الیکشن سے فرار

عثمان دموہی  جمعـء 18 نومبر 2022
usmandamohi@yahoo.com

[email protected]

تازہ خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی طرح اب ایم کیو ایم نے بھی بلدیاتی انتخابات کو روکنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔ اس ضمن میں کراچی کے سابق میئر وسیم اختر کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم بھی جلد الیکشن چاہتی ہے مگر اس وقت پی ٹی آئی نے پورے پاکستان میں افراتفری کا ماحول پیدا کردیا ہے۔

ایسے حالات میں الیکشن کیسے ہو سکتے ہیں پھر دوسری جانب سندھ کے اکثر اضلاع میں سیلابی پانی سے کئی پولنگ اسٹیشن ڈوبے ہوئے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنائے بغیر اور بعض قانونی پیچیدگیوں کو دور کیے بنا الیکشن کرانا بے سود ہوگا۔

کراچی اور سندھ میں بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کئی مرتبہ ملتوی ہو چکا ہے جس کے بعد جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے سندھ ہائی کورٹ میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کے خلاف جو درخواستیں جمع کرائی ہیں۔

ان میں ایم کیو ایم نے فریق بننے کی استدعا کی ہے۔ ایم کیو ایم کے اس رویے پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ترجمانوں نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم دراصل الیکشن سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتی ہے کیونکہ کراچی میں اب اس کا مینڈیٹ کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے بعض تجزیہ کاروں کے مطابق کراچی میں کچھ دن قبل منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے الیکشن میں ایم کیو ایم کو کراری ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس ہار سے سبق لیتے ہوئے اب ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کو جلد منعقد ہونے سے روکنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی تو پہلے ہی کراچی میں جلد انتخابات کے انعقاد سے ہچکچا رہی ہے کیونکہ اس کا کراچی میں مینڈیٹ بہت کم ہے تاہم کراچی میں بلدیاتی انتخابات کا التوا انتہائی افسوس ناک ہے۔

کراچی کی حالت زار پر اس کے شہری ایک عرصے سے نوحہ کناں ہیں وہ جلد از جلد بلدیاتی انتخابات چاہتے ہیں تاکہ بلدیاتی نظام بحال ہو اور انھیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں اس وقت جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہو سکیں۔

اس وقت ٹوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر کراچی کی پہچان بن چکے ہیں دنیا کا شاید ہی کوئی اور میٹروپولیٹن سٹی ایسی حالت زار سے گزر رہا ہو۔ یہ کوئی غریب شہر بھی نہیں ہے یہ شہر ملک کے تمام شہروں سے زیادہ ریونیو پیدا کرتا ہے جو پورے ملک کے ریونیو کا 70 فیصد ہے۔

اس طرح یہ شہر ملک کی معیشت کا مرکز ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی کے ریونیو سے ملک چل رہا ہے مگر اس شہر کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ وفاقی سے لے کر صوبائی حکومت تک اس سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔

اس شہر کی سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اس کا بلدیاتی نظام شروع سے ہی کمزور ہے اور پورے شہر کو بنیادی سہولیات بہم پہنچانے میں ناکام ہے پھر بلدیاتی نظام درست ہو تو کیسے؟ کہ یہ صوبائی حکومت کے رحم و کرم پر ہے۔ کراچی کی مد میں ملنے والا فنڈ 18 ویں ترمیم کے تحت صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ملتا ہے جو بلدیاتی اداروں تک نہیں پہنچ پاتا جس سے یہ ایک غیر موثر ادارہ بن گیا ہے جس کا میئر بھی بے اختیار ہے۔

کراچی کے سابق میئر وسیم اختر جو ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے ہیں اپنے پورے دور میں اختیارات کا شکوہ کرتے رہے تھے دراصل میئر کے اختیارات کو سندھ حکومت نے غصب کرلیا ہے۔

وہ مالی وسائل کے سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ کے آگے کاسہ لیس رہے مگر ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک میئر کے تمام اختیارات اسے تفویض نہیں کیے جاتے یہ شہر مسائل کا شہر بنا رہے گا۔ یہ نظام پرویز مشرف کے دور سے شروع ہوا تھا اس وقت کراچی کا میئر بااختیار تھا۔ اس لیے کہ اسے 18 ویں ترمیم کے تحت جو اختیارات دیے گئے تھے وہ ان تمام کا حامل تھا۔ پرویز مشرف حکومت کے ختم ہونے اور کراچی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قائم ہونے کے بعد سے کراچی کا میئر بے اختیار ہو گیا کیونکہ پیپلز پارٹی نے اس کے اکثر اختیارات اپنے پاس ہی رکھ لیے ہیں۔

اس وقت سندھ کے پورے بلدیاتی نظام کو پیپلز پارٹی نے سنبھال رکھا ہے اس لیے بھی کہ صوبے میں بلدیاتی الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے یہ نظام اس کے رحم و کرم پر ہے اور وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے اس طرح اس کی جانب سے بلدیاتی انتخابات میں لیت و لعل کا معاملہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر ایم کیو ایم کی جانب سے انتخابات میں التوا کی وجہ سمجھ سے باہر ہے۔

لگتا ہے اس کی جانب سے انتخابات میں التوا کی وجہ پیپلز پارٹی سے اس کا نیا گٹھ جوڑ ہے۔ حال ہی میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کے سرکردہ لیڈروں سے ملاقات کرکے سندھ حکومت میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کامران ٹیسوری پہلے ہی ایم کیو ایم کی طرف سے گورنر سندھ مقرر ہو چکے ہیں۔

چنانچہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات سے پیچھے ہٹ رہی ہے اس کے علاوہ وہ کراچی میں منعقد ہونیوالے قومی اسمبلی کے الیکشن میں اپنے امیدوار کی شکست سے بھی مایوس ہو چکی ہے۔

تاہم اس کا الیکشن سے دوری اختیار کرنا کراچی کے شہریوں پر بہت بھاری ثابت ہوگا۔ چنانچہ جتنا الیکشن دور ہوتا جائے گا یہ عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ اس سے ایم کیو ایم کو نقصان ہوگا اور اس وقت اسے عوام میں جو بھی پذیرائی حاصل ہے اس میں مزید کمی واقع ہو سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔