عام آدمی کی موت

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 20 اکتوبر 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

’’ماما پاکستان آئیں، تو پینا ڈول اور کھانسی کے شربت ضرور لے کر آئیں۔ ‘‘معمر مزدور رہنما عثمان بلوچ اپنے کینسر کے علاج اور اپنی اہلیہ کی آنکھوں کے علاج کے لیے امریکا میں مقیم ہیں، کراچی میں اپنی بھانجی کی اس فرمائش پر دنگ رہ گئے۔

انھوں نے کبھی نہ سوچا تھا کہ بخار کی عام سی دوائی کراچی میں دستیاب نہیں ہوگی۔ اس سال جولائی کے مہینہ میں کراچی میں شدید بارشیں ہوئیں۔ ستمبر کے مہینہ میں خیبر پختون خوا، پنجاب، بلوچستان اور اندرون سندھ بارشوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ ملک کا دو تہائی حصہ سیلاب کی زد میں آگیا۔

ان موسمیاتی تبدیلیوں سے مچھروں کی بہتات ہوئی۔ ڈینگی اور ملیریا کے شکار مریضوں کی تعداد بڑھ گئی۔ اس کے ساتھ ہی کورونا کے مرض کا شکار ہونے والے مریض بھی زیادہ آئے۔ ان امراض میں مریض کو تیز بخار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فوری طور پر بخار کم کرنے کے لیے یہ معمولی قیمت کی گولی تجویز کرتے ہیں ،جیسے ہی اس دوائی کی مانگ بڑھی مارکیٹ سے غائب ہوئی۔

کمپنی نے اس دوا کی نایابی کی وجہ یہ ظاہر کی کہ لاگت زیادہ آنے کی بناء پر موجودہ قیمت پر یہ تیار نہیں ہوسکتی۔ ادویات سازی کی قیمت کے ترجمان نے مطالبہ کیا کہ ادویات کی قیمتوں میں 36فیصد اضافہ کیا جائے۔ حکومت نے فوری طور پر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا۔

لیاری سے تعلق رکھنے والے وزیر صحت قادر پٹیل نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ متبادل کے طور پر پیراسیٹامول مارکیٹ میں موجود ہے۔‘‘

پاکستا ن میں گزشتہ 4 برسوں کے دوران دوائیوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں طرزِ زندگی میں تبدیلی، ماحولیاتی آلودگی، کھانے پینے کے  غیر سائنسی طریقہ کار اور دیگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر بلڈ پریشر ،شوگر، کولیسٹرو ل، دل کے امراض اور دیگر ملحقہ امراض کے مریضوں کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔

ان امراض کے علاج کے لیے ڈاکٹر جو دوائیاں تجویز کرتے ہیں وہ نچلے متوسط طبقہ کے مریضوں کے لیے خریدنا ممکن نہیںرہا۔ ایک خاتون میڈیکل اسٹور پر شکوہ کررہی تھیں کہ سب سے کم درجے کی انسولین کی قیمت 1150 روپے تک پہنچ گئی ہے۔

ان کے شوہر کا شوگر لیول زیادہ ہوا ہے اور دن میں دو دفعہ انسولین لگانی پڑتی ہے۔ تین دن میں یہ پین ختم ہورہا ہے۔ اسی طرح شوگر کا ٹیسٹ کا 50اسٹرپ کا ڈبہ کراچی میں 1100 روپے میں دستیاب ہے۔

صحت کے شعبوں کو کور کرنے والے ایک سینئر رپورٹر اپنا مشاہدہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک تو دوائیوں کی کمپنیاں قیمت بڑھانے کے لیے حکومتی احکامات کی پرواہ نہیں کرتی۔ دوسرا ادویات کی کمپنیوں اور کنسلٹنٹ ڈاکٹروں کی ایک مضبوط مافیا پورے ملک میں موجود ہے۔

مہنگی دوائیاں تیار کرنے والی کمپنیاں ڈاکٹروں کو بڑے پیمانہ پر کمیشن دیتی ہیں۔ غیر ملکی دورے، کلینک کی آرائش اور بڑے ہوٹلوں میں دعوتیں عام سی بات ہیں۔ یہ کمپنیاں بڑے ڈاکٹروں کی  فرمائشوں کو فوری پورا کرتی ہیں۔ ان فرمائشوں میں اپنے بچوں کے لیے غیر ملکی سفر کے لیے ٹکٹ، نئی کار کی فراہمی ، ملک میں اور دیگر ممالک میں اہل خانہ کے ساتھ تعطیلات گزارنے کی سہولت علیحدہ دی جاتی ہے۔

بعض ڈاکٹروں کے بارے میں تو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ سال میں کچھ دن کسی سیاحتی مقام پر گزارتے ہیں اور کمپنیاں خوشی خوشی یہ فرمائش پوری کردیتی ہیں۔

ایک چھوٹی کمپنی کے نوجوان ایم ڈی جن کا خاندان کئی عشروں سے ادویات سازی کی صنعت سے منسلک ہے، نے ایک محفل میں بتایا کہ اگر کسی شعبہ کے بڑے پروفیسروں کی خواہشات پوری نہ کی جائیں تو وہ غیر پسندیدہ کمپنی کی سستی دوائیں خود بھی مریضوں کے لیے تجویز ہی نہیں کرتے بلکہ واٹس ایپ پر دیگر ڈاکٹروں کو جن میں سے بیشتر ان کے شاگرد ہوتے ہیں اس دوائی کے فرضی نقصانات سے آگاہ کرتے ہیں۔

حکومت نے دوائیوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے Drug Regulatory Authority قائم کی ہے۔ اس اتھارٹی نے 2015ء میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کی پالیسی تیار کی تھی۔

2018ء میں اس پالیسی میں مزید نرمی کی گئی۔ اس پالیسی میں دوائیوں کی ریٹیل قیمت کی زیادہ سے زیادہ حد (Maximum Retail Price)مقرر کی گئی۔ اتھارٹی کے افسران کا یہ دعویٰ ہے کہ اتھارٹی کی دوا کی قیمت اس پر آنے والی لاگت بھارت و بنگلہ دیش میں اس دوائی کی قیمت کے موازنہ کے بعد طے کی جاتی ہے۔

اتھارٹی کے ماہرین حتمی قیمت مقرر کرتے وقت پڑوسی ممالک میں اس دوا کے ڈوز کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ 2018ء کی پالیسی میں دوائیوں کی قیمتوں کو کنزیومر پرائس انڈکس (Consumer prize index) سے منسلک کیا گیا تھا مگر 2018ء کی پالیسی میں کمپنیوں کو یہ اجازت دی گئی تھی کہ حکومت کی اجازت کے بغیر دوائیوں کی قیمت میں 7سے 10فیصد تک اضافہ کرسکتی تھیں، یوں اس دور میں ان کمپنیوں نے اس سہولت سے خوب ہاتھ رنگے تھے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ دوائیوں کا سستا خام مال بھارت میں تیار ہوتا ہے۔ ملک میں کام کرنے والی کمپنیوں کا دارومدار بھارت سے درآمد کیے جانے والے خام مال پر تھا مگر عمران خان کی حکومت نے بھارت سے تجارت پر پابندی عائد کردی۔ اب بھارت کا خام مال پہلے متحدہ عرب امارات جاتا ہے اور وہاں سے پاکستان آتا ہے، یوں اس خام مال پر آنے والی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ بھارت میں دوائیوں کی قیمتیں پاکستان سے کم ہیں۔

بھارت میں ڈاکٹر کم طاقت کی دوائیاں تجویز کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں مریض میں قوت مدافعت مضبوط ہوتی ہے۔ بھارت سے دوائیوں کی درآمد پر پابندی کا بھی عام آدمی کو نقصان ہوا۔ بھارت میں سب سے زیادہ ویکسین تیار ہوتی ہے۔ بھارت کی تیار کردہ کتے کے کاٹے کی ویکسین سستی اور موثر ہوتی ہے۔ جب ویکسین کی درآمد بھی رکی تو ملک میں یہ ویکسین ناپید ہوگئی تھی۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں کسان رہنما شیخ محمد رشید وزیر صحت کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ جنرک نیم اسکیم کو نافذ کیا۔

اس اسکیم کے تحت دوائیاں فارمولہ کے نام سے فروخت ہوتی ہیں،یوں تمام کمپنیوں کی ادویات ایک ہی نام سے مارکیٹ میں آتی ہیں۔ یہ اسکیم بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں نافذ ہے۔

ادویات کی کمپنیوں نے اس اسکیم کے نفاذ کو روکنے کے لیے بھرپور مہم چلائی تھی۔ شیخ رشید کو اس وقت بھاری رقم کی پیشکش کی گئی مگر شیخ رشید نے کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کیا مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور جنرک نیم اسکیم ختم کردی گئی۔

اگر وزیر اعظم شہباز شریف عوام کی بہبود کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں جنرک نیم اسکیم کو نافذ کرنا چاہیے، یوں جب فارمولہ کے نام سے دوائیاں مارکیٹ میں آئیں گی تو خود ہی قیمت کم ہوجائے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔