زباں فہمی 152؛ دل کی بات

سہیل احمد صدیقی  اتوار 21 اگست 2022
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

دل بھی کیا عجب شئے ہے صاحبو! انسانی جسم کے اعضاء میں شاید کسی اور کا وہ مقام، محض ادب ہی نہیں، دنیا بھر کے علوم وفنون میں نہیں ہے جو دل کو حاصل ہوا۔ دل اطمینان اور بے اطمینانی، یقین اور بے یقینی، چین اور بے چینی، سکون اور بے سکونی، خوشی اور غم، غرضیکہ انسان کی ہمہ وقت ذہنی کیفیت کا عکاس ہے۔ ہم اسے دلی کیفیت بھی کہتے ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ موزوں لگتا ہے۔(ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک صاحب نے واٹس ایپ پر سوال کیا کہ”غرضیکہ اور غرض یہ کہ“ میں کون سا مرکب درست ہے۔ خاکسار نے عرض کی کہ درحقیقت یہ”غرضے کہ“ کو ملا کر بنائی گئی ترکیب ہے، ویسے کہنے اور لکھنے میں دوسری صورت بھی مستعمل ہے)۔

دین کی طرف رجوع کریں تو ایمان تبھی قبول ہے کہ جب بندہ ”اقرار بالّلسان“ (زبان سے اقرار) اور ”تصدیق بالقلب“ (دل سے تصدیق) دونوں ہی سے اپنے مومن یا صاحب ِایمان ہونے کا ثبوت فراہم کرے۔یہ دل ہی تو ہے جو مومن اور منافق میں فرق واضح کرتا ہے۔یہ دل ہی تو ہے جو بندہ مومن کی ہر کثافت کو لطافت سے، طہارت سے اور روحانیت سے بدل دیتا ہے۔روحانیت کی بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کسی کا دل راضی نہ ہو، کوئی عمل خواہ انجام بھی دیا جائے، کارگر نہیں۔روحانیت کا ایک اور وَرق پلٹیں تو یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ جس کسی کو اپنے کسی (جائز یا ناجائز)مقصد کے لیے یا دین، مذہب و مسلک کے لیے، رام کرنا مقصود ہو، اُس کا دل ہی قابو میں کیا جاتا ہے۔

ایک مشہور نفسیاتی معالج کا دعویٰ نظر سے گزرا کہ جِنّ کوئی چیز نہیں، وہ انسان پر حاوی نہیں ہوسکتا، یہ سب نفسیاتی خرابی ہے۔اُن کے ہم نوا، ہمارے عزیز دوست تو اُن کی(اس لاعلمی پر مبنی)، بے تکی راگنی کی بھی یہ کہہ کر توجیہ کرتے ہیں کہ اصل میں وہ جنّ کے وجود کے منکر نہیں (ورنہ ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی واضح تعلیمات سے انکار کے سبب، دائرہ ایمان سے خارج قرار پائیں گے)،بلکہ اُن کا خیال ہے کہ جنّ کا یہ کام نہیں یا اُس میں یہ سکت نہیں۔

عقلیت پرست لوگ،ایسی بے سروپا باتیں کیا ہی کرتے ہیں۔انھیں کیا خبر کہ Parasciences، خصوصاً مابعد الطبیعیات [Metaphysics]میں یہ حیرت انگیز اور بظاہر ناقابل یقین یا ناقابل فہم باتیں ثابت ہوئے بھی مدت ہوچکی۔ذاتی معلومات کی بناء پر عرض کرتاہوں کہ عمل رحمانی ہو یا شیطانی(سِفلی)، جنّ اور دیگر مافوق الفطرت یا غیر مَرئی [Invisible]مخلوق کو کسی انسان میں داخل کرنے کے لیے، اسی دل کا سہارا لیا جاتا ہے۔ وہ بے چارے معترض، (کوئی پچپن سال پرانے سرٹیفکیٹ کورس کی بنیاد پر)،عمر کے اَخیر حصے میں پہنچ کر بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید یہ کام کسی جادو یا شعبدے کی طرح ہوتا ہوگااور ظاہر کی آنکھ سے نظر آتا ہوگا۔

بات دل کی ہو اور اس قدرخشک…اوہو۔بھئی دل لیا جاتا ہے، دیا جاتا ہے، توڑا جاتا ہے، جوڑاجاتا ہے، رکھا جاتا ہے،دل سے دل کو راہ ہوتی ہے (آج کل تو شاید شاہراہ بھی ہوتی ہے، مگر بہت تیزی سے ٹوٹ بھی جاتی ہے)،دل پتھر ہوتا ہے یا ہوجاتا ہے، دل میں ہُوک اٹھتی ہے، دل دھڑکتا ہے، دل سے آواز آتی ہے، دل آواز دیتا ہے، دل سنبھالنا مشکل ہے، دل کسی پر آجاتاہے اور پھر بہت ہی مشکل سے قابو میں آتا ہے، دل سے لوگ اُترجاتے ہیں، دل میں لوگ گھر کرلیتے ہیں، دل میں کسی کی بات سے تےِر بھی پیوست ہوجاتاہے،دل کاٹ کے رکھ دیاجاتاہے، دل چِیر کے رکھ دیا جاتا ہے، دل چےِر کے دکھانے کی بات کی جاتی ہے،دل کے بدلے دل مانگا جاتاہے،دل پگھلایاجاتا ہے، دل شیشے کی طرح یا اُس سے بھی زیادہ نازک ہوتاہے، دل کی آنکھ بھی ہوتی ہے (یعنی روحانی نظر)، دل کے کہنے میں اثرہوتا ہے، دل پر اَثرہوتا ہے، دل انسان کو زمین سے آسمان اور خلاء تک لے جاتا ہے، دل انسان کو پاتال میں دھکیل دیتا ہے، دل ہی انسان کو جنت کا مستحق بنادیتا ہے، دل ہی انسان کو جہنم تک لے جاتا ہے۔ہائے ہائے ایک بے چارہ دل اور اتنی ذمے داریاں؟؟

دل لے کے مفت کہتے ہیں، کچھ کام کا نہیں

اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا

نواب میرزا داغؔ دہلوی کیا مزے مزے کے شعر کہہ گئے۔لَسّان العصر یعنی اپنے زمانے کے ماہر ِ زباں تھے آخر۔جو سچ پوچھیں تو خالص زبان ہی کے نہیں، دل کے بھی شاعر تھے۔اُنھی نے کہا تھا:

دل لے کے اُن کی بز م میں جایا نہ جائے گا

یہ مدعی بغل میں چھپایا نہ جائے گا

دل کو ظالم او رمظلوم تو بہت سوں نے کہا ہوگا، مگر داغ ؔ نے اسے مدعی قراردیا، خوب کیا۔

اور یہ بھی اُنھی کا نمونہ کلام ہے:

دل میں سماگئی ہیں قیامت کی شوخیاں

دوچار دن رہا تھا، کسی کی نگاہ میں

اور یہ بھی اپنے نواب میرزا ہی کہہ گئے ہیں:

دل کا کیا حال کہوں، صبح کو جب اُس بُت نے

لے کے انگڑائی کہا، ناز سے، ہم جاتے ہیں

(داغ کا یہ شعر دیکھیے اور نواب رام پور کی شہ پر کہے گئے اشعار، خصوصا نظام رامپوری کی مشہور ترین غزل، جس کا شعر ضرب المثل ہے:

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ+دیکھا مجھے تو چھوڑ دیے مسکراکے ہاتھ)

اور یہ بھی حضرت داغ ہی کا شہکار ہے:

دل کیا ملاؤگے کہ ہمیں ہوگیا یقیں

تم سے تو خاک میں بھی ملایا نہ جائے گا

کیا کہنے، استاد نواب میرزا داغ ؔ دہلوی نے اپنے استاد اور حریف غالبؔ استاد ذوق ؔکا بہت سچا رنگ اس شعر میں پیش کیا ہے، روزمرہ اورمحاورے کے حسن استعمال سے۔بات اگر روزمرّہ کی حد تک ہی ہو تو شاید ذوقؔ کے دیگر معاصر بھی اُن کے حریف ہوں یا اُن کے دور کی شرط نہ لگائیں تو دیگر بھی بہت، مگر محاورے اور ضرب المثل کا سب سے وقیع اور بھرپور استعمال جابجا، کلام ذوق ہی میں ملتا ہے۔لگے ہاتھوں داغ ؔکے استاد،ذوق ؔ کا یہ شعر دیکھیں:

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے

پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

ان کے نقش قدم پر داغ اور پھر مکتب ِ داغ کا سلسلہ دراز۔اُن کے خاص تلامذہ میں شامل بے خود ؔ دہلوی کایہ شعر منفرد اور ضرب المثل ثابت ہوا: تڑپوں گا عمر بھر، دل مرحوم کے لیے+کم بخت، نامراد، لڑکپن کا یارتھا

آج ہم دل کی بات، بلکہ باتیں کریں گے، کیونکہ بقول غالبؔ: ع آج کچھ درد مِرے دل میں سِواہوتا ہے۔

پوراشعر یوں ہے: رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مِرے دل میں سِواہوتا ہے

کمال ہے صاحبو!بات نکلی تھی داغ ؔ کے نمونہ ہائے کلام سے جو شاگرد تھے حریفِ غالبؔ کے (نیز بہادرشاہ ظفرؔ کے) اور تان ٹوٹی غالبؔ پر۔غالبؔ کے اس مشہور شعر کا کسی سے موازنہ کیے بغیر بس یہ دیکھیے کہ جب عیش وطرب کے لمحات گزرجائیں تو ایک محوِ نشاط سخنور بھی دل کی تڑ پ کا اظہار ایسے کرتا ہے:

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں

دل کی بات ہورہی ہے تو ناواقفین حال یہ نہ سمجھ لیں کہ دل پر کچھ کہنے کا سلسلہ ان مشاہیر سے پہلے نہ تھا۔میرؔ کے بھی بزرگ، پیش رَو،(اُن کے سوتیلے بھائی کے قریبی رشتے دار) اور اپنے وقت کے انتہائی عالم فاضل شخص، خان آرزوؔ (سراج الدین علی خان) کا شعر ہے:

عبث، دل، بے کسی پہ اپنی تُو‘ں (تُو) ہر وقت روتا ہے

نہ کر غم، اے دِوانے، عشق میں ایسا ہی ہوتا ہے

اضافی، غیر متعلق، مگر دل سے جُڑی ہوئی بات یہ بھی دُہراتاچلوں کہ یہی خان آرزوؔ، میر ؔ کی اُس حسین محبوبہ کے ”ظالم سماج“ نُما والد تھے جنھوں نے انھیں وَصل سے محروم رکھا اور میرؔ اتنے عظیم سخنور ہوئے کہ لوگ خان آرزو ؔ جیسے قدآور شاعر کو بھول گئے۔

خواجہ میردردؔ، اپنے میرؔ صاحب کے بزرگ معاصر کہہ گئے ہیں:

میں جاتا ہوں دل کوتِرے پاس چھوڑے

مِری یاد تجھ کو دِلاتا رہے گا

سبحان اللہ! کس قدر معنی خیز اور سہل ممتنع کا شاہکار شعر ہے۔اچھا، اُن کا یہ شعر تو زباں زدِخاص وعام ہے:

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں (یعنی فرشتے)

میرؔ صاحب کی باری آئی تو اُنھوں نے فرمایا:

اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دَوا نے کام کیا

دیکھا، اِ س بیماری ئ دل نے آخر کام تمام کیا

میرؔ کا یہ مشہور ِ زمانہ شعر ہمارے مشفق، بزرگ معاصر پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو اتنا پسند تھاکہ اکثر کسی بھی شاعرکے مجموعہ کلام پر اظہارخیال کا آغاز کرتے ہوئے یہی پڑھتے اور پھر عَروض اور پَنگل(ہندی عروض) کی بات کرنے لگتے، مجموعہ کلام اور شاعر موصوف کی باری بمشکل آتی بھی تو خاصی دیر ہوچکی ہوتی۔

میرؔ نے مزید دل کو کہاں کہاں رونق بخشی، ذرا مثالیں دیکھیے:

شام ہی سے بُجھا سا رہتا ہے

دل ہُوا ہے، چراغ مُفلس کا

(دل ہے گویا، غلط مشہور)۔یہ شعر علامہ نیاز فتح پوری نے نجانے کیوں،اپنے جریدے نگارمیں، مصحفیؔ سے منسوب کردیا۔

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہوسکے

پچھتاؤگے، سُنو ہو، یہ بستی اُجاڑ کے

مہتاب رائے تاباں ؔ کا یہ ضرب المثل شعر بھی اپنی جگہ نہایت منفرد ہے:

شعلہ بھڑک اُٹھا،مِرے اِس دل کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی، گھر کے چراغ سے

میرؔ کے عہد میں انعام اللہ خاں یقین ؔ کی عمر نے وفا کی ہوتی تو یقینا انھیں ”حریفِ میرؔ“ کہنا بجا ثابت ہوتا۔اُن کا یہ شعر اپنے وقت میں مشہور تھا: دل چھوڑگیا ہم کو، دلبر سے توقع کیا+اپنے نے کِیا یہ کچھ، بیگانے کو کیا کہیے

یہاں وضاحت لازم ہے کہ اس شعر کے ساتھ آبِ حیات کے مؤلف آزادؔ نے ایک فرضی حکایت بیان کی جو بہت مشہور ہوگئی، مگر بالتحقیق غلط بھی ثابت ہوئی۔

اُسی دورمیں قائمؔ چاند پوری کا یہ شعر بھی اپنی مثال آپ ہوا:

قسمت تو دیکھ، ٹوٹی ہے جا کر کمند کہاں

کچھ دُور،اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا

(دو چار ہاتھ…غلط مشہور ہے)

یہ بھی قائمؔ ہی کا مشہور شعر ہے:

ٹوٹا جو کعبہ، کون سی یہ جائے غم ہے شیخ!

کچھ قصرِ دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

میرحسنؔ کا ایک شعر دیکھیے:

کیا ہنسے اب کوئی اور کیا روسکے

دل ٹھکانے ہو تو سب کچھ ہوسکے

یہ وہی میر حسن ہیں جن کا مندرجہ ذیل شعر غالبؔ کو بہت پسند تھا:

گیا ہو جب اپنا ہی جیوڑا نکل

کہا ں کی رُباعی، کہاں کی غزل

(جی یعنی دل کو پیار سے مزید تبدیل کرتے ہوئے جیوڑا)

جعفر علی حسرتؔ لکھنوی کا کیا ہی اچھا شعر ہے اور شاعر سے زیادہ مشہور بھی:

کس کا ہے جگر، جس پہ یہ بیداد کروگے

لو ہم تمھیں دل دیتے ہیں، کیا یاد کروگے

(ایک ہندوستانی فلم کے ایک گیت میں، دوسرا مصرع یوں تبدیل کرکے شامل کیا گیا: لو ہم نے تمھیں دل دیا، کیا یاد کروگے)

عظیم سخنور غلام ہمدانی مصحفی ؔ کا یہ شعر اپنے عہد کے ضرب المثل اشعار میں نمایاں ہے:

مصحفیؔ! ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رَفو‘ کا نکلا

شیخ قلند ربخش جرأتؔ کا شعر ملاحظہ ہو، دل کی کیفیت پر:

دلِ وحشی کو خواہش ہے تمھارے دَر پہ آنے کی

دِوانہ (دیوانہ) ہے، وَلیکن بات کہتا ہے ٹھکانے کی

محاورے کا کیسا برمحل استعمال ہے، واہ!

تسلیم ؔ لکھنوی کا یہ شعر بہت سوں کے بہت سے اشعار پر بھاری ہے:

تڑپتا دیکھتا ہوں جب کوئی شئے

اُٹھالیتا ہوں، اپنا دل سمجھ کر

اکبر ؔ الہ آبادی کے استاد، وحید (کڑوی) الہ آبادی کا مشہور شعر ہے:

اے دل تجھے رونا ہے تو جی کھول کے رولے

دنیا سے نہ بڑھ کر کوئی ویرانہ ملے گا

کیا کہنے، یعنی دل اور جی کا استعمال کتنی عمدگی سے یکجا کیا ہے اور محاورہ بھی ایسا برتاہے کہ کوئی غیر اہل ِزبان سوچتا ہی رہ جائے۔

علامہ اقبال نے ”دل اور عقل کے ساتھ“ پر کیا خوب شعر کہاہے:

اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل

لیکن کبھی کبھی اُسے تنہا بھی چھوڑدے

غیرمعروف شعراء کے یہاں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بندہ انگُشت بدنداں رہ جائے، جیسے،یارخاں امیرؔ کا یہ شعر اُن سے بھی بڑھ کر مشہور ہوگیا:

شکست وفتح میاں اتفاق ہے، لیکن

مقابلہ تو دل ِ ناتواں نے خوب کیا

(شکست وفتح نصیبوں سے ہے،ولے…غلط مشہور)

یہ شعر بھی ضرب المثل ہے اور اس کے خالق فِدوی ؔ عظیم آبادی کو کم لوگ جانتے ہیں:

ٹک ساتھ ہو، حسرت، دل ِ مرحوم سے نکلے

عاشق کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے

لالہ موجی رام موجیؔ کا یہ مشہور شعر نجانے کب اور کیسے جگر ؔ مرادآبادی سے منسوب ہوگیا تھا:

دل کے آئینے میں ہے تصویر ِیار +جب ذرا گردن جھکائی، دیکھ لی

کہیے کیسا دل کش نمونہ کلام ہے اور شاعر بالکل غیرمعروف۔ایک اور ایسا ہی مشہور شعر ملاحظہ فرمائیں:

ننھے سے دل کی چھوٹی سی تُربَت بنائی تھی+نقشِ قدم نہ تھا جسے تم نے م ٹادیا

ابھی شاعر کا نام ذہن سے محو ہوگیا ہے۔

حکیم فضل اللہ میرزاؔ کا شعر ہے:

دل جو اپنا تھا، سو ہے بیگانہ+اِ س زمانے میں کوئی یار نہیں!

مختصر بحر میں اس مضمون کا ایسا اچھا شعر کہاں ملے گا۔

جدیدغزل میں میرؔ جیسی شاعری کا شرف ناصرؔکاظمی کو ملا۔دل کے مضمون پراُن کے دو شعر زباں زدِ عام ہیں:

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

٭

حال دل ہم بھی سناتے لیکن

جب وہ رخصت ہوا تب یاد آیا

فلمی دنیا میں تھوڑا یا بہت عرصہ گزارنے والے متعددشعراء میں چند ایسے بھی ہوئے جن کی ادبی شاعری، فلمی نغمہ نگاری کی چکاچوند اور بے انتہا مقبولیت کے آگے ماند پڑگئی۔ایسا ہی ایک نام فیاضؔ ہاشمی کا ہے، جنھوں نے فلمی شاعری میں بھی بھرپور اَدبی رنگ سمودیا۔نامورگلوکار طلعت محمود کی گائی ہوئی، فیاض ہاشمی کی یہ غزل آج بھی اپنے طرز کی جُدا شاعری کا نمونہ پیش کرتی ہے:

تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی

یہ تیری طرح مجھ سے تو شرما نہ سکے گی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔