سیاستدانوں کے نام

نصرت جاوید  جمعـء 11 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

صحافی سیاست دانوں کے ساتھ دوستیاں پالنا شروع ہو جائے تو اپنے دھندے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتا۔ اپنی تجزیاتی حس اور ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ فاصلہ رکھا جائے۔ ہم مگر انسان بھی تو ہیں۔ صرف خبروں کی تلاش کے لیے سیاست دانوں سے ملنا ملانا پڑتا ہے تو تعلق واسطے بھی بن جاتے ہیں۔

جس قومی اسمبلی نے 1993ء سے 1996ء تک کام کیا وہ بڑی جاندار اور متحرک اسمبلی ہوا کرتی تھی۔ اس اسمبلی کی ساری رونق اپوزیشن کے چند اراکین کی بدولت تھی جو بہت محنت کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے خلاف مواد اکٹھا کرتے اور اسے بڑی ذہانت کے ساتھ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں پیش کرتے ہوئے میلہ لوٹ لیتے۔ خواجہ محمد آصف اس اسمبلی کو توانائی اور رونق بخشنے والوں میں سے سب سے نمایاں ہوا کرتے تھے۔ قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھے ہوئے میرے جیسے رپورٹروں کو ان کے بولنے کا انتظار رہتا۔ پھر تجسس یہ پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ وہ حکومتِ وقت کے خلاف ایسا چٹ پٹا مواد کیسے اکٹھا کرتے ہیں۔ اپنے تجسس کی تسکین کے لیے ضروری تھا کہ ان سے میل ملاقات بڑھائی جائے۔

ملاقاتیں ہوئیں تو پتہ چلا کہ موصوف کی بہت ساری عادتیں اپنے ہی جیسی ہیں۔ پیٹو نہیں مگر لذیذ کھانے کا شوق۔ دوستوں کے ساتھ محفل آرائی اور اس میں دل کھول کر پھکڑ پن اور لطیفہ بازی۔ انگریزی زبان والا Jolly Good Fellow جو بے ایمان نہیں۔ اخبار، رسالے اور کتابیں بھی شوق سے پڑھتا ہے اور پارسائی کے دعوے کیے بغیر چند اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو ہرگز تیار نہیں ہوتا۔ موصوف نواز شریف کے بے تحاشا وفادار بھی تھے۔ مگر اس وفاداری کا اظہار فدویانہ انداز میں کبھی نہ کرتے۔ آف دی ریکارڈ محفلوں میں اپنے لیڈر اور جماعت پر شدید تنقید کو وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتے اور کبھی کبھار اس ضمن میں واضح کوتاہیوں کا اعتراف بھی کر ڈالتے۔

سردار فاروق خان لغاری مرحوم نے مگر وہ اسمبلی توڑ دی۔ نئے انتخابات ہوئے۔ نواز شریف دوسری بار اس ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ انھوں نے خواجہ آصف کو نج کاری کی وزارت دے دی اور چٹ پٹی خبروں کا متلاشی صحافی اس وزیر سے دور ہو گیا۔ پھر جنرل مشرف نے نواز شریف کے خلاف فوجی بغاوت کر دی۔ خواجہ آصف کو جنرل امجد کے ماتحت احتساب والے اٹھا کر پتہ نہیں کہاں لے گئے۔ میرے جیسے چند صحافیوں نے بڑی مشکلوں کے بعد ان کا پتہ لگایا۔ کافی تشدد کے ذریعے خواجہ آصف سے ’’کرپشن کہانیاں‘‘ برآمد کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔ جب کچھ بھی برآمد نہ ہو سکا تو انھیں رہا کر دیا گیا۔ ان پر اس پورے عرصے میں جو گزری وہ ایک دلخراش داستان ہے۔ اس کے ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ خواجہ آصف وہ واحد سیاست دان تھے جن کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں جنرل امجد نے باقاعدہ ایک بیان کے ذریعے معافی بھی مانگی تھی۔

اس معافی کے باوجود خواجہ آصف بجھ سے گئے۔ 2002ء کی قومی اسمبلی میں منتخب ہو کر آئے تو بیٹھے اپوزیشن ہی کی نشستوں پر لیکن مولوی مدن والی بات نہ رہی۔ 2008ء کے بعد کچھ بحال ہوئے۔ مگر مجھے ہمیشہ گلہ یہی رہا کہ بجائے اپنے کیس کو ماضی کی طرح قومی اسمبلی کے ایوان کے اندر رہ کر لڑنے کے وہ افتخار چوہدری کی عدالت میں جانا شروع ہو گئے۔ بات اگر کرپشن وغیرہ رکوانے تک محدود رہتی تو شاید میں اتنا خفا نہ ہوتا۔ اصل حیرت مجھے اس وقت ہوئی جب خواجہ آصف نے ’’میموگیٹ‘‘ پر بھی ایک طوفان کھڑا کر دیا اور اپنے لیڈر نواز شریف کو کالا کوٹ پہنوا کر اس قضیے کی تحقیقات کروانے کی عرضداشت کے ساتھ عدالت میں لے گئے۔

’’میمو گیٹ‘‘ کو میں نے کبھی اس لیے بھی اہمیت نہ دی کہ اس کا مقصد صرف حسین حقانی کو فارغ کروانا نہیں تھا۔ حقیقی مقصد ان سوالات سے جان چھڑانا تھا جو پاکستان کا ہر ذی شعور شہری 2 مئی 2011ء کے بعد اٹھا رہا تھا۔ آج ہمارے ملک میں کئی برسوں سے پھیلی جو افراتفری نظر آ رہی ہے اس کے اصل اسباب 9/11 اور اس کے بعد پاکستانی ریاست کے طالبان کے بارے میں یوٹرن کے اثرات ہیں۔ غلط یا صحیح امریکی اسامہ بن لادن کو 9/11 کا حقیقی ذمے دار سمجھتے تھے۔ اسامہ اور اس کے ساتھیوں کو سبق سکھانے کے نام پر افغانستان پر قبضہ کیا گیا۔

جنرل مشرف نے اس قبضے کو آسان بنانے کے لیے امریکا کی ہر طرح سے مدد کی۔ اس مدد کی وجہ سے امریکا نے پاکستان کو اتنے ڈالر بھی فراہم کر دیے جو مشرف دور میں اقتصادی حوالوں سے تھوڑی بہت رونق لگاتے رہے۔ ستمبر 2006ء سے مگر واشنگٹن کے طاقتور حلقوں نے الزام لگانا شروع کر دیا کہ ان کے ساتھ القاعدہ اور طالبان کے حوالے سے Double Game کھیلی جا رہی ہے۔ اس الزام نے جان پکڑی تو بات 2008ء کے نئے انتخابات تک پہنچی۔ ہم بحیثیتِ قوم مگر اس الزام کی سنگینی کو پوری طرح سمجھ ہی نہ پائے۔ بالآخر امریکی ہم سے مایوس ہو گئے۔ انھوں نے اپنے تئیں ایبٹ آباد کے اس گھر کا سراغ لگا لیا جہاں اسامہ پتہ نہیں اپنی کتنی بیویوں اور بچوں سمیت بہت سالوں سے رہ رہا تھا۔ پھر اس مکان پر یکم اور 2 مئی کی درمیانی رات امریکی کمانڈر اتارے گئے۔ جنہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے اسامہ کو ہلاک کر دیا۔

ایک عام اور بے بس پاکستانی ہوتے ہوئے میرا اصرار ہے کہ 2 مئی 2011ء کا واقعہ میرے ملک کے وقار کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ تھا۔ اپنے قومی وقار کی بحالی کے لیے ضروری تھا کہ ہم بڑی بے رحمی کے ساتھ اس بات کا کھوج لگاتے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد کیسے پہنچا اور وہاں اتنے برسوں تک کس طرح اطمینان سے پناہ گزین رہا۔ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے یکم اور  2 مئی کی درمیانی رات امریکی طیارے ایبٹ آباد تک آ گئے تو ہماری ریاست کو خبر تک نہ ہوئی۔ ساری واردات کی اطلاع ہمیں امریکی حکام نے ٹیلی فون کے ذریعے اس وقت فراہم کی جب وہ اپنا مشن مکمل کر چکے تھے۔ قومی اسمبلی میں تھوڑے شور شرابے کے بعد ایک کمیشن ضرور بنا۔ مگر بجائے اس کی رپورٹ کا انتظار کرنے کے ہمیں منصور اعجاز نامی ایک شخص نے ’’میموگیٹ‘‘ والا طلسم ہوشربا مہیا کردیا۔ خواجہ آصف اور نواز شریف طوطا مینا کی یہ کہانی لے کر حسین حقانی اور آصف علی زرداری کو ’’غدار‘‘ ٹھہروانے کے لیے عدالتوں میں چلے گئے۔

آج جب خواجہ آصف پر ’’وقار۔ وقار‘‘ کے نام پر کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے تو مجھے ’’میموگیٹ‘‘ والے دنوں کے بہت سارے لمحات بار بار یاد آنا شروع ہو گئے ہیں۔ خواجہ آصف کے ساتھ اپنی دیرینہ محبت کی وجہ سے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ’’اچھا ہوا اور You Deserved It‘‘۔ ہاں خواجہ آصف پر کیچڑ اچھالنے والے سیاست دانوں سے یہ التجا ضرور کرنا چاہ رہا ہوں کہ ’’وقار‘‘ کے نام پر اپنے ایک ساتھی سیاست دان کا سر مانگتے ہوئے اتنا ضرور یاد رکھیں کہ ’’وقار‘‘ کبھی ان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔