نجات کا کوئی اور راستہ نہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 22 مارچ 2014

مذہبی عدالت کے ججو ں نے اسے موت کی سزا د ی سزا کا حکم سنتے ہی برونو نے کہا ’’میرے جج مجھے موت کی سزا کا حکم سناتے ہوئے مجھ سے زیادہ خو ف محسو س کر رہے ہیں ۔‘‘ اسے آٹھ دن کے لیے جیل میں رکھا گیا تا کہ وہ تائب ہو سکے لیکن توبہ کیسی اسے آگ میں کودنے کے لیے کہا گیا وہ بے خوف آگ میں کود پڑا تماشائیوں میں سے کسی نے صلیب کو بڑھایا تا کہ برونو مر نے سے پہلے اسے بو سہ دے سکے مرنے والے نے صلیب کو ایک طرف ہٹا دیا ۔ آج سے چار سو سال پہلے روم میں برونو کو زندہ جلا دیا گیا تھا اس نے اس امر پر اصرار کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد چکر کاٹتی ہے ۔ مغرب میں ایک ہزار سال تک کلیسا کا اقتدار رہا اس طویل زمانہ میں نہ صرف انسانی جسم کو زنجیروں میں جکڑا گیا بلکہ انسانی ذہن کو بھی مقفل کر دیا گیا تھا۔ انسانوں کو دہشت زدہ کرنے کے لیے نہایت خوفناک سزائیں دی جاتی تھیں لوگوں کو شکنجوں میں کس کر ان کی ہڈیا ں چور کی جاتیں۔ جسموں سے گوشت کنگھیوں سے نوچ نوچ کر ہڈیو ں سے جدا کیا جاتا آنکھوں میں گرم سلایاں پھروا دی جاتیں، جسم کے نازک حصو ں کو آتشی سلاخوں سے داغا جاتا۔

زندہ انسانوں کی کھال کھینچ لی جاتی، آگ کے شعلوں میں جھونک دیا جاتا سانپوں اور بچھوئوں سے بھرے ہوئے تہہ خانوں میں پھنکوا دیا جاتا، لکڑی کی طرح جسموں کو آرے سے دو ٹکڑے کرایا جاتا، دیگوں میں بند کر کے آگ پر رکھ دیا جاتا، شاہی عمارتوں کی بنیادوں میں ہزاروں جنگی قیدیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا، عورتوں کی سر بازار آبروریزی کرائی جاتی۔ عورتوں کو باندھ کر قلعے کی فصیل سے لٹکا دیا جاتا، انسانوں کو بھوکے شیروں سے پھڑوا دیا جاتا، ہاتھیوں کے پائوں کے نیچے کچلوا دیا جاتا، زبان تالو سے کھنچوا کر باہر نکال لی جاتی زندہ آدمیوں کو دیوار میں چنوا دیا جاتا تھا۔ مذہب کے نام پر معصوم اور بے گناہ انسانوں کا بے دریغ خون بہایا گیا فرانس میں تین بار تو لو میو کا قتل عام مذہب کے نام پر کیا گیا، سلیم عثمانی نے اسلام کے نام پر پچیس ہزار بیگنا ہ لوگوں کا قتل عام کیا دوسری جانب شاہ اسماعیل صفوی نے اسلام ہی کے نام پر بیس ہزار مخالفوں کو لقمہ شمشیر بنایا۔

ماضی میں یورپ میں کالی وبا پھیلی تو مذہب کے ٹھیکے داروں نے کہا اس کا باعث یہو دی ہیں چنانچہ یہودیوں کو چن چن کر سولی پر چڑھا دیا گیا۔ ہندئوں نے نہایت بیدردی سے بدھوں کا استحصال کیا۔ تقسیم ہند کے موقعے پر مذہب کے نام پر کم و بیش پندرہ لاکھ بے گناہ انسان نہایت سفاکی سے تہ تیغ کر دیے گئے ۔ تمام مذاہب نے تشدد کی مذمت کی ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ اکثر اوقات بدترین تشدد مذہب کے نام پر ہی روا رکھے گئے ہیں۔ 16 ویں صدی میں جہاں یورپ میں عدم رواداری اپنی انتہا پر تھی جنوبی ایشیاء میں رواداری کا دور دورہ تھا ۔ پروفیسر فلپ لکھتا ہے ’’یورپ کے قرون وسطیٰ کے فکری تاریخ میں مسلم اسپین نے انتہائی درخشاں ابواب تحریر کیے 8 ویں صدی کے دوران عربی بولنے والے ساری دنیا میں تہذیب و تمد ن کے مشعل بردار تھے۔ مزید برآں ان ہی کی کوششوں سے قدیم سائنس اور فلسفہ کی بازیابی ہوئی انھوں نے اس علم میں اضافہ کیا اور اس کو دوسروں تک اس طرح پہنچایا کہ مغرب نشاۃ ثانیہ سے آشنا ہوا ان کاموں میں ہسپانوی عربوں کا بڑا حصہ ہے۔

انھوں نے یونانی فلسفہ کو مغرب میں منتقل کیا مغربی یورپ میں نئے خیالات کا یہ بہائو بالخصو ص فلسفیانہ خیالات کا یہ زبردست بہائو عہد تاریک کے اختتام کی ابتداء کا موجب بنا‘‘ ۔ سچ یہ ہے کہ یورپ میں رواداری اور سیکولر خیالات کو فروغ دینے میں عرب مفکرین نے بڑا تاریخی کردار ادا کیا۔ اور قومی ریاستوں کو کلیسا کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے جن دلیلوں کی ضرورت تھی وہ سیکولر عرب مفکرین نے ہی فراہم کی۔ اٹھارہویں صدی صنعتی انقلاب، سیاسی انقلاب اور روشن خیالی کے عروج کی صدی تھی والٹیر، روسو، مان تس، کیو، اولباخ، دیدرو، کانٹ سمیت بے شمار ایسے مفکر پیدا ہوئے جنھوں نے معاشرتی اقدار و افکار کا رخ ہی بدل دیا۔ تاریخی اعتبار سے امریکا عہد جدید کی پہلی سیکولر ریاست ہے مگر جس سماجی انقلاب کی وجہ سے سیکولر اداروں اور فکروں کے اثرات یورپ اور ایشیا میں نمایاں ہوئے وہ فرانس کا انقلاب عظیم تھا۔ اس کے باعث یورپ میں ملوکیت، فیوڈل ازم اور کلیسا کی بالا دستی ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی۔ اور جاگیر داری نظام کے تینوں ستون گرا دیے گئے۔ مغرب نے روایت پسندی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا اور نئے علم اور سائنس کی بنیاد ڈالی تو اس کا اثر یہ ہوا کہ دنیا کی شکل بدل گئی اور دوسر ی طرف اسلامی فکر میں جمود کا بنیادی سبب یہ تھا کہ مسلم معاشر ہ جمود کا شکار ہو گیا تھا۔

تلاش و تحقیق، تجزیہ اور مشاہدے کی روایت کو علمائے دین اور صوفیاء کرام نے نہ صرف ترک کر دیا تھا بلکہ وہ قرون وسطیٰ کے روشن خیال مسلمان مفکروں کو کافروں، ملحد کے لقب سے نوازتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دلدل میں ایسے پھنسے کہ پھر کبھی نکل نہ سکے۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ یورپ جہاں عدم رواداری انتہا پر تھی اب رواداری انتہا پر ہے اور دوسر ی طرف ہمارے ہاں جہاں رواداری انتہا پر تھی اب عدم رواداری انتہا پر ہے ۔آج کا عہد عقل اور منطق کا عہد ہے آج عقل آزاد ہے سائنس دانوں، فلسفیوں اور سیاسی مفکروں نے فرسودہ عقائد و نظریات کے بخیے ادھیڑ دیے ہیں۔ جمہوریت، مساوات، تقسیم اختیارات، آزادی اور امن جیسے تصورات کی پوری دنیا پر حکمرانی ہے، دنیا نئے دور میں داخل ہو گئی ہے جب کہ ہم آج پوری دنیا کے ہمسفر بننے کے بجائے پیچھے کی جانب سفر کر رہے ہیں پوری دنیا میں ہمیں شک کی نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے۔

ہمیں جنونی اور انتہا پسند سمجھا جا رہا ہے آج ہم چند ہزار انتہا پسندوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مجرم کی حیثیت سے کھڑے ہیں۔ ہمیں نفرت کا سو داگر قرار دے دیا گیا ہے۔ آج پاکستان وہیں پر کھڑا ہے جہاں صدیوں پہلے یورپ کھڑا تھا۔ ہمیں علاقائی اور عالمی امن کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ ہمارا معاشرہ مذہبی عدم رواداری کی آگ میں جل رہا ہے تشدد اور دہشت گردی نے ملک کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا ہے جمہوری قوتوں کو کمزور کر نے کے لیے ماضی میں جس طر ح ملائیت کو فروغ دیا گیا۔ اس نے صورتحال کو بد سے بد تر بنا دیا ہے عسکریت پسندی، تعلیمی نظام میں قدامت پرستی، داخلی اور خارجی پالیسیوں میں تبدیلی اور ملک کو ایک جمہوری نظام کی طرف بڑھانے کے سوا نجات کا کوئی اور راستہ نہیں ہے دوسرا ہر راستہ صرف اندرونی شکست و ریخت اور تباہی کی طرف جاتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔