ماحولیاتی تبدیلیاں اور خطرات

زمرد نقوی  پير 14 نومبر 2022
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مصر کے شہر شرم الشیخ میں اقوام متحدہ کا سربراہی اجلاس گذشتہ ہفتے ہوا۔ جہاں کاربن گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کی کوششوں اور ان پر عمل درآمد کے متعلق گفتگو کی گئی۔

اس خوفناک عفریت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا رہا ہے تاکہ اس کرہ ارض کے باشندوں کو آگاہی ہو جنھوں نے خود اپنے ہاتھوں اس کرہ ارض اور اس پر بسے انسانوں کی تباہی کا سامان کر دیا ہے ۔ لیکن ماحولیاتی سائنسدانوں کے مطابق اب اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ۔ ریڈ لائن کبھی کی کراس ہوچکی ۔

بقول اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گریس کے شاید وقت بھی ہمارے ہاتھ سے نکل چکا اور درجہ حرارت میں تیزرفتار تبدیلی بتا رہی ہے کہ 8سال بعد دنیا کے کئی خطوں میں زندگی ناقابلِ برداشت ہوجائے گی(جس میں پاکستان بھی شامل ہے)۔

گذشتہ چالیس برس سے شیر آیا شیر آیا کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے لیکن اب تو ماحولیاتی درجہ حرارت کا شیر نہیں بلکہ ببر شیر ہمارے سر پرہماری تکا بوٹی کرنے کے لیے بیتاب ہے۔

مطلب اس کا یہ ہے کہ ہم عالمی درجہ حرارت 1.5سینٹی گریڈ اضافے کے بالکل قریب ہیں اور اگر یہ 1.8اضافے پر پہنچ گیا تو نتیجے میں دنیا بھر کے لوگوں کو جان لیوا گرمی اور حبس کا سامنا کرنا پڑے گا اور انسان کروڑوں کی تعداد میں خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو کر کیڑوں مکوڑوں کی طرح مرنے لگیں گے۔

حالیہ موسم گرما میں صرف یورپ میں پندرہ ہزار افراد اس جان لیوا گرمی کی وجہ سے موت کے گھاٹ اُتر گئے ۔ اسپین اور جرمنی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔

ذرا اندازہ لگائیں اس بلند درجہ حرارت کی وجہ سے براعظم یورپ کو قرونِ وسطی کے بعد سے یعنی ہزاروں سال بعد بد ترین خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا یعنی یہ ایسی قیامت صغریٰ ہے جس میں انسان سمیت تمام جاندار کرہ ارض سے ناپید ہو سکتے ہیں۔

پاکستان پر قیامتِ صغریٰ پہلے 2010 میں نازل ہوئی ، دوسری مرتبہ اس سال ۔ اس کی وجہ بھی جان لیں ، وجہ اس کی یہ ہے کہ بین الاقوامی تحقیق کے مطابق پاکستان دو موسمی نظام کے سنگم پر واقع ہے ۔

اس وجہ سے پاکستان عالمی حدت اور موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ ایک نظام ناقابلِ برداشت گرمی اور خشک سالی لے کر آتا ہے تو دوسرا مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے تباہ کن سیلابوں کا باعث بنتا ہے ۔

گلوبل وارمنگ کی وجہ سے قطب شمالی اور قطب جنوبی پر برف کے پہاڑ پگھل رہے ہیں ۔ وہ برفانی علاقہ جو آج سے 42برس قبل 14ملین کلومیٹر پر محیط تھا اب صرف 4ملین کلومیٹر رہ گیا ہے ۔ براعظم انٹار کٹیکا جہاں برف کی ساڑھے تین کلومیٹر گہرائی تھی جس کے معنی یہ ہوئے کہ کرہ ارض کا 60فیصد میٹھا پانی یہاں محفوظ ہے ، اب یہ سب کچھ پگھل رہا ہے کیونکہ 100ملین ٹن برف سالانہ پگھل رہی ہے ۔

صرف یہی نہیں پاکستان میں بھی سات ہزار سے زائد گلیشئر پائے جاتے ہیں۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت قدرت کے ان سب نایاب تحفوں کو نہ صرف پانی میں بدل دے گا بلکہ سیلابوں کی شکل میں بے پناہ تباہی کا باعث بھی بنے گا ۔ اب سیلاب ہر سال آیا کریں گے۔ موسم گرما ہر سال آگ برسائے گا اور موسم سرما سخت سردی اور برفانی طوفان لائے گا ۔

اب آپ ماحولیاتی تباہی کی سائنسی تشریح جان لیں کہ یہ ہوتی کس طرح سے ہے ۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے زیادہ درجہ حرارت کرہ ہوائی کے زیریں حصوں کو گرم کر رہا ہے جس کی وجہ سے پانی کی تبخیر تیز ہو گئی ہے۔ یوں زیادہ پانی کرہ ہوائی میں پہنچ رہا ہے ۔

کرہ ہوائی میں زیادہ پانی کا مطلب زیادہ بارش ہے جب کہ اس سے اچانک پیدا ہونے والے طوفان اور شدید بارشیں جڑی ہیں۔ پانی کی تیز تبخیر پہلے سے خشک سالی کا شکار علاقوں میں طویل خشک سالی کا باعث بھی بن رہی ہے ۔

یعنی گرمی کی وجہ سے پانی زمین میں ٹھہرنے کی بجائے تیزی سے اُڑ رہا ہے ۔ تحقیقی ادارے میرین سائنس بارسلونہ (اسپین)کے ایک حالیہ مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں آبی چکر کی رفتار تیز کر رہی ہیں۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ سمندر اور خشکی دونوں ہی مقامات پر تبخیر کا عمل ماضی کے مقابلے میں تیز تر دیکھا جا رہا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس کا حل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے استعمال میں بڑے پیمانے پر فوری کمی ہے ۔ زمین پر دوڑنے والے ہر طرح کے وہیکلز بحری جہاز، ہوائی جہاز ، ہر روز ہزاروں ٹن فضا میں کاربن پھینک رہے ہیں ۔

مہینے اور سال میں یہ مقدار کتنی بن جاتی ہے خود ہی حساب کر لیں تو دنیا جہنم کیوں نہ بنے جو کہ آخر کار بن گئی ہے خود انسان کے ہاتھوں ۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ لگے رہو مُنا بھائی ، تباہی پھیرتے رہو ، فکر کوئی نہ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔