زلزلے یا مشترکہ مکافاتِ عمل؟

نائمہ لاشاری  پير 13 فروری 2023
ترکیہ و شام میں زلزلے سے اموات کی تعداد 24 ہزار سے تجاوز کرگئی. (فوٹو: فائل)

ترکیہ و شام میں زلزلے سے اموات کی تعداد 24 ہزار سے تجاوز کرگئی. (فوٹو: فائل)

پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک کے بہت سے گھروں اور بہت سے گھروں میں موجود بہت سے لوگوں کے معمولاتِ زندگی معمول کے مطابق ہیں۔ وہ صبح اُٹھتے ہیں، چائے ناشتہ کے بعد گھر کے کچھ کام ہوں یا باہر کے، اُن کےلیے روانہ ہوجاتے ہیں۔ کام کاج نہ ہو تو عزیر رشتے داروں کے گھر خوشی غمی پر آنا جانا، مرد حضرات کا ایک دوسرے کے پسندیدہ سیاستدانوں پر لعن طعن، ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کےلیے اپنے اپنے فلسفیانہ منصوبے پر دلائل اور گھر بیٹھی عورتوں کے بدلتے موسم کےلیے نئے کپڑوں کی سوچ بچار، پکوانوں پر تبصرے، ٹی وی پر نِت نئے ڈراموں میں گھریلو سیاست کے داؤ پیچ اور پھر سوشل میڈیا اسٹیٹسز پر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی جنگ، پھر صبح پھر شام، پھر وہی روٹین اور وہی زندگی اور روز کی وہی کہانی۔

خدا اس ساری روٹین میں کہیں نہیں۔ انسان خدا کو آہستہ آہستہ اپنی روٹین سے نکالتا جارہا ہے۔ اپنے ارد گرد دیکھیے، کہیں انسان خود کو رازق سمجھ رہا ہے، کہیں منصف بنا ہوا ہے، کہیں جبار، کہیں قہار اور کہیں نعوذ باللہ ہمیشہ قائم اور زندہ رہنے والا۔ جسے مرنا ہی نہیں۔ سب کچھ انسان خود بن گیا ہے۔ خدا کی اسے اب ضرورت ہی نہیں۔

یہ صرف ہمارے پاکستان کا المیہ نہیں، دنیا کے بہت سے ممالک میں اس جیسی صورتحال یا اس سے ملتی جلتی گمراہیاں اور بے سکونیاں ہی لوگوں کو راہِ راست اور موجبِ سکون لگتی ہیں۔

لیکن دنیا میں اس وقت دو ممالک ایسے بھی ہیں جہاں شاید چند روز قبل یہی صبح و شام ہوا کرتے تھے، یہی زمینی خدائی کا بازار گرم تھا۔ لیکن اب وہاں حالات پلک جھپکتے میں یکسر بدل چکے ہیں۔ لوگ خدا سے دور ایسے ہوئے اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں کچھ ایسے گم ہوئے کہ قدرت کو دنیا کو جھنجوڑ کر بتانا پڑا کہ ہیلو، خدا کی زمین پر خدا خود بھی موجود ہے اور خدا سے زیادہ طاقتور بھلا کون ہے۔

آن کی آن میں بلند و بالا عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، ہنستے گاتے چہرے آہ و بکا کی تصویریں بن گئے۔ ابتدائی طور پر 6 فروری کی صبح ترکی کے مرکز اور جنوبی علاقوں جبکہ شام کے شمال اور مغربی علاقوں میں آنے والے پے درپے 7.8 درجے کے زلزلوں سے اب تک کی تازہ ترین صورتحال کے مطابق چوبیس ہزار سے زائد افراد قدرت کے قہر کا شکار ہوگئے، 80 ہزار زخمی جبکہ مجموعی طور پر چوبیس ملین یعنی دو کروڑ چالیس لاکھ لوگ براہِ راست متاثر ہوئے۔ ہزاروں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔

میں گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی غیر سنجیدہ نمود و نمائش اور دکھاوے پر مشتمل عوام کی سرگرمیوں کی وجہ سے دور ہوں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس حالیہ زلزلے میں ہونے والی تباہی کے بارے میں سب سے پہلے سوشل میڈیا پر ہی معلومات تک رسائی ممکن ہو پائی۔ ایسی ایسی دل دہلا دینے والی تصاویر، ویڈیوز اور خبریں دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ انسان کی روح بھی کانپ جائے۔ اس تباہی میں معصوم بچوں کے گرد اور خون آلود زندہ زخمی اور مردہ ننھے ننھے ہاتھ پاؤں اور اجسام دیکھ کر بار بار میری آنکھوں میں آنسو آئے اور شکوے کے سے انداز میں دل یہ خود سے سوال کرتا رہا کہ ان معصوم بچوں کا بھلا کیا قصور تھا؟ انہوں نے تو ابھی دنیا دیکھی ہی نہیں تھی، ان کا کیا دوش تھا۔ قدرت اتنی ظالم کیسے ہوسکتی ہے؟ میں نے یہ سوال بار بار خود سے پوچھا۔ پھر احساس ہوا کہ قدرت ظالم نہیں، ظالم تو ہم انسان ہیں۔ قدرت ظالم ہرگز نہیں ہے لیکن جب انسان زمین پر ظلم و ناانصافی کی انتہا کردیتا ہے، صرف اپنے جینے کو ہی زندگی سمجھتا ہے، باقی ساری انسانیت پر زندگی تنگ کردیتا ہے اور خود کو خدا سمجھ کر یہ یکسر بھول جاتا ہے کہ کوئی اور طاقت بھی ہے جو ڈھیل دیے ہوئے، سب کچھ دیکھ رہی ہے۔ اور جب یہ انسان انتہا کردیتا ہے تو وہ طاقت حرکت میں آتی ہے۔

قدرت ظالم نہیں ہے لیکن زمین پر ظلم و ناانصافی کی انتہا کے بعد قدرت حرکت میں آتی ہے تو پھر اس کی قیمت ان معصوم بچوں کو بھی چکانا پڑتی ہے جن کا اس دنیا اور اپنے ماں باپ کے کیے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہ انسانیت کا مشترکہ مکافاتِ عمل ہوتا ہے۔ لیکن انسان ایسا سخت دل ہے کہ سمجھتا ہی نہیں، وہ ساتھ والے گھر میں لگی آگ اور کسی دوسرے کو لگے زخم کا درد سمجھتا ہی نہیں۔ مال اور اولاد آزمائش ہیں اور انسان کے زیادہ تر انتہائی عوامل کے پیچھے یہی دو کمزوریاں چھپی ہوتی ہیں اور جب قدرت انسان کی انتہا پر حرکت میں آتی ہے تو انہی دو کمزوریوں سے انسان کی پکڑ کرتی ہے۔ خدا کےلیے وقت نکالنا مشکل ہے، خدا کے بتائے راستے پر چلنا مشکل ہے، خدا کے احکامات ماننا مشکل ہے۔ اس زندگی کے بعد بھی کوئی زندگی ہے یا اس دنیا کے بعد بھی کوئی دنیا ہے، کوئی عدالت ہے، جہاں ہمیں پیش ہونا ہے۔ یہ حقیقت ماننا مشکل ہے کوئی طاقت ہے جس کا خوف ہمیں ظلم اور نا انصافی سے باز رکھے، حق کے راستے پر چلائے۔

جب انسان خدا سے بے خوف ہوجاتا ہے تو وہ یہ سب فراموش کردیتا ہے۔ پھر تو خدا ہمیں نشانیاں دکھاتا ہے، وہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے، اپنی یکتائی اور قدرت کا احساس دلاتا ہے کہ وہ کس طرح بڑی بڑی سلطنتوں کو الٹ کر رکھ دیتا ہے، کس طرح پلک جھپکتے میں مال و دولت، آل و اولاد کو ملیا میٹ کرکے ان قوموں کو نشانِ عبرت بنا دیتا ہے۔ تاکہ جو بچ جائیں وہ نصیحت پکڑیں۔ اپنے قول و فعل اور اپنی ذات کا ازسرِ نو جائزہ لیں اور خدا کو ناراض کرنے والے ہر کام کو چھوڑ کر خدا کے سامنے جھک جائیں۔ تاکہ وہ نہ صرف ہم پر رحم کرے بلکہ ہمارے پیاروں پر بھی رحم کرے۔ بلاشبہ وہ رحیم و کریم ہے اور اپنے بندے پر ظلم نہیں کرتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

نائمہ لاشاری

نائمہ لاشاری

بلاگر مختلف میڈیا آرگنائزیشن کے ساتھ کام کرنے کے ساتھ مختلف قومی اور بین الاقوامی جرنلسٹس باڈیز کی ممبر ہیں۔ آج کل دبئی میں رہایش پذیر اور سرکاری ٹیلی ویژن میں بطور ڈائریکٹر کام کررہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔