ایجنڈا کچھ اور ہے

شرجیل انعام میمن  جمعرات 27 مارچ 2014
شرجیل انعام میمن

شرجیل انعام میمن

ضلع تھرپارکر کے قحط کو میڈیا میں بڑے زور و شور سے پیش کیا جارہا ہے۔ تمام ٹی وی چینلز اور اخبارات میں تھر کے گوٹھوں، ریت کے ٹیلوں، جھونپڑیوں، تھری لباس میں غریب خواتین، بوڑھوں اور بچوں کے حوالے سے مناظر دکھائے جا رہے ہیں۔ تھر صدیوں سے میڈیا کی نظروں سے اوجھل تھا۔ تھرکے باسیوں سے میڈیا کی بے انتہا محبت اور ہمدردی اس سے قبل نظر نہیں آئی۔ تھر کے عوام کی حقیقی تکالیف اور مصائب کے حوالے سے کسی خبر کو نہ کبھی اخبارات میں ایک یا دو کالم کی جگہ ملی اور نہ ہی ٹی وی چینلزپر ایک منٹ کی خبر نشر ہوئی۔ اس مرتبہ تھر میں میڈیا کی ٹیمیں پہنچ گئی ہیں اور حقائق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے تھر اور تھرکے لوگوں کو میڈیا نے ایسے دریافت کیا ہے، جیسے کولمبس نے امریکا دریافت کیا تھا۔

تھر کی غربت، بھوک، بدحالی، بے روزگاری اور بیماری کو حیرت انگیز انداز اور دل سوز آواز میں بیان کیا جارہا ہے، جیسے یہ سب کچھ تھر میں پہلی بار ہوا ہے۔ تھر کے قحط کو سندھ حکومت کی کوتاہی سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سندھ حکومت اگر 50 یا 100 کلو گندم ایک مہینہ پہلے تقسیم کرتی تو تھر میں لوگ نہیں مرتے اور نہ ہی لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تھر کے لوگ ہر سال روزگار کے لیے سندھ کے دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ ہر ذی شعور آدمی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ تھر کے لوگوں کے مسائل کا حل قلیل مدتی یا امدادی کارروائیوں میں نہیں ہے۔ ان کے مسائل کا مستقل حل تھر میں رہنے والوں کی قوت خرید میں اضافہ کرنے اور روزگار کے وسائل پیدا کرنے میں ہے، جس کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ گندم، چاول اور خوراک کی دیگر اشیاء تھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بازاروں اور دکانوں پر موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ تھر کے عوام میں قوت خرید نہیں ہے۔ اس امر کا اظہار تھر کے لوگوں نے بھی خود میڈیا کو دیے گئے انٹرویوز میں کیا ہے۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا ایک شعر پیش کررہا ہوں، جس میں 300 سال قبل تھر کے قحط اور ماروڑوں کی مالی مسائل اور مجبوریوں کی عکاسی ہوتی ہے۔

سارنگ سار لھیج، اﷲ لگھ اجین جی

پانی پوج پٹن میں، ارضاں ان کریج

وطن و سائیج، تہ سنگھارن سک تھئے

شاہ سائیں نے تھر میںبارش نہ ہونے کوقحط کا سبب قرار دیا ہے۔ انھوں نے قحط کی ذمہ داری حکومت وقت پر نہیں ڈالی۔ تھر میں قحط سے متعلق رپورٹ آنے کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے ہنگامی اجلاس طلب کیا اور پریس کانفرنس میں ضلع تھرپارکر میں ایک لاکھ 20 ہزار گندم کی بوریاں 50 فی صد رعایتی نرخ پر دینے کی بجائے مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا ۔اس گندم کی قیمت 42 کروڑ روپے سے زائد بنتی ہے ۔انھوں نے مریضوں کے علاج کے لیے مزید 10 کروڑ دینے کابھی اعلان کیا اور تھر کے معاملے میں سستی اور نااہلی کا مظاہرہ کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی بھی کی ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ تھر کا چار سے زیادہ مرتبہ دورہ کرچکے ہیں اور امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر کو تھر میں مستقل کیمپ قائم کرنے کی ہدایت کی۔

ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف قحط کی صورتحال کو ہزار گنا بڑھا چڑھا کر اور انتہائی پر سوزانداز میں پیش کیا گیا اور دوسری طرف حکومت سندھ کی جانب سے جاری امدادی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انھیں زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے عملے اور اداروں میں خوف پھیلا یا جارہا ہے اور امدادی کاروائیوں میں رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں ،جس کا نقصان تھر کے غریب عوام کو ہی ہورہا ہے ۔ زمینی حقائق سے اس میڈیا ٹرائل کے اصل مقاصد کا پتا چلتا ہے ۔ میڈیا میں یہ بھی شایع اور نشر کیا گیا کہ بچوں کی اموات غذا ئی قلت کے باعث ہوئی ہیں لیکن 22 مارچ کوموقرانگریزی اخبار ڈان میں شایع ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ اور الجزیزہ ٹی وی پر نشر ہونے والی ڈاکومینٹری میں کہا گیاہے کہ تھر میں بچوں کی ہلاکت بھوک کی وجہ سے نہیں بلکہ بیماریوں سے ہوئی ہے ۔

حکومت سندھ کی جانب سے ضلع تھرپار کر میں نہ صرف گندم کی تقسیم اور طبی سہولتوں کی ہنگامی بنیاد پر فراہمی کے ساتھ ساتھ دیگر امدادی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں، جن کا ذکر میڈیا میں نہیں کیا گیا۔ ریکارڈ کی درستگی کے لیے یہاں ذکر کرنا لازمی ہے کہ ضلع تھرپارکر میں ڈسٹرکٹ سول اسپتال مٹھی سمیت تمام تحصیل اسپتالوں ‘31 بنیادی یوں اور پی پی ایچ آئی کے 49 مراکزصحت کو فعال کیا گیا ہے ،جن میں 374672 افراد کے علاج کی گنجائش ہے۔ ضلع میں پی پی ایچ آئی کے 26 مرد ڈاکٹرز ‘ 7 لیڈی ڈاکٹرز اور حکومت سندھ کے 11 مرد ڈاکٹرز اور 7 لیڈی ڈاکٹرز کے علاوہ حکومت سندھ اور دیگر اداروں کے مجموعی طور پر 22 موبائل میڈیکل یونٹس اور 4 صوبائی ڈسپنسریاں بھی چوبیس گھنٹے عوام کو طبی سہولیات فراہم کررہی ہیں۔ ان طبی مراکز کی گنجائش بڑھانے اور ادویات کی خریداری کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ نے مزید ایک کروڑروپے کی منظوری دی ہے ۔ یہ تمام امدادی سرگرمیاں میڈیا کے قلم اور کیمرہ سے ابھی تک اوجھل ہیں ۔

ضلع تھرپار کر میں لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے 83 آر او پلانٹس کو چلنے کے قابل بنایا گیا ہے جبکہ صوبائی حکومت نے پورے صوبے میں شمسی توانائی سے چلنے والے مزید 760 آر او پلانٹس نصب کرنے کا منصوبہ بھی بنایا ہے، جس کے لیے کراچی میں ایک فیکٹری قائم کی گئی ہے ۔ منصوبے کے تحت 683 آر او پلانٹس صرف ضلع تھرپار کر میں لگائے جائیں گے ۔یہ قلیل مد تی اقدامات ہیں ،جو سندھ حکو مت تھر کے عوا م کو فو ر ی امدا د فرا ہم کر نے کے لیے کر رہی ہے لیکن ضلع تھر پا ر کر کے مسا ئل کا اصل حل یہ ہے کہ مستقل بنیادوں پر ترقی ہو، لوگوں کی قوت خرید میں اضافہ ہو،انھیں زندگی کی بنیا د ی سہو لتیں میسر ہوں اور وہا ں کے انفرا اسٹرکچرمیں بہتری ہو تا کہ تھر کے لوگ اپنی آمد نی سے غذا ئی ضرور یا ت کی تما م اشیا ء خرید سکیں اور طبی مسا ئل اور بیماریو ں کا کامیابی سے مقا بلہ کرسکیں ۔یاد رہے کہ پیپلزپارٹی کی پہلی حکو مت میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے تھر پا ر کر کے صحرا ئی اور ضلع ٹھٹھہ کی سا حلی پٹی کی ترقی کے لیے میگا پرو جیکٹس کا اعلا ن کیا تھا ،جن میں تھر کے کو ئلے سے بجلی کی پیدا وا ر اور کیٹی بندر کی تعمیر کے منصوبے شامل تھے لیکن بعد کی حکو مت نے محض سیاسی مخالفت کی بنا پر دونوں بڑے منصوبوں کوختم کردیا۔

اس سے نہ صرف سندھ بلکہ پو ر ے ملک کے عوا م کو اندھیروں میں دھکیل دیاگیا اورتھر کے عوام کو رو زگار اور اپنی آمد نی سے محرو م کیا گیا ۔اگر ان منصو بو ں کو جا ر ی رکھا جا تا تو آج تھر کے عوام کی یہ حالت نہ ہو تی اور نہ ہی ملک لو ڈ شیڈنگ اور صنعت کا ر ی کے عد م تحفظ کا شکا ر ہو تا ۔ان منصوبوں کو ختم کرنے سے تھر سمیت پو ر ے ملک کی تر قی کو  25سا ل پیچھے دھکیل دیاگیا اوراس کی سزا عوا م کو ملی ۔ملک کے دیگر علاقو ں کے لو گو ں کے پا س تو پھر بھی کچھ وسا ئل تھے لیکن تھر کے لوگ اس کا سب سے زیادہ شکا ر ہو ئے ۔اس پو ر ی صورتحا ل کے پیش نظر شہید محتر مہ بے نظیر بھٹو اور سا بق صدر پا کستا ن آصف علی زرداری نے ما ضی کے تما م تجر با ت کو سامنے رکھتے ہو ئے مفا ہمتی پا لیسی اختیا ر کی ۔حا لا نکہ پیپلزپارٹی کو مفاہمتی پا لیسی کی وجہ سے بہت کچھ قر با ن کر نا پڑا لیکن عوا م کے مفا د میں اسے قبو ل کیا ۔سندھ حکو مت نے ایک مر تبہ پھر تھر پا ر کر کے عوا م کی مستقل خو شحا لی ،تر قی اور ان کے لیے رو ز گا ر کے دروا زے کھو لنے کے لیے تھر کول پرو جیکٹ پر عملدرآمد شرو ع کر دیاہے ۔اس کے علا وہ سندھ حکو مت جلد ہی تھر پا ر کر ڈو لپمنٹ اتھا ر ٹی قا ئم کر نے جا رہی ہے ،جس کے ذریعے ضلع میں سڑ کو ں ،اسپتا لو ں اور اسکولوں کا جا ل بچھا نے کی منصو بہ بندی کی جا رہی ہے۔

تھر میں ایئر پو ر ٹ کی تعمیر پہلے ہی مکمل کی جا چکی ہے ۔تھر سے ملنے وا لے کو ئلے سے پیدا ہو نے وا لی بجلی سے صنعتی زو ن کا منصو بہ بھی بنایا گیا ہے ۔تھر کی ریت میں دبے معد نی وسائل اور تھر میں پیدا ہو نے وا لی جڑی بوٹیو ں کو تھر کی تر قی کے لیے استعما ل کر نے کے منصو بے پیپلز پا ر ٹی کی حکو مت کے پاس موجو دہ چند سا لو ں میں صدیو ں سے درد اور تکلیف بر دا شت کر نے وا لے تھر کے مکینو ں کو سکھ کا سا نس نصیب ہو گا ۔یہی اصل حقیقت ہے جو کہ پیپلزپارٹی مخا لفین کے لیے پر یشا نی کا باعث بن رہی ہے اوروہ پاکستا نی پیپلز پا ر ٹی کی را ہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں ۔درا صل وہ تھر کے عوا م کی تر قی اور خو شحا لی میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ اگرانھیں تھریو ں کا اتنا دردہے تو وہ سندھ حکو مت پر تنقید کے بجا ئے تھر کے عوا م کی مدد کر نے کے لیے سندھ حکو مت کا ساتھ دیتے یا پھر اپنی طرف سے امدا دی سر گرمیو ں میں حصہ ڈا لتے۔ ان کے اس رویے سے یہ صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ ان کی ایجنڈا کچھ اور ہے تھر کے عوا م کے درد میں ان کے مخصوص مفادات پوشیدہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔