطرف عوام کے چہرے کھلتے دکھائی دیے۔ بچے، جوان، بوڑھے سب خوش و خرم نظر آئے۔ ہر فرد آسودہ پیٹ اور عمدہ لباس دکھائی دیا۔عوام کے ہنستے مسکراتے چہروں نے بادشاہ سلامت کو خوش کردیا۔بادشاہ سلامت نے تینوں گورنروں کوبلا کر کہا کہ چاہے کوئی کتنی ہی بڑی عمارتیں بنا لے اور ملک کو خوبصورت پھولوں سے سجا دے لیکن جب تک عوام خوش نہیں ہوں گے، اس وقت تک سب کچھ بے فائدہ ہے۔

گزشتہ ماہ سندھ کے ’’بادشاہ سلامت‘‘ فیسٹیول پر کروڑوں روپے خرچ کرنے میں مشغول رہے، لیکن رعایا تھرپارکر میں بھوک کی وجہ سے ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان دیتی رہی، تھرپارکر میں موت کا رقص جاری رہا۔غذائی قلت کے باعث تھری باسیوں کے ہزاروں مویشی مرچکے اور سیکڑوں بچے جان کی بازی ہار گئے۔ ہزاروں اب بھی اسپتالوں میں ایڑھیاں رگڑ رہے ہیں، لاکھوں جان بچانے کی خاطر تھرپارکر سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔اس سب کے باوجود ارباب اختیار کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ روم کے بادشاہ نیرو کے بارے میں مشہور انگریزی مقولہ ’’روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘ان حالات میں یہ مقولہ کچھ حکام پر بھی ثابت آتا ہے ۔ میڈیا کے بار بار جھنجوڑنے کے بعد بالآخر بیدار ہوئے اور میڈیا کو ہی ڈانٹ پلادی کہ میڈیا تھرپارکر کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ اب بھی اگر میڈیا صاحب اقتدار حضرات کی توجہ اس جانب مبذول نہ کراتا تو خدا جانے اس قحط کے بطن سے کتنا بڑا المیہ جنم لیتا۔قابل تعریف اور قابل تحسین ہیں وہ میڈیا گروپ جنہوں نے ’’بادشاہ سلامت‘‘ کو جھنجوڑ کربیدارکیا۔ طرفہ تماشا یہ کہ موت کا رقص گزشتہ تین ماہ سے جاری ہے، لیکن حکمران بے خبر رہے۔کیا کوئی یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ ان مفلوک الحال و قحط زدہ لوگوں کی دیکھ بھال کرنا کس کی ذمے داری ہے؟یقینا یہ ذمے داری اسی کی ہے، جو صوبے کا بڑا ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو فرمایا تھا ’’اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن عمر سے اس کی بھی باز پرس ہو گی۔‘‘ وہ خود رات کے وقت بھیس بدل کر غریبوں کی مدد کے لیے نکل کھڑے ہوتے اور خود اپنی کمر پر سامان لاد کر محتاج لوگوں تک پہنچاتے تھے، لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ وزیراعلیٰ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ بھی اپنے کاندھے پر سامان لادکر غریبوں میں تقسیم کریں، بلکہ صرف یہ گزارش ہے کہ عوام کی خبر گیری رکھنا اور ان کی ضروریات زندگی پوری کرنا تو وزیراعلیٰ کی ذمے داری ہے، بھوک و پیاس سے جان دیتے بچوں کو موت کے منہ سے نکالنا تو ان ہی کی ذمے داری ہے،کیا اس سانحے کے جنم لینے سے پہلے ہی حالات کو کنٹرول کرنا حکومت سندھ کی ذمے داری نہیں تھی؟ بقول وزیراعلیٰ سندھ کے تھر میں اموات صرف بھوک اور قحط سالی سے نہیں ہوئیں، بلکہ بیماریوں کی وجہ سے بھی ہوئی ہیں،یہ بھی تو حقیقت ہے کہ خوراک کی قلت ہی مختلف بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ اسپتالوں کو سہولت مہیا کرنا اور محکمہ صحت کی کوتاہیوں کا تدارک کرنا بھی تو جناب وزیر اعلیٰ کی ہی ذمے داری ہے۔ اگر ایسا سانحہ کسی دوسرے ملک میں پیش آتا تو تصور کیجیے کہ وہاں کس کس سے استعفیٰ لے کر گھر کو چلتا کردیا جاتا،لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ ہی اپنے فرائض سے پہلو تہی برتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک تھرپارکر میں چودہ بار قحط اپنے پنجے گاڑ چکا ہے،ہر بار قحط کے باعث صحرائی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ بیراجی علاقوں میں نقل مکانی کرجاتے ہیں، جو رہ جاتے ہیں ان کے گھروں پر بھوک اور پیاس کے ساتھ موت ڈیرے ڈال دیتی ہے۔ تھریوں کا نصیب تو بارش کے ساتھ بندھا ہے، ہوگئی تو پانی جمع کرنے کے لیے کنویں کھودتے ہیں ، نہ ہوئی تو قبریں کھودنا پڑتی ہیں۔یہ سب ان کی مجبوری ہے، کیونکہ وہاں کسی قسم کی سہولت میسر نہیں ہے۔

ضلع تھر پارکر میں معاشی ذرایع بہت کم ہیں۔ صرف ریت ہی ریت ہے، ہر طرف مٹی کے ٹیلے ہی ٹیلے نظر آتے ہیں۔ زیرزمین پانی انتہائی نمکین اور وہ بھی 150 سے 200 فٹ گہرائی میں جاکر ملتا ہے۔ ایسے مسائل سے نمٹنے کی منصوبہ بندی ریاست کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں ہوتی۔سیاستدان اس پسماندہ علاقے کو اپنی سیاست چمکانے اور دوسرے ممالک سے بھاری رقم بٹورنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، دوچار سال کے بعد وہاں قحط کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے،اس کے لیے کوئی مستقل حل نہیں سوچا جاتا۔ تھر کے مسائل کا حل صرف چند ہفتوں کی امدادی مہم سے نہیں نکالا جاسکتا،مستقل طور پر تھر کے عوام کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے، عوام کو ریلیف دینے کے لیے مستقل طور پر بڑے انتظامی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ حکومت کو معاش کے ذرایع کے حوالے سے ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے تھر کے عوام مستقل طور پر اپنے پائوں پر کھڑے ہوجائیں۔ اگرمستقل طور پر تھر کے عوام کے مسائل حل نہیں کیے جاتے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ حکومت ان کے مسائل حل ہی نہیں کرنا چاہتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔