حاکم وقت کے نام ایک عرضی

اقبال خورشید  جمعرات 8 مئ 2014

جناب والا، آپ کا اقبال بلند ہو۔ خدا صحت دے۔ اقتدار برسوں قائم رہے۔ ناچیز آپ کے حضور ایک عرضی پیش کر رہا ہے۔

بندے کو علم ہے، اِس وقت ذہن آپ کا ہزار پریشانیوں میں الجھا ہے۔ بہت بوجھ ہے کاندھوں پر۔ عمران خان ملک گیر احتجاج کی کال دے چکے ہیں، طاہر القادری اور شیخ رشید بھی میدان ہیں۔ ویسے منطق کی دنیا میں یہ تکون آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔ ہیوی مینڈیٹ ہے آپ کے پاس۔ مگر سازشی نظریات پر یقین رکھنے والوں کا کیا کیجیے۔ وہ مسلسل یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ خان صاحب خود احتجاج نہیں کر رہے۔ معاملہ تھوڑا اندرونی ہے، تھوڑا بیرونی۔ حامیوں کے بہ قول، شہد کی جو نہریں خیبرپختون خوا میں بہہ رہی ہیں، خان صاحب کی آرزو ہے، پورے ملک میں بہنے لگیں۔

ناقد کہتے ہیں؛ پی ٹی آئی کی قبر کھود رہے ہیں۔ اب حقیقت کیا ہے، خدا جانے۔ مگر حکومتی پریشانی بجا۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ خوب یاد ہے، نئے ہزاریے سے ذرا پہلے عزت مآب پرویز مشرف نے منتخب حکومت برطرف کر کے اگلا عشرہ اپنے نام کر لیا تھا۔ ویسے آج کل وہ ہمارے شہر میں ہیں۔ شاید ’’منتخب حکومت‘‘ کی اجازت سے آئے ہیں۔ خدا انھیں بھی صحت دے۔ سنتے ہیں، خاصے مطمئن ہیں اِن دنوں۔

اندازہ ہے، مشرف کیس حکومت کے لیے وبال جان بن گیا ہے۔ سابق وزیر اعظم سمیت کچھ ’’جمہوریت پسند‘‘ تو مارشل لا کی چاپ بھی سن رہے ہیں۔ اوپر سے یہ لوڈشیڈنگ، جس نے موسم گرما سے سازباز کر رکھا ہے، رعایا کو خوب ستا رہی ہے۔ ساتھ دہشت گردی کا عفریت، گرانی، بے روزگاری، اُس پر مستزاد، وفاقی وزرا، جن کے بیانات فقط مشکلات ہی بڑھاتے ہیں۔ ان حالات میں مسند اقتدار پر بیٹھا شخص تفکرات میں گھر جائے، تو بھلا حیرت کیسی۔ اوپر سے عوام کا دبائو، جو یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ دہشت گردی ہو یا پولیس گردی، عسکریت پسندی ہو یا مصلحت پسندی، موقع پرستی ہو یا شخصیت پرستی؛ سب عذاب موجودہ حکومت کو وراثت میں ملے ہیں۔قصّہ مختصر، ہمیں ادراک ہے کہ گوناگوں مسائل نے حکومت کو گھیر رکھا ہے، مگر سوائے آپ کے، اپنی عرضی لے کر اور کس کے پاس جائیں۔

جناب، آپ کراچی آتے ہیں، اِس کے لیے شکریہ۔ اہم فیصلے بھی ہوتے ہوں گے، مگر اِس مشق کا، جو بلاشبہ نیک نیتی سے انجام دی جاتی ہے، نتیجہ کچھ خاص نہیں نکلتا۔ درخواست ہے کہ کراچی بابت ذرا سنجیدگی سے سوچا جائے۔ یہ اِسی ریاست کی حدود میں ہے۔ مرکز اور یہاں ایک ہی سکہ چلتا ہے۔ سب آپ کی رعایا۔

حضور، حالات بہت کٹھن ہیں۔ بے آواز موت کی فصیل ہے شہر کے گرد۔ انسان انسان سے خوف زدہ ہے۔ آدمی تو آدمی، پتھر بھی سہمے ہوئے ہیں۔ خدا لگتی کہیں، یہ شہر ہمارے بچوں کا بچپن نگل گیا۔ اب بتائیے ذرا، ہمارا چھ سالہ بیٹا پوچھتا پھرتا ہے: ’’آج کہاں دھماکا ہوا ہے؟‘‘ ایک عزیز کی سات سالہ بیٹی کو یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ راستے بند ہیں، تو وہ اسکول کیسے جائے گی۔ بوڑھی عورتیں سوال کرتی ہیں ’’آج کتنے بندے مار دیے ظالموں نے؟‘‘

الغرض الم شہر کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔ موت یہاں معمول بن گئی۔ یومیہ بارہ تیرہ افراد قتل ہوتے ہیں، سمجھیں کے روز ہی بارہ تیرہ خاندان چپکے سے مر جاتے ہیں۔ ڈکیتیاں، اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم عام ہیں۔ کسی نے خبر دی، محترم شہباز شریف کے علاقے میں حالات خاصے بہتر ہیں۔ امن و امان ہے۔ کہتے ہیں، وہاں موبائل بھی نہیں چھینے جاتے۔ عجب ہے۔ کیا وہ کوئی اور دنیا ہے؟

نہیں نہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ وفاقی حکومت کراچی کے ساتھ سوتیلے بیٹے سا سلوک کر رہی ہے، ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ جو سلوک ہو رہا ہے، عام طور سے سگوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ایک زمانے میں یہ شہر معاشی شہ رگ ہوا کرتا تھا، اب تو سمجھیں کہ ہر دھندا مندا ہے۔ بس، موت کا کاروبار زوروں پر ہے۔ بیوپاری ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ کچھ کمائیں گے، تو بھتہ دیں گے ناں۔ بیش تر پنجاب، دبئی یا بیرون ملک منتقل ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ اِس افواہ کو سچ سمجھنے لگے ہیں کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ صوبے کو ’’آثارتی شاہ کار‘‘ کے قالب میں ڈھالنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ موئن جودڑو کا ماڈل سامنے ہے۔

لگتا ہے، کچھ ملک دشمن کراچی کو بلوچستان بنانے کے درپے ہیں۔ یومیہ بنیادوں پر ہونے والی ہلاکتوں کے تو ہم عادی ہیں، مگر لوگ اب غائب بھی ہونے لگے ہیں۔ چند روز بعد لاش کی صورت ملتے ہیں۔ الزام قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عاید کیا جاتا ہے۔ پریس کانفرنس ہوتی ہے، بیانات داغے جاتے ہیں، نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ ممکن ہے، غائب ہونے والے سب ہی خطاکار ہوں، مگر اپنی صفائی پیش کرنے کا حق تو ہر شخص رکھتا ہے۔ اِن ہی عوامل کی وجہ سے تو تحفظ پاکستان آرڈیننس متنازع ٹھہرا۔

ہم جانتے ہیں، کراچی کے لیے صدمات نئے نہیں۔ ماضی میں یہ اَن گنت زخم سہہ چکا۔ بہت سا کرب اِس نے برداشت کیا۔ طرح طرح کی آفات کا شکار ہوا، مگر بڑا سخت جان ہے۔ سانس لیتا رہا۔ کومے سے نکل آیا۔ پھر سے جی اٹھا۔

ممکن ہے، ماضی کے تجربات کے پیش نظر مشیروں نے کہا ہو؛ پروا مت کیجیے جناب۔ ویسے ہی اتنے عذاب۔ پھر کراچی کسی اور کا حلقہ۔ اور صدمے برداشت کرنا اس کی عادت۔ مرتا نہیں، سانس لیتا رہے گا۔

نہیں حضور والا۔ مشیر اِس بار غلط ہیں۔ یہ وہ کراچی نہیں، جس نے آپ کے دور میں ایک بڑا آپریشن سہہ لیا تھا۔ نہیں، یہ وہ شہر نہیں۔ کراچی اپنی توانائی کھو چکا ہے۔ نڈھال سا ہے۔ کھوکھلا ہو گیا۔ تھک گیا ہے۔ سمندر سے آنے والی اداس ہوائوں نے اِسے زنگ آلود کر دیا۔ سیکڑوں جرائم پیشہ گروہ اِس کی رگوں میں گردش کر رہے ہیں۔ مذہبی بنیادوں پر یہ بٹ چکا ہے۔ لسانی بنیادوں پر کٹ گیا۔ معاشی طور پر لٹ چکا ہے۔ جن تنظیموں کو آپ کالعدم قرار دیتے ہیں، بیشتر کے ’’سیلیپر سل‘‘ یہیں کہیں تو ہیں۔ اگر مذاکرات ناکام ہوئے، تو جنگ کے اگلے محاذوں میں ایک محاذ یہ شہر بھی ہو گا۔

تو حکومت سے درخواست ہے، اِس شہر کے بارے میں ذرا سنجیدگی سے سوچے۔ یہ آگ کی لپٹوں میں ہے۔ اور اِسے دیو مالائی پرندہ (ققنس) سمجھنے والے غلط فہمی کا شکار ہیں۔ یہ ققنس نہیں، جو گیت گاتا ہوا جل کر راکھ ہو جائے۔ اور پھر مینہ برسے اور راکھ میں انڈا پیدا ہو۔ اور اُس سے ایک اور ققنس جنم لے۔ یہ فقط ایک شہر ہے، اُن ہزاروں بدقسمت شہروں کے مانند، جن کا آج تاریخ کے پنوں میں کوئی نشان نہیں ملتا۔ کیوں کہ راکھ اپنے نشان نہیں چھوڑتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔