مقامی حکومتوں کی ترجیحات کا مسئلہ

سلمان عابد  اتوار 12 نومبر 2023
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان کا ایک بنیادی مسئلہ حکمرانی کے نظام کی شفافیت کا ہے۔ آج کی دنیا میں ’’ خود مختار مقامی حکومتوں ‘‘ کے نظام کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے ۔ کیونکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کا سبب بھی بنتی ہے ۔

یہ جو ہمیں قومی سطح پر بدترین حکمرانی کے بحران کا منظرنظر آتا ہے ، اس کی بھی بنیادی وجہ ’’ مرکزیت پر مبنی نظام ‘‘ ہوتا ہے۔ یعنی اختیارات اوپر کی سطح تک محدود رکھا جاتا ہے۔

پاکستان کا آئین تین حکومتوں پر زور دیتا ہے ۔ جن میں وفاقی , صوبائی اور مقامی حکومتیں شامل ہیں ۔یعنی مقامی حکومتوں کے نظام کو تیسری حکومت کا درجہ حاصل ہے۔ 1973کے آئین کی شق140-Aکہتی ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ مقامی حکومتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد فوری طور مقامی انتخابات کو یقینی بنائیں اور ان حکومتوں کو سیاسی، انتظامی او رمالی خود مختاری دی جائے۔لیکن ہماری جمہوری ترجیحات میں ’’ خود مختار مقامی حکومتوں کا نظام ‘‘ بہت نیچے نظر آتا ہے۔

2010میں 18ویں ترمیم کے بعد خیال تھا کہ جیسے وفاق نے صوبائی حکومتوں کو صوبائی خود مختاری او ر اختیارات دیے ہیں اسی طرح اب ماضی کی غلطیوں کا اعادہ کرتے ہوئے صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں کو ضلعی خود مختاری کے عمل میں مضبوط او رمربوط بنائیں گی ۔لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور اب صوبائی حکومتیں ہی مقامی حکومتوں کی خود مختاری میں ایک بڑی رکاوٹ بن گئی ہیں۔

حالانکہ صوبائی خود مختاری کا اصول اس وقت تک مضبوط یا مکمل نہیں ہوسکتا جب تک ضلعی خود مختاری کے اصول کو تسلیم نہ کیا جائے۔ اسی طرح جمہوریت کا عمل بھی مقامی حکومتوں کے نظام کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔  جیسے ہمارے آئین میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت ختم پر یہ لازم ہے کہ 90دن میں ان اسمبلیوں کے انتخابات لازمی اور آئینی شرط ہے۔ لیکن مقامی حکومتوں کے بارے میں ایسی کوئی شرط آئین میں موجود نہیں البتہ الیکشن ایکٹ میں120دن کا ذکر ہے ، اصولاً آئین میں اس کا واضح ذکر ہونا چاہیے تاکہ اس نظام کے تسلسل کو ہر صورت قائم رکھا جاسکے ۔

سیاسی جماعتوں کو ’’خود مختار مقامی حکومتوں ‘‘ کے نظام کو اپنے لیے خطرہ نہیں بلکہ اپنی سیاسی طاقت اورعوامی مفادات کی حکمرانی کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کا مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ غیر جمہوری طرز عمل درست نہیں اور اس کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی ہونی چاہیے کہ مقامی حکومتیں ناگزیر ہیں اور ا ن کے بغیر ہمارا حکمرانی کا نظام عدم شفافیت کا ہی شکار رہے گا۔

معروف استاد پروفیسر ارشد مرزا جو کئی دہائیوں سے اس نظام پر عملی میدان میں کام کر رہے ہیں او ران کی تنظیم ’’ بیداری ‘‘ سرگرم ہے۔ان کے بقول اصل مسئلہ مقامی حکومتوں کے نظام کی اہمیت، افادیت اور خود مختاری کو تسلیم کرنے سے ہی جڑا ہوا ہے اور اس کی قبولیت کے بغیر اس نظام کو مستحکم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں کے منشور کو دیکھتے ہیں تو ان میں اول تو اس نظام کے بارے میں ان کی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کی مکمل سطح کی عکاسی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس نظام کے بارے میں کچھ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ سیاسی جماعتیں کس طرز کا مقامی نظام حکومت چاہتی ہیں او ران کی ترجیحات کیا ہیں۔

اسی طرح اس نظام کی ناکامی کی ایک وجہ یا اس نظام کے عدم تسلسل او رانتخابات سے گریز کی پالیسی میں ہمیں کہیں بھی صوبائی حکومتوں کی قانونی جوابدہی کی کوئی تصویر نہیں ملتی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومتوں کو جو بے لگام آزادی حاصل ہے اس کا فائدہ صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے نظام کو کمزور کرتی ہیں اور اپنے ذاتی سیاسی و مالی مفادات کی بنیاد پر ان اداروں کے بارے میں ان کی پالیسی غیر جمہوری اور عوامی مفادات کے برعکس ہے۔

اصولی طور پر تو ہمیں قومی یا وفاق کی سطح پر’’ خود مختارمقامی حکومتوں ‘‘ کو یقینی بنانے کے لیے ایک بڑے سیاسی , انتظامی اور قانونی فریم ورک کی ضرورت ہے۔یہ ہی فریم ورک سیاسی جماعتوں او ربالخصوص صوبائی حکومتوں کو پابند کرے گا کہ وہ ریاستی سطح پر موجود تیسری حکومت کو تسلسل کے ساتھ قائم رکھ سکیں ۔

اسی طرح جب تک مقامی حکومتوں کے انتخابات کو یا تو عام انتخابات کے ساتھ ہی جوڑ کر کروائے جائیں یا صوبائی حکومتوں کے انتخابات کے فوری بعد یعنی 120دن کے اندر اندر صوبائی حکومتیں پابند ہوں کہ وہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کو ہر صورت یقینی بنائیں او راس کا حوالہ ہر صورت آئین میں درج ہو ۔ اسی طرح قومی , صوبائی او رمقامی حکومتوں کی مدت بھی ایک جیسی یعنی چار یا پانچ برس ہونی چاہیے تاکہ یہ نظام تسلسل کے ساتھ چل سکے۔

ہمیں مقامی حکومتوں کے نظام کے مقابلے میں متبادل نظا م , اتھارٹیاں یا کمپنیوں کو بنانے کی روایت بھی ختم کرنی ہوگی اور یہ تمام کام مقامی حکومتوں کے نظام کے دائرہ کار میں آنے چاہیے ۔اسی طرح اگرچہ مقامی حکومتوںکا نظام صوبائی سبجیکٹ ہے مگر یہ امر ضروری ہونا چاہیے کہ ا س نظام کے فریم ورک میں چند بنیادی اصول اوپر کی سطح پر موجود ہوں تاکہ کوئی صوبائی حکومت ان اصولوں سے کسی بھی سطح انحراف نہ کرے اور ایسی صورت میں اس کو ہر سطح پر قانونی اور سیاسی جوابدہ بنانا ہوگا۔

پہلی ترجیح ان مقامی حکومتوں کے نظام پر آئینی ترمیم کی ہے یا آئینی و قانونی تحفظ کی اور اسی کو بنیاد بنا کر ہی سیاسی , مالی اور انتظامی خود مختاری کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔لیکن اس کے لیے ہماری سیاسی ترجیحات میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں ۔سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو نہ صرف اپنے سیاسی منشور بلکہ اپنی اور اپنی سیاسی جماعتوں کی سوچ و فکر میں ا س نقطہ کو اہمیت دینی ہوگی کہ مقامی حکومتوں کے نظام کے بغیر جمہوریت کا تصور ادھوار ہے او راس کے بغیر حکمرانی کا نظام مکمل نہیں ۔

خودمختار مقامی حکومتوں کو یقینی بنانے کے لیے سول سوسائٹی، میڈیا، علمی و فکری اداروں اور سیاست سے جڑے افراد جو سیاسی جماعتوں کی سطح پر ہیں کو ریاستی او رحکومتوں پر ایک بڑے دباو کی سیاست کو پیدا کرنا ہے۔ یہ آواز ہر سطح سے اٹھنی چاہیے کہ ہماری ریاستی ترجیح اور شفاف حکمرانی میں مقامی حکومتوں کے نظام کی خود مختاری کو قبول کرنا اور ان کو فعال بنانا ہونی چاہیے۔ اس کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ نظام حکومت میں وفاق، صوبوں اور مقامی حکومتوں کے نظام کے دائرہ کار کو آئین میں واضح ہونا چاہیے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔