- 100 دنوں میں 200 فلائٹس کے مسافر بیگز سے سونا چوری کرنے والا ملزم گرفتار
- سنی اتحاد کونسل نے چیئرمین پی اے سی کیلئے شیخ وقاص اکرم کا نام اسپیکر کو بھیج دیا
- آزاد کشمیر میں احتجاج کے دوران انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس ہے، وزیراعظم
- جنوبی وزیرستان کے گھر میں ہونے والا دھماکا ڈرون حملہ تھا، رکن اسمبلی کا دعویٰ
- دنیا کا گرم ہوتا موسم، مگرناشپاتی کے لیے سنگین خطرہ
- سائن بورڈ کے اندر سے 1 سال سے رہائش پذیر خاتون برآمد
- انٹرنیٹ اور انسانی صحت کے درمیان مثبت تعلق کا انکشاف
- ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری
- بنگلادیشی لڑاکا طیارہ فلمی کرتب دکھانے کی کوشش میں تباہ؛ ویڈیو وائرل
- پنجاب میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو مثالی بنائیں گے، مریم اورنگزیب
- آڈیو لیکس کیس میں مجھے پیغام دیا گیا پیچھے ہٹ جاؤ، جسٹس بابر ستار
- 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ
- غزہ میں اسرائیل کا اقوام متحدہ کی گاڑی پر حملہ؛ 2 غیر ملکی اہلکار ہلاک
- معروف سائنسدان سلیم الزماں صدیقی کے قائم کردہ ریسرچ سینٹر میں تحقیقی امور متاثر
- ورلڈ کپ میں شاہین، بابر کا ہی نہیں سب کا کردار اہم ہوگا، سی ای او لاہور قلندرز
- نادرا کی نئی سہولت؛ شہری ڈاک خانوں سے بھی شناختی کارڈ بنوا سکیں گے
- سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمت مسلسل دوسرے روز کم
- کراچی سے پشاور جانے والی عوام ایکسپریس حادثے کا شکار
- بھارتی فوج کی گاڑی نے مسافر بس اور کار کو کچل دیا؛ 2 ہلاک اور 15 زخمی
- کراچی میں 7سالہ معصوم بچی سے جنسی زیادتی
جمہوریت اور جمہوری حکمرانی کے چیلنجز
جمہوریت محض ایک سیاسی نظام ہی نہیں بلکہ ایک جامع سیاسی و حکمرانی کے نظام کی شفافیت اور لوگوں کی اس نظام میں موثر شمولیت کی ضمانت بھی دیتا ہے۔یہ نظام عام لوگوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ حکمرانی کے نظام میں براہ راست شریک ہوسکتے ہیں اور یہ نظام کمزور طبقات کی سیاسی ، سماجی اور معاشی حالت کو مضبوط بناتا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں تمام نظاموں کے مقابلے میں جمہوری حکمرانی کو فوقیت دی جاتی ہے۔ اس نظام کو کمزور طبقات کی آواز سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آج دنیا بھر میں جمہوری نظام کی اہمیت اور افادیت کے باوجود اس کو مختلف داخلی اور خارجی محاذ پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے ۔جمہوری نظام کی بقا بنیادی طور پر نظام کے تسلسل سمیت اصلاحات کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور یہ نظام نئی نئی اور جدید اصلاحات یا دنیا میں ہونے والے جمہوری تجربات سے سیکھ کر نہ صرف اپنی اصلاح کرتا ہے بلکہ لوگوں میں اپنے نظام کی ساکھ کو بھی قائم کرتا ہے۔
ہمیں جمہوریت درکار ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ جمہوریت کا علاج ہی جمہوریت ہے۔لیکن اس پہلو کو کسی بھی طور پر نظرانداز نہیں ہونا چاہیے کہ جمہوریت سے مراد بہتر جمہوریت اور اس کا حکمرانی پر مبنی نظام ہے ۔ہمیں ایک موثر اور بامعنی شفاف جمہوریت پر مبنی نظام درکار ہے جو معاشرے میں رہنے والے لوگوں کا نہ صرف جمہوری بلکہ ریاستی نظام پر بھی اعتماد پیدا کر سکے۔ ریاست، حکومت اور لوگوں میں اعتماد کی کمی یا ایک دوسرے پر بڑھتی ہوئی خلیج بہتر جمہوری نظام کی نفی کرتا ہے۔
اس وقت دنیا سمیت پاکستان کے جمہوری نظام کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اول، پاکستان میں جمہوریت کے نظام کا عدم تسلسل یا اس میں مداخلت یا پس پردہ طاقتوں کی مدد سے کنٹرولڈ جمہوری نظام ہے۔ دوئم، ہم اپنے جمہوری نظام میں ابھی تک اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی یا ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام کو تیسری بااختیار حکومت تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
سوئم، سیاسی جماعتوں کا داخلی غیر جمہوری نظام جو سیاسی بادشاہت یا خاندانی جاگیر سمیت مختلف نوعیت کے آمرانہ طرز عمل کی عکاسی سے جڑا ہوا ہے۔ چہارم، سیاست میں بڑھتا ہوا دولت کا کھیل جس نے سیاست کو ایک بہت بڑے کاروبار کی شکل دے دی ہے۔
آج اس کھیل کو دنیا میں کارپوریٹ جمہوریت کے نام سے تشبیہ دی جا رہی ہے جو محض انسانی مفاد کے مقابلے میں اپنے ذاتی منافع کی بنیاد پر چلتا ہے۔ پنجم، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جو لوگوں میں محرومی کی سیاست کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے اور لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس نظام سے خود کو لاتعلق کرلیں۔ششم، احتساب، شفافیت ، نگرانی کا غیر موثر نظام جو ان لوگوں کو احتساب کے دائرہ کار میں لانے سے قاصر ہے۔ ہفتم، ہمارا عدالتی اور بیوروکریسی کا نظام جہاں انصاف یا عام لوگوں کو بنیادی سہولتیں یا انصاف کے حصول میں ناکامی کا سامنا ہے ۔ہشتم، ہماری جمہوریت ایک بڑے مافیا کا شکار ہے جس میں تمام اہم مافیاز نے ایک باہمی گٹھ جوڑ کی مدد سے پورے ریاستی و حکومتی نظام کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ جو سب سے بڑا چیلنج پاکستان کے حکومتی نظام کو درپیش ہے اس میں جمہوری نظام کو کیسے عوامی مفادات کے تابع کیا جائے ۔ یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہونا اور نہ ہی یہ عمل کسی جذباتیت یا خالی خولی نعروں یا دعوؤں کی بنیاد پر ہوگا۔ اس کے لیے پہلے ہمیں اپنے موجودہ جمہوری نظام میں موجود خامیوں کو تسلیم کرنا ہوگا اور ماننا ہوگا کہ جمہوری نظام کو جس انداز سے ہم چلارہے ہیں وہ نتیجہ خیز نہیں ہوگی ۔
سیاست اور جمہوریت کو بامعنی بنانے کے لیے اس کا براہ راست تعلق معیشت یا معیشت کا تعلق جمہوریت کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔اسی طرح اس فکری مغالطہ سے بھی باہر نکلنا ہوگا کہ احتساب کو یقینی بنائے بغیر بھی ہم معاشی ترقی کرسکتے ہیں اورکوئی بھی نظام شفافیت اور جوابدہی کے بغیر نہیں چل سکے گا۔یہ ہی ہماری قومی ترجیح کا حصہ بھی ہونا چاہیے۔
پاکستان کو سیاسی اور جمہوری عمل میں آگے بڑھنا ہے تو تمام فریقین کو اپنے اپنے سیاسی ، انتظامی اور قانونی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا ہوگا ۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہمارے پاس تمام فریقین کی مشاورت کے ساتھ ایک واضح ، شفاف مربوط نظام اور اس کا روڈ میپ ہوگا۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ سیاسی اور جمہوری اعتبار کے ساتھ ساتھ اخلاقی اصولوں کا بھی تقاضہ کرتا ہے۔ لیکن جس قسم کی ذاتیات پر مبنی عملی سیاست اور کردار کشی کا کھیل ہم قومی سیاست میں دیکھ رہے ہیں وہ جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے ۔ہمیں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے پورے سیاسی انتظامی ڈھانچے کا جائزہ لیں کہ وہ کون سے محرکات یا اسباب ہیں جو اس ملک کے جمہوری نظام کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں ۔اس وقت پاکستان میں عوام کی حالت واقعی قابل رحم ہے۔
ان کو لگتا ہے کہ یہاں سیاست، جمہوریت، قانون،معیشت اور ادارے سب ہی اپنے مفادات کے گرد گھومتے ہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں لوگوں کا جمہوری نظام سے اعتبار کمزور ہو رہا ہے ۔ اس اعتماد کو قائم کرنے کے لیے ہمیں اپنے جمہوری نظام میں ایک بڑی سرجری درکار ہے ۔
جمہوریت کہیں بھی کوئی بڑا انقلاب نہیں لاتی بلکہ اس نظام میں تبدیلی کا عمل وقت لیتا ہے اور یہ عمل تواتر کے ساتھ اصلاحات اور اس پر عملدرآمد کے نظام سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ہم نے نظام کی تبدیلی کے عمل کو محض ایک روائتی اور فرسودہ طور طریقوں سے نمٹنے کی کوشش کی ہے ۔ جب کہ اس کے مقابلے میں دنیا میں ہونے والے جدید جمہوری تجربوں سے سیکھنے کے بجائے اپنی ہی غلطیوں پر پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ قائم ہیں اور یہ ہی ہمارے سیاسی اور جمہوری نظام کی بہتری میں بڑی رکاوٹ ہے ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔