مزید معاشی بدحالی، مزید مہنگائی، مزید لڑائیاں

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 9 دسمبر 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بازار میں پیاز اور سیب یکساں نرخوں میں فروخت ہو رہے ہیں۔ اچھا سیب 225روپے فی کلو اور پیاز 250روپے فی کلو بِک رہے ہیں۔

موسمی سبزی خریدنا بھی دشوار ہو چکا ہے۔ ادویات کی قیمتیں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً آسمان تک پہنچ رہی ہیں۔ مجبوراً مریض خود کشی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ نے 7دسمبر 2022 کو صفحہ اوّل پر 7پریشان کن معاشی خبریں شائع کی ہیں:(1) معاشی ایمر جنسی کی خبریں بے بنیاد ہیں (2)زرِ مبادلہ کی کمی کے کارن پیاز، لہسن ، ادرک کے 417کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر کلیرنس کے منتظر (3) معاشی بحران بڑھ گیا۔

آئی ایم ایف کے دباؤ پر ترقیاتی بجٹ میں 350ارب روپے کی کٹوتی کی تجویز (4) مالیاتی ادائیگیوں کے لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سخت بھاگ دوڑ کررہے ہیں(5)عالمی بینک کہتا ہے کہ پاکستانی ترسیلات میں7.3فیصد کمی ہو سکتی ہے (6) ترسیلاتِ زر میں کمی کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ اور روپیہ مزید کمزور(7)وزارتِ خزانہ نے زور دیا ہے کہ عوام معاشی بدحالی اور آئی ایم ایف کے عدم تعاون کی خبروں پر دھیان مت دیں، یہ افواہیں ہیں۔

گھر میں تنگدستی پھیل رہی ہو توگھر میں لڑائیاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہی حال ملکوں کا بھی ہوتا ہے ۔کیا اِسے وطنِ عزیز کی بد حال معیشت کا شاخسانہ کہنا چاہیے کہ چند روز قبل منگلا ڈیم کی ایک سرکاری تقریب کے دوران وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس باہم ناراض ہو گئے۔ نتیجے میں موخر الذکر کا اسلام آباد میں پلازہ سر بمہر کر دیا گیا۔

یوں کئی اسلام آبادی کاروباریوں کا معاشی ناطقہ بند ہو گیا۔ایک وفاقی وزیرکا کہنا ہے کہ مذکورہ پلازہ سر بمہر کرنا قانونی تھا لیکن وفاقی حکومت کا یہ اقدام شائد بے وقت تھا۔ پنجاب بھی وفاق سے لڑ رہا ہے ۔

اگلے روز وزیر اعلیٰ پنجاب، چوہدری پرویز الٰہی، نے ایک انٹرویو میں سخت لہجے میں کہا ہے کہ شہباز حکومت پنجاب کے (ہیلتھ کارڈ کی مد میں) 7ارب روپے ادا نہیں کر رہا۔ کیا یہ لڑائی پنجاب میں صحت سہولت کارڈ بند کرنے کا باعث بن جائے گی؟ اگر معاشی بدحالی کے سبب ایسا ہُوا تو اِس کا ملبہ شہباز شریف اور نون لیگ پر گرے گا۔

محترمہ مریم نواز سے منسوب ایک بیان پہلے بھی سامنے آ چکا ہے جس نے اس ’’افواہ‘‘ کو جنم دیا تھا کہ شہباز شریف کی حکومت کو صحت کارڈ بند کر دینا چاہیے کہ اِس سہولت کے اجرا سے عمران خان یاد آتے رہتے ہیں ۔بعد ازاں اِس بیان کی تردید کر دی گئی تھی۔

’’عظیم منتظم‘‘جناب شہباز شریف کی زیر قیادت اتحادی حکومت کا دعویٰ تھا کہ ہم اقتدار میں آ کر عمران خان کی پیدا کردہ ’’قیامت خیز‘‘ مہنگائی خاتمہ کردیں گے ۔یہ بھی دعویٰ تھا کہ ہمارے پاس مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار کی شکل میں ایسے ایسے ’’کاریگر‘‘ ہیں کہ معیشت کی بگڑی صورت سنوار دیں گے ۔

شہباز شریف نے پہلے مفتاح اسماعیل کو میدان میں اُتارا۔مگر کراچی کا ہمارا یہ پیارا وزیر خزانہ(اور صنعتکار) 6مہینے قومی خزانے کی کنجیاں سنبھالے رہا مگر بُری طرح ناکام و نامراد ہُوا۔ ناکامیوں کے باوجود مفتاح اسماعیل کو شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی حمائت حاصل تھی ۔ لندن میں بیٹھے مگر اسحاق ڈار مسلسل مفتاح اسماعیل کے اقدامات اور فیصلوں کو ہدفِ تنقید بناتے رہے۔

اِس ضمن میں اسحاق ڈار کو مبینہ طور پر نواز شریف کی اشیرواد بھی حاصل تھی۔ شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کی حمائت مگر مفتاح اسماعیل کے کسی کام نہ آ سکی اور  اسحاق ڈار کو میدان میں اُتارا گیا۔ اِس سلوک پر مفتاح اسماعیل کے شکوے اور شکر رنجیاں بے جا نہیں ہیں۔

اب مفتاح اسماعیل مسلسل ایک انگریزی معاصر میں مضامین لکھ ‘ اسحاق ڈار، کے فیصلوں اور اقدامات کو ناقص ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔اسحاق ڈار اس شدید تنقید پر چیں بہ جبیں تو ہیں لیکن مفتاح اسماعیل کے خلاف کچھ کر نہیں سکتے ۔

یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے‘‘۔ معیشت کے یہ دونوں مبینہ ’’کاریگر‘‘ ایک دوسرے کا گریباں چاک کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ستم برستم منظر یہ ہے کہ جن ’’کاریگروں‘‘ نے معاشی میدان میں عوام کو حوصلہ دینا تھا، مہنگائی کی کڑکّی میں پھنسی عوام کی گلو خلاصی کروانی تھی ، وہ خود باہم دست و گریباں ہو رہے ہیں ۔

جب اسحاق ڈار اپنے پیشرو ، مفتاح اسماعیل، کو مخاطب کرتے ہُوئے یہ کہتے ہیں :’’ مَیں مفتاح اسماعیل کو جواب نہیں دینا چاہتا۔لیکن مفتاح اسماعیل سے پوچھا جائے کہ وہ کیا ارینج کر کے گئے ہیں؟ کیا مفتاح کو 32ملین ڈالر کی ارینجمنٹ کر کے نہیں جانا چاہیے تھا۔

اب مفتاح کو نہیں، مجھے آئی ایم ایف سے ڈیل کرنا ہے۔‘‘ ڈار صاحب نے یہ گفتگو اُس وقت کی جب ایک نجی ٹی وی نے اُن سے مفتاح اسماعیل کے اُن مضامین بارے استفسار کیا جو اسحق ڈار کے خلاف لکھے جا رہے ہیں ۔مفتاح صاحب تو سخت تنقید کی بات سُن کر بھی جواب مسکراتے ہُوئے دیتے ہیں لیکن اسحاق ڈار صاحب کا لہجہ تلخ اور ترش ہے۔

وہ فرسٹریشن کا شکار نظر آ تے ہیں۔ شائد یہ اِسی مخفی فرسٹریشن کا نتیجہ ہے کہ اسحاق ڈار نے یہ تک کہہ دیا کہ ’’مَیں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن نہیں لُوں گا۔‘‘ پاکستان کی معیشت جس دگرگوں حالت میں ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کو اِس تلخی کا اظہار کرنے سے اعراض برتنا چاہیے تھا۔ اب تو حضرت مولانا فضل الرحمن بھی آئی ایم ایف پر برس پڑے ہیں۔ آئی ایم ایف سے لڑائی کرکے اتحادی حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بوجوہ ’’مجروح‘‘ ہیں۔ وہ اپنے انٹرویوز اور آرٹیکلز میں اتحادی حکومت ، شہباز شریف کی معاشی پالیسیوں اور اسحاق ڈار کے ہر اُٹھائے گئے قدم کی مخالفت کررہے ہیں ۔ اس مخالفت سے خاص طور پر اسحاق ڈار نالاں و ناراض ہیں۔

ان لڑائیوں پر دُنیا بھی دونوں پر ہنس رہی ہے ۔ اِس لڑائی پر سب سے زیادہ خوش جناب عمران خان ہیں جو اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں:’’یہ ( اتحادی حکومت) تو بڑے فخر کے ساتھ یہ دونوں وزیر خزانہ لائے تھے ، لیکن یہ دونوں (مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار) ہی ناکام ہو چکے ہیں ۔ دونوں ہی مگر سچ بول رہے ہیں۔

اور دونوں کا سچ یہ ہے کہ دونوں ہی آئی ایم ایف کا پروگرام لینے اور دونوں ہی ملکی معیشت کو اوپر اُٹھانے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ ملک ڈیفالٹ ہو گا تو یہ دونوں ہی ذمے دار ہوں گے ۔‘‘ دونوں کی مبینہ لڑائیاں شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے حریفوں کو خوش کررہی ہے اور غریب عوام کچلے جا رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔