ڈاکٹر حسن منظر سے خصوصی مکالمہ

نسیم انجم  اتوار 11 جون 2023
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر سید منظر حسن ،ادبی دنیا میں حسن منظر کے نام سے اپنی شناخت رکھتے ہیں اردو ادب میں بحیثیت فکشن نگار ان کی اہمیت مسلم ہے ، ویسے گزشتہ کئی برسوں سے ڈاکٹر صاحب سے گفتگو کرنے کی تمنا تھی انھوں نے بھی برے خلوص کے ساتھ ہماری خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے گزشتہ دنوں مجھے مدعو کیا تھا، اس ملاقات سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ انھوں نے اپنی کتب مرحمت فرمائیں ’’اے فلک نا انصاف‘‘ اور دو مختصر ناول بعنوانات بیرشیبا کی لڑکی، ماں بیٹی اور ’منظر کے خطوط‘۔ اس کتاب کے مرتب کمال اظہر ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کا انداز تحریر دوسرے لکھاریوں سے جدا ہے وہ حقائق کو خوبصورتی سے بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ وہ اس دور کے اہم اور سینئر قلم کار ہیں وہ آٹھ ناول اور سات افسانوں کے مجموعوں کے خالق ہیں اس کے علاوہ مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔ کچھ دیر رسمی گفتگو کے بعد ہم نے سوالات کا سلسلہ شروع کیا۔ اس دوران چائے اور دوسرے لوازمات کا دور بھی چلتا رہا۔

ہمارا پہلا سوال تھا:

سوال: ڈاکٹر صاحب! ہم اپ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں کہ آپ افسانہ نگار، مترجم اور ناول نویس ہونے کے ساتھ نفسیاتی معالج، اعصابی اور دماغی امراض کے ماہر ہیں۔ اب آپ خود اپنے بارے میں بتائیے کہ جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش اور تعلیمی سفر وغیرہ کہاں سے شروع کیا؟

جواب: میں 4 مارچ 1934 کو ہاپڑ، اترپردیش بھارت میں پیدا ہوا، جہاں تک تعلیم کا سلسلہ ہے تو دسویں جماعت ہیوئٹ مسلم ہائی اسکول سے پاس کی اور انٹر مراد آباد کالج اور تقسیم کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس، یونیورسٹی آف ایڈمبرا ڈی پی ایم اور دوسری اسناد حاصل کیں۔

سوال: پہلا افسانہ اور پہلی کتاب کے بارے میں بتائیے؟ اور کس عمر سے آپ نے کوچہ ادب میں قدم رکھا۔ اور کیا یہ لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے؟

جواب: لکھنے کا عمل اسکول جانے سے پہلے ہی شروع ہو گیا تھا اور یہ سلسلہ جولائی 1948 تک جاری رہا۔ پہلا افسانہ ’’دہقان‘‘ کے نام سے لکھا تھا جو ’’استقلال‘‘ لاہور سے شایع ہوا۔ اور افسانوں کا مجموعہ ’’رہائی‘‘ 1981 میں اشاعت کے مرحلے سے گزرا۔ ناول اور افسانوں کے علاوہ دو کتابیں پریم چند پر تحقیقی اور ہندی سے ترجمے کی نوعیت کی ہیں، ایک ادھورا ناول ’’بوندی‘‘ بھی اپنی تکمیل کی راہ تک رہا ہے۔

سوال: ڈاکٹر صاحب منشی پریم چند کے ادھورے ناول کے حوالے سے کچھ بات ہو جائے۔

جواب: میں نے منشی پریم چند کے آخری ناول کو نہ صرف یہ کہ مکمل کیا بلکہ اسے ہندی زبان میں منتقل بھی کیا جسے 1991 انجمن ترقی اردو نے شایع کیا۔ شورانی دیوی نے اپنے شوہر پریم چند ہندی میں ایک کتاب ’’پریم چند گھر میں‘‘ اس کا اردو میں ترجمہ اور اس کتاب کا پیش لفظ بھی جو اکتالیس صفحات پر مشتمل ہے وہ بھی لکھا۔

سوال: جی ڈاکٹر صاحب یقینا یہ ایک اہم اور بڑا کام تھا ایک مترجم کی حیثیت سے بھی اپ کا نام اردو ادب میں نمایاں ہے، اپ نے کسی زمانے میں شاعری بھی کی ہے۔ ادب کی اتنی جہتوں پر کام کرنے کے باوجود بہت سے ان علمی ادبی اداروں یا شخصیات نے آپ کو نظرانداز کیا ہے؟

جواب: یہ سوال کئی دفعہ پڑھنے میں آیا کہ حسن منظر کو ادب میں نظر انداز کیا گیا، اس کا جواب یا وضاحت ناقد اور محقق پروفیسر محمد قمر میمن (وسکونسن یونیورسٹی) نے اپنے مضمون کے ذریعے کی ہے۔ یہ مضمون ڈان میں اسی عنوان کے ساتھ شایع ہوا۔ ’’حسن منظر کو نظرانداز کیا گیا۔‘‘

انھوں نے سوال پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میں بارہ سال تک صرف نفسیات میں مشغول رہا، اس سلسلے میں ملک سے باہر رہنا پڑا، اس وجہ سے کم لکھنے کا موقع ملا، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مشہور رسائل کے مدیران نے کبھی تقاضا نہیں کیا کہ وہ اپنی تحریر بھیجیں اگر وہ لکھنے پر مجبور کرتے تو شاید میں بھی مشہور ہو جاتا۔ گمان میرا یہی ہے، اس کے علاوہ اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث ادبی کانفرنسوں میں شرکت کے لیے وقت نہیں نکال سکا اور نہ ہی میں نے جرائد کے مدیروں کو خطوط لکھے۔

تنقید نگاروں سے دوستی بھی کم رہی، میں نے اپنا زیادہ تر وقت میڈیسن اور مختلف مذاہب کی کتابوں بالخصوص قرآن کے تراجم کے مطالعے میں گزارا اور اپنے گھر والوں کو وقت دیا، اس دوران لکھا اور چھپنے کے لیے بھیج دیا، پھر میرا کام ختم۔ اب بھلا ایسے ادیبوں کے کام کون دیکھے گا جو پلٹ کر خبر بھی نہ لیں، کون توجہ دے گا، ان حالات میں قلم برداروں کو میرا نام کیسے یاد رہ سکتا ہے اور پھر میری کہانیاں، قصے پبلک مطالعے کے لیے لکھے ہوئے کہیں نظر نہیں آتے۔ دراصل میری اپچ مجھ سے لکھواتی ہے اور پھر وہ لکھی ہوئی چیز کو دیکھتی ہے کہ کس کام کی ہے؟ کیا کوڑا نچوڑ کر ڈھونڈنے والے کو شاید کوئی کام کی چیز مل جائے اور جسے بیچ کر اس کے دام ماں کو دے سکوں۔

سوال: ڈاکٹر حسن منظر اس بات سے آگاہ کیجیے کہ اپ کی پہلی کتاب افسانوں کا مجموعہ یا ناول تھا؟

جواب: جن تحریروں نے مجھے صاحب کتاب بنایا وہ افسانوں کا مجموعہ ’’رہائی‘‘ کے نام سے 1981 میں شایع ہوا۔

سوال: آپ اپنی زندگی کے بارے میں اپنے قارئین کو کچھ بتانا پسند فرمائیں گے؟

جواب: ایک اوسط درجے کے فرد کی نجی زندگی رہی، والد سے فرمائش کرتے ہوئے جھجکتا تھا اور بیوی بچے مجھ سے فرمائش کرتے ہوئے تکلف برتتے تھے۔ عیاشی صرف اتنی تھی کہ اپنی جیب کے حساب سے فلم دیکھتا تھا۔پہلے جو ماں باپ پہناتے تھے پہنتا تھا، بعد میں یہ چارج مرحومہ بیوی نے لے لیا، ہوٹلوں اور کیفے میں کھانے پینے کا شوق کبھی نہیں رہا، مذہب زندگی کا حصہ رہا، مذہبی یا قومی منافرت نہ ماں میں تھی اور نہ بیوی میں۔ زندگی کے مشاغل بس اتنے ہی تھے شطرنج کھیل لی، تیرنا اور کشتی رانی اور اگر پیسہ ہو تو سیاحت۔

سوال: حسن منظر صاحب اپ کو کس ادیب نے متاثر کیا؟

جواب: ادب میں، میں نے کسی کی شاگردی نہیں کی، ویسے دنیا کے نامور ادیب راہ سجھانے والے ہیں اس لیے مطالعہ کو اپنی عادت بنالیا، لیکن سب سے زیادہ مطالعہ میں نے قرآن مجید کا کیا اور الحمد اللہ وہی میری نجی زندگی پر اثرانداز رہا۔ اور پیشے کے روز و شب پر بھی جو میڈیسن اور نفسیات پر مشتمل تھا۔

ڈاکٹر حسن منظر کی تخلیقات کے کئی زبانوں میں تراجم بھی ہو چکے ہیں ان کے منتخب افسانوں کا مجموعہ A Requiem For The EARTH، 1998 کراچی سے شایع ہوا تھا اور اس کی دوسری اشاعت دہلی سے The end of Human History کے نام سے ہوئی۔

سوال: آپ نے ایک نظم ’’آندھیوں کی مٹی‘‘ کس تناظر میں لکھی تھی؟

جواب: اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں ہجرت کا کرب اور عصری رجحانات کا دکھ شامل ہے اسی احساس نے یہ نظم لکھنے پر مجبور کیا۔

ڈاکٹر حسن منظر ادب کی ایک قدآور شخصیت ہیں تصنع اور بناوٹ سے بہت دور، اللہ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے۔( آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔