اسٹیڈیم کے دوسری طرف

وجاہت علی عباسی  اتوار 16 مارچ 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں پچھلے دنوں پھر وہ ایکا دیکھنا کو ملا جو آج کل صرف اس وقت نظر آتا ہے جب پاکستانی ٹیم کوئی کرکٹ میچ کھیل رہی ہوتی ہے اور وہ بھی خصوصاً انڈین ٹیم کے خلاف۔

پہلی بار جب ہم سندھی، پٹھان، پنجابی، بلوچی سے ایک قوم ہوئے تھے ، وہ اس وقت تھا جب ہم ہندوستان سے لڑ رہے تھے اپنا ملک حاصل کرنے کے لیے، افسوس ملک بن جانے کے اتنے سال بعد بھی ہمیں آج بھی ایک قوم بننے کے لیے ہندوستان سے لڑنے کا سہارا بننا پڑتا ہے، چاہے وہ لڑائی اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ کی صورت ہی کیوں نہ ہورہی ہے۔ ہمارے ملک میں ہیرو کا اسٹیٹس قائم رکھنا بہت مشکل کام ہے، قوم بہت جلدی ہیرو کو زیرو بنا دیتی ہے۔ وہ آفریدی جنھوں نے اپنی کارکردگی دکھاکر پاکستان کو کئی میچ جتوائے اب قوم کے حساب سے کسی کام کے نہیں رہے تھے لیکن آفریدی نے ایک بار پھر اپنا جلوہ دکھایا اور اپنی بہترین پرفارمنس سے ایشیا کپ میں پاکستان کو انڈیا کے خلاف زبردست کامیابی دلوائی۔

ہم پھر سے ایک قوم ایک پاکستانی ہوگئے اور یہ سلسلہ سری لنکا کے میچ تک جاری رہا، سری لنکا کے میچ تک ہر دل ہر دماغ صرف پاکستانی تھا، وہ پاکستان جس کی ساری توجہ اسٹیڈیم کے اندر تھی۔

ان میچز پر اب تک ان گنت بار لکھا جاچکا ہے تو چلیے ہم ان خبروں پر بات کرتے ہیں جو ان ہی دنوں اسٹیڈیم کے باہر بنیں۔ وہ چیزیں جو ملک میں ہی ہو رہی تھیں لیکن میچز کے شور شرابے میں ان پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔

پاکستان میں ایک کیمپین پولیو سے متعلق شروع کی گئی ہے۔ اس کے تحت والدین اگر بچوں کو پولیو ویکسینیشن کروانے پر تیار ہوجائیں تو فی بچہ انھیں ہزار روپے ملیں گے۔ ایسا دنیا کے کسی بھی حصے میں پہلے کبھی نہیں ہوا کہ بیماری سے بچاؤ کے لیے ٹیکے لگوانے کو دیے جا رہے ہوں ۔ پولیو لگنے والی بیماری ہے اور علاوہ افغانستان، پاکستان اور نائیجیریا کے یہ تقریباً پوری دنیا سے ختم ہوچکی ہے۔

دنیا اس وقت پاکستان کے شمالی علاقوں کو پولیو کا گڑھ مانتی ہے اور اگر وہاں یہ بیماری ختم نہ ہوئی تو دوبارہ سے دنیا میں پولیو پھیل جانے کا خطرہ ہے۔

پاکستان میں پولیو کا مسئلہ دیکھتے ہوئے یو این او نے فیصلہ کیا کہ پشاور کے علاقے سے ان والدین کو پیسے دینے کی مہم شروع کی جائے جو پولیو ڈراپس کے خلاف ہیں، اگر یہ کیمپین پشاور میں کامیاب ہوگئی تو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس کو شروع کیا جائے گا۔

ڈپٹی ڈائریکٹر امیونائزیشن کمیٹی جہاں زیب کے مطابق غریب علاقوں میں ہزار روپے ایک معقول رقم ہے، والدین کو پولیو کے ٹیکے لگوانے کی جانب راغب کرنے کے لیے یہ ایک اچھی کوشش ہے لیکن اس کے باوجود اس میں ہمارے امیج کا زیادہ نقصان ہے، اب تک پولیو شاٹس نہ لگوانے کی وجہ ان علاقوں میں مذہب اور مغرب کے خلاف جذبات کا اظہار بتائی جاتی تھی لیکن اگر وہاں کے لوگ ہزار روپے لے کر ویکسین لگوانے پر تیار ہوں گے تو دنیا یہی کہے گی کہ اپنے اصولوں کو چھوڑ دیا ہزار روپے لے کر۔ اس لیے بہتر ہے کہ والدین کو اگر ویکسینیشن کروانا ہی ہے تو پیسے نہ لیں ورنہ اس طرح پوری قوم کا برا تاثر پڑتا ہے۔

رافعیہ ہانی جنھوں نے 1990 میں قومی ایئرلائن بطور پائلٹ جوائن کی تھی کئی بار ٹی وی پر اور میگزین میں انٹرویو دیتی نظر آتی ہیں، خواتین کے حقوق اور برابری کی بات آتی ہے جوکہ مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی ہیں تو رافعیہ کی مثال دی جاتی ہے۔ رافعیہ کے انٹرویو ٹائمز میں چھپے اور زی ٹی وی جیسے چینلز پر بھی چلے، جس میں انھوں نے ہمارے خراب سسٹم کی بات کی۔

اس طرح کے واقعات اور مسائل کو حل نہ کرنے اور ان پر توجہ نہ دینے سے ملک کا امیج خراب ہوتا ہے خصوصاً اس وقت جب پاکستان کی قومی ایئرلائن کا نام اس سے جڑا ہو۔ آج اگر انٹرنیٹ پر ’’پاکستانی خاتون پائلٹ‘‘ سرچ کریں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم ’’اپنی خواتین کو برابر کے حقوق‘‘ دینے میں ناکام ہوگئے۔

وہاں آفریدی انڈیا کے چھکے چھڑا رہے تھے اور اسٹیڈیم کے باہر وہ پاکستانی جو پاکستان میں انڈیا کے جعلی نوٹ چھاپ رہے تھے، کچھ دن پہلے انڈین بارڈر پر پندرہ لاکھ انڈین جعلی نوٹ پکڑے گئے۔ یہ پچھلے چار مہینے میں پانچویں بار تھا، نوٹ سری لنکا، بنگال اور نیپال سے آرہے تھے لیکن جانچ کے بعد پتہ چلا کہ ان کی پرنٹنگ پاکستان میں ہو رہی ہے، وہ جعلی نوٹ جن کی اسمگلنگ روکنے میں پاکستانی اہلکار بھی ہندوستانی حکام کی مدد کر رہے ہیں اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ پہلے آٹھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا جس میں تین پاکستانی بھی شامل ہیں۔

کرکٹ میچ ہی کے زمانے میں کراچی اینٹی نارکوٹک نے ایک گھر سے اکسٹھ (61) کلو پیاز برآمد کی جس کو پاکستان سے باہر بھیجنے کی تیاری کی جارہی تھی پیاز کے درمیان میں ہیروئن سے بھری کیپسول ڈالی گئی تھی اور پیاز کو گلو (Glue) کی مدد سے اوپر سے بند کردیا گیا تھا، ملزموں کے مطابق پیاز استعمال کرنے کی وجہ اس کی بو تھی جس کی وجہ سے اہل کار بارڈر پر کنفیوژ ہوجائیں۔

یو اے ای نے کچھ عرصے پہلے ہی پاکستان سے تجارت بڑھانے کے منصوبوں پر غور کرنا شروع کیا تھا اس وقت صرف گوشت کی امپورٹ وہاں نو بلین ڈالرز ہے، جس میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے، اب پیاز میں ہیروئن کی خبر سے اگر فارن کمپنیاں پاکستان سے تجارت کرنے سے خوفزدہ ہوگئیں تو یہ ساٹھ کلو پیاز پاکستان کو بہت مہنگی پڑے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔