مکالمہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 17 اگست 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر وقار ملک کا شمار ابلاغ عامہ کے معروف اساتذہ میں ہوتا ہے۔ انھوں نے 1989 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے ابلاغیات کی سند حاصل کی۔ مختلف اخبارات اور رسائل میں مضامین تحریر کیے۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات کے انٹرویو کیے۔

وقار ملک کے عملی صحافت کے ساتھ تدریس کی طرف توجہ کی پنجاب یونیورسٹی میں استاد مقرر ہوئے۔ تحقیق کے شعبہ پر توجہ دی اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر وقار ملک مارکسی وادی استاد ڈاکٹر مہدی حسن کی شخصیت سے متاثر ہوئے مگر ڈاکٹر وقار ملک نے اپنی آزاد سوچ کو پروان چڑھایا۔ ملک کے معروف قانون دان ایس ایم ظفر قانون کے شعبہ میں سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔

وقار ملک نے ایس ایم ظفر کا انٹرویو کیا۔ یوں ان سے نیاز مندی کا آغاز ہوا ۔ان کے ظفر صاحب سے زندگی کے تمام شعبوں ریاست اور بین الاقوامی حالات پر طویل مکالمے ہوئے جو مختلف عنوانات سے مختلف اخبارات اور رسائل میں شایع ہوئے۔ ان مضامین کو 672 صفحات پر مشتمل ایک کتاب میں مربوط کیا اور اس کتاب کا نام ’’مکالمہ‘‘ رکھا گیا، یوں زندگی کے اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ایک علمی اور تاریخی دستاویز مرتب ہوئی۔

اشتراکی نظریات کے علم بردار استاد اور انسانی حقوق کمیشن HRCP کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن ’’مکالمہ‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر وقار ملک پنجاب یونیورسٹی میں میڈیا اسٹڈیز کے سینئر استاد ہیں۔ انھوں نے انٹرویو کے روایتی انداز میں تبدیلی کر کے اسے کالم کی شکل دی ہے ۔

وقار ملک کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ انٹرویو دینے والی شخصیت کے جواب پر اپنے کالم میں نہایت خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ تبصرہ اور رائے کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جس سے نہ صرف قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کے انٹرویو میں دلچسپی بڑھ جاتی ہے۔ ان کے سوالات میں تیکھے پن کے ساتھ مذہبی چاشنی بھی موجود ہوتی ہے۔

پاکستان کی جانی پہچانی شخصیت ایس ایم ظفر وقار ملک کی پسندیدہ شخصیات میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ ایس ایم ظفر صرف ایک قانون دان ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی زندگی کے اہم ممبر بھی ہیں۔ ڈاکٹر وقار ملک نے پچیس سال تک ان سے مکالمات کیے جس کا بہترین انتخاب وہ کتابی شکل میں شایع کررہے ہیں۔ بقول مہدی حسن اس کتاب میں قارئین کو مختلف اہم موضوعات پر ایک صاحب رائے شخصیت کے نظریات سے بھرپور استفادہ کرنے کا موقع ملے گا۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ زیر نظر کتاب میرے اور ڈاکٹر وقار ملک کے درمیان مکالمہ پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر وقار ملک اپنی بہت ساری مصروفیات کے باوجود پچیس سال تک میرے گھر اور میرے دفتر تشریف لائے۔ گزشتہ چند مہینوں سے وہ اس بات پر مصر تھے کہ ان مکالموں کو ایک کتاب کی شکل دی جائے جب کہ میں بضد تھا کہ زمانہ تبدیل ہوچکا ہے ، اب نئی سوچ اور نئے کالموں کی ضرورت ہے۔ ہمارے درمیانی اختلافی گفتگو ہوتی رہی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے درمیان مکالمہ کا آغاز سقراط سے شروع ہوا تھا اور سقراط ہی کی زندگی کے ایک حصہ سے اپنی بات دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہوں۔

جب سقراط کو سزائے موت ملی اور زہر کا پیالہ پینے کا حکم ہوگیا تو اسے ان کے دوستوں نے ایتھنز سے فرار کرنے کی طے شدہ اسکیم پیش کی اور حوصلہ دیا کہ وہ انھیں جہاں لے جارہے ہیں وہاں انھیں مکمل حفاظت اور ہر طرح کی سہولت ملے گی اور وہ اپنا تبلیغی کام جاری رکھ سکیں گے۔ اب سقراط کے سامنے موت کھڑی تھی اور ان کی آزادی کے لیے ایک منصوبہ بندی جو قابل عمل تھی اس کا ایک خاکہ پیش کیا گیا۔

اس صورتحال پر ایک جانب ان کے دوست آنسو بھی بہارہے تھے اور ضد کررہے تھے کہ وہ اپنے ساتھی اور استاد کی موت کو برداشت نہیں کرسکیں گے لیکن سقراط کاجواب تھا کہ بلاشک ایتھنز کے قوانین کے خلاف رہا ہوں اور اس وجہ سے مجھے سزائے موت دی گئی ہے لیکن میری مخالف قانون ے خلاف تھی ۔ جب سزا ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے۔ اس پر میرا فیصلہ یہ ہے کہ پھر موت سے بھاگنا اپنے فلسفہ سے غداری ہے۔

کیا ہمارا سیاست دان یا مدیر اور ماضی میں کوئی صحافی، وکیل یا جج اس نوعیت کے کردار کا اظہار کرسکتا ہے؟ سوال کو یہیں چھوڑتے ہیں۔ ڈاکٹر وقار ملک کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ایس ایم ظفر صاحب کے حوالہ سے ایک اہم بات جو بتانا چاہوں گا وہ یہ کہ انھیں غیر معمولی طور پر ٹائم مینجمنٹ کا فن جاتے ہیں۔ ایس ایم ظفر کے صاحبزادہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ ایس ایم ظفر مذہبی رجحانات کے حامل شخصیت ضرور ہیں لیکن انھوں نے کبھی اپنے مذہبی رجحانات کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ مذہب کے حوالہ سے کثیر الوسعت رویوں کو جاننے کی حوصلہ افزائی کی تاکہ ہم مذہبی رویوں میں درست انداز اپناسکیں۔

اس کتاب کا ایک عنوان ’’میرا بچپن اور لڑکپن‘‘ ہے۔ 6 دسمبر 1930کو رنگون (برما) میں میری پیدائش بتائی جاتی ہے۔ میری ابتدائی دنیا ایک شفیق باپ، محبت کرنے والی ماں، کہانیاں سنانے والی بڑی بہن اور شرارتیںکرنے والی چھوٹی بہن، اس کے علاوہ بڑا بھائی جو میرا دوست بن گیا تھا۔ میرا کلاس فیلو بھی تھا۔ ایس ایم ظفر لکھتے ہیں کہ رنگون کے جس فلیٹ میں ہم رہتے تھے اس کی اوپر والی منزل میں والد صاحب کے کزن سید ظہور شاہ ایک اخبار میں جس کا نام ’’شہر رنگون‘‘ تھا شایع کرتے تھے۔

یہ رنگون کا واحد اردو اخبار تھا۔ میں ظہور شاہ کے ساتھ بیٹھ کر ایک ایک لفظ کو جوڑ کر پلیٹ میں ڈالنے اور اخبار چھاپنے کی کارروائی دیکھتا تھا۔ ظفر صاحب مزیدلکھتے ہیں کہ جب میں اپنے ماضی کے اس دور پر نظر دوڑاتا ہوں تو میرا جی چاہتا ہے کہ ایک قیمتی مشورہ والدین اور طلبہ کو ضرور دوں۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے اور اگر وہ اپنی صلاحیتوں کا اندازہ کرپائے تو بہتر ہے۔ وہ اپنی تعلیم اور مستقبل کے راستہ کے تعین، ان کے رجحانات اور صلاحیتوں کے استعمال کرنے میں والدین کے مشورہ کی حد تک تو ضرور شامل ہوگا لیکن اپنی اولاد کے ان راستوں میں رکاوٹ نہ بنیں جس کے لیے اس نے دل سے فیصلہ اور عزم کرلیا ہو کہ اس شعبہ کو اپنانا ہے۔

اس کتاب کے ایک مکالمہ کا عنوان ’’جناب جسٹس لاہور ہائی کورٹ آپ کو قانون سے بالا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔‘‘ ایک جج نے قتل کے ایک مقدمہ میں رائے قائم کی ہے کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو آشنا کے ساتھ مشکوک حالت میں دیکھے تو اسے حق ہے کہ دونوں کو قتل کردے، ایسی صورت میں وہ کسی سزا کا مستحق نہیں ہوگا۔ ایس ایم ظفر نے اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس فیصلہ میں کاروکاری کا کالا سیاہ قانون دیکھتا ہوں، اگر یہ فیصلہ قائم رہا تو یقیناً اس کی بنیاد پر کئی اور سوچیں جنم لیں گی۔

حکومت کو اس غلط فیصلہ کے خلاف اپیل کرنی چاہیے۔ اس فیصلہ کو ہی ختم نہیں ہونا چاہیے اس کو ہر حال میں درست ہونا چاہیے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستان جہاں شریعت کی کئی طرح کی تشریحات ہورہی ہیں او رخاوند کو اپنی بیوی کو مارنے کے حق کو بڑی تشریحات کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے وہاں یہ فیصلہ جلتی پر تیل کا کام کرے گا۔

پاکستانی معاشرہ ایک ٹھہراؤ کا معاشرہ ہے۔ اسلامی تہذیب انصاف اور احسان کی تہذیب ہے ۔ اسی وجہ سے مسلم امہ کو امت وسطی یعنی درمیانی راستہ والی امت کہا جاتا ہے۔ اس تہذیب میں ججوں کو ایسی کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنے تصورات اور فلسفہ کو قانون کی گردن پر سوار کردیں۔ اس کتاب کے ایک اور مکالمہ کا عنوان ’’اگر مختاراں مائی ہندوستان میں ہوتی‘‘ ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ مختاراں مائی کا مقصد مجرموں کو عبرت ناک سزا دلوانا ہے۔ حکومت کی حمایت یا مخالفت اس کا درد سر نہیں ہے جب کہ ابھی تک عدلیہ عوامی رائے کے برعکس مقدمہ کی قانونی حیثیت کی بنیاد پر مختاراں مائی کے بجائے ملزموں کی توقعات پر پوری اترتی ہے۔

مختاراں مائی کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تو وہ یقینا انتہائی افسوس ناک ہے مگر اس قسم کا واقعہ کسی بھی معاشرہ یا ملک میں رونما ہوا ہوتا تو اس ملک کے عوام اور حکومت اس واقعہ کو کیسے لیتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مختاراں مائی بھارت میں ہوتی اور اس کے ساتھ ایسا ہی واقعہ ہوتا جیسا پاکستان میں ہوا تو وہاں کا معاشرہ اور حکومت نے اس کو بھارت کی وجہ شہرت بنا کر اس انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا کہ مغرب اس بات پر قائل ہو جاتا کہ بھارت کی خواتین دلیر ہیں۔ بل کلنٹن اور جیمز کارٹر مختاراں مائی سے ملنے ا س کے گاؤں آتے۔

ڈاکٹر وقار ملک نے اس کتاب میں انتہائی اہم موضوعات پر ایس ایم ظفر سے مکالمہ کیا۔ اس آرٹیکل میں صرف چند مکالموں کا مختصر خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ملک نے ذہن کو سوچنے پر تیار کرنے والی کتاب ترتیب دی ہے، وہ انتہائی مبارک باد کے مستحق ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔