ترکی…عالم اسلام کی ابھرتی عسکری طاقت

سید عاصم محمود  اتوار 12 نومبر 2023
مغربی قوتوں اور ان کے حواریوں، اسرائیل و بھارت کا مقابلہ کرنے کی خاطر اسلامی ممالک کو بھی عسکری لحاظ سے طاقتور ہونا پڑے گا…خصوصی رپورٹ
فوٹو : فائل

مغربی قوتوں اور ان کے حواریوں، اسرائیل و بھارت کا مقابلہ کرنے کی خاطر اسلامی ممالک کو بھی عسکری لحاظ سے طاقتور ہونا پڑے گا…خصوصی رپورٹ فوٹو : فائل

حال ہی میں اسرائیل نے اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر پے در پے بم اور میزائیل مار کر غزہ کو ملیامٹ کردیا۔ ہزارہا فلسطینی مرد، خواتین اور بچے شہید ہو گئے۔

اس موقع پر عالم اسلام میں مسلم حکمرانوں نے زبانی کلامی تو اسرائیل پہ خوب گولہ باری کی مگر عملی طور پہ کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ حتی کہ صرف ترکی اور ایران نے اسرائیلی حکمرانوں کو دہمکی دی کہ انھوں نے غزہ میں فلسطینی مسلمانو ں کا قتل عام نہیں روکا تو وہ اعلان جنگ کر سکتے ہیں۔

اسی لیے ترکی سے سبھی اسرائیلی سفارتکار واپس اپنے ملک چلے گئے۔ترکی نے بھی اپنا سفیر واپس بلوا لیا۔ دونوں ممالک کے تعلقات بھی منجمد ہوئے۔

صورت حال سے عیاں ہے کہ عسکری طور پہ امریکا ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یہ تینوں بڑی عسکری طاقتیں ہیں اور ان کی ہلّہ شیری ہی نے اسرائیل کو عالمی غنڈہ بنا دیا۔

حتی کہ وہ اقوام عالم کو خاطر میں نہیں لاتا اور کسی اصول وقانون کی پروا نہیں کرتا۔ ایسے حالات میں ضروری ہو گیا ہے کہ اسلامی ممالک بھی عسکری طور پہ طاقتور ہو جائیں تاکہ خاص طور پہ مغربی طاقتوں کا مقابلہ کر سکیں جو بتدریج مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہو رہی ہیں۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ ترکی میں حکمران طبقہ ، خاص طور پہ صدر طیب اردغان اپنی مملکت کو عسکری قوت بنانے کے لیے پوری طرح سرگرم ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ان کے بائیس سالہ دور حکومت میں ترکی ایک بڑی عسکری قوت بن کا نمودار ہو چکا۔

کارگر ڈرون

ترکی بطور عسکری قوت2020ء میں عالمی سطح پر نمایاں ہوا۔تب ترک ساختہ بیرقدار ٹی بی2 (Bayraktar TB2.)ڈرون کی مدد سے آذربائیجان فوج اپنے مدمقابل آرمینین آرمی کو تاریخی شکست فاش دینے میں کامیاب رہی۔ یہ 2014ء میں بنایا گیا۔ترک فوج نے پہلے پہل ریاست دشمن تنظیموں کے خلاف اسے استعمال کیا۔پھر لیبیا اور شام میں یہ ڈرون استعمال ہوئے۔

آذربائیجانی فوج نے ان ترک ڈرون کے ذریعے دشمن فوج کے سیکڑوں ٹینک، توپیں، بکتر بند گاڑیاں اور میزائیل تباہ کر دئیے۔یوں اس زبردست نقصان کے بعد آرمینین فوج پسپا ہو کے جنگ بندی کرنے پر مجبور ہو گئی۔اس نے مقبوضہ علاقے بھی خالی کر دئیے۔ اس فتح پر آذربائیجان اور ترکیہ میں بھی جشن منایا گیا۔

آج پاکستان کے علاوہ دنیا کے بائیس ممالک کی افواج ترک ساختہ بیرقدار ٹی بی2 اور دیگر ڈرون استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے چھوڑے بم ہوا میں اپنی رفتار کم یا زیادہ کرنے پر قادر ہیں۔جدید آلات کی مدد سے ڈرون کے میزائیل اور بم ٹھیک نشانے پر گرائے جا سکتے ہیں۔

چند سال پہلے تک ماہرین عسکریات کا خیال تھا کہ بیرقدار ٹی بی 2جیسے مسلح ڈرون جنگ میں کسی کام کے نہیں کیونکہ طیارہ شکن توپوں یا عام میزائیل کی مدد سے انھیں گرانا آسان ہے۔مگر جنگوں میں ترک ڈرونوں کی شاندار کارکردگی اور کامیابیوں نے یہ نظریہ غلط ثابت کر دیا۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ترک ڈرون ان ہتھیاروں کوہی تباہ کر ڈالتے ہیں جن سے انھیں نشانہ بنانامقصود ہوتا ہے۔

کرنل (ر) رچ اوتزن (Rich Outzen) امریکا کے ممتاز ماہر عسکریات ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ میںکام کر چکے۔کہتے ہیں:’’ترکیہ کے مختلف اسلحہ بردار ڈرونوں نے حقیقتاً جنگ لڑنے کا طریق کار بدل دیا۔ایسا ایک صدی کے دوران چند بار ہی ہوتا ہے۔‘‘

کرشمہ ظہور پذیر ہوا

نت نئے ڈرون ترکی کی بڑھتی عسکری طاقت کا محض ایک مظہر ہیں۔ حقیقت میں آج ترکیہ میں ایسا مختلف جدید ترین اسلحہ تیار ہو رہا ہے جو کارکردگی و جدت میں یورپی ممالک کے ہتھیارروں سے مماثلت رکھتا ہے۔

حیرت انگیز امر یہ کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں کسی کو گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ ترکیہ محض اگلے دو عشروں میں دنیا کی ایک نمایاں عسکری و صنعتی قوت بن جائے گا۔2001ء میں تو خراب معاشی پالیسیوں کی وجہ سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ ترکی دیوالیہ ہو جائے گا۔ مگر پھر ایک کرشمہ ظہور پذیر ہوا اور ایک اعتدال پسند اسلامی رہنما، رجب طیب اردوغان ترک لیڈر بن گئے۔

طیب اردوغان یہ دیکھتے نوجوان ہوئے تھے کہ فلسطین، کشمیر، فلپائن، تھائی لینڈ، افغانستان،عراق، چیچنیااور صومالیہ میں غیر مسلم طاقتیں مسلمانوں پہ ظلم و ستم کر رہی ہیں۔مگر مسلمان ان طاقتوں کو روکنے سے قاصر ہیں۔اہم وجہ یہ تھی کہ مسلمان عسکری طور پہ کمزور تھے۔

تبھی طیب اردوغان نے فیصلہ کیا کہ وہ ترکی کو بھی عسکری طاقت بنائیں گے تاکہ مسلم دشمن طاقتوں کا مقابلہ کیا جا سکے اور انھیں مسلمانوں پہ ظلم وستم ڈھانے سے روکا جائے۔مغرب اور عالم اسلام کی جنگ ویسے بھی حال کا عجوبہ نہیں، یہ تو پچھلے آٹھ سو برس سے چلی آرہی ہے۔آغاز آٹھ ہجری(629ئ) میں ہوا جب نبی کریمﷺ کے ایلچی، حضرت حارث ؓبن عمر ازدی کو عیسائی بازنطینی بادشاہت کے عرب اتحادی، شرحبیل بن عمرو نے شہید کر دیا تھا۔

 مغرب کا محتاج عالم اسلام

مغربی دنیا کے انتہا پسند عیسائی حکمران طبقے طاقتور اور امیرکبیر یہود کے تعاون سے آج بھی عالم اسلام کے خلاف خفیہ و عیاں سازشیں کرتے ہیں۔مقصد یہ ہے کہ امت مسلمہ طاقت نہ حاصل کر سکے اور بدستور مغرب کی محتاج رہے۔مغربی حکمرانوں کی بھرپور کوشش ہے کہ مسلمان سائنس وٹیکنالوجی میں ترقی نہ کر پائیں۔

اسلامی ممالک انتشار وبدامنی کا شکار رہیں۔اس طرح وہ زمین کے تمام قدرتی و غیر قدرتی وسائل اپنے قبضے میں رکھ کر ارضی تاجدار رہنا اور اپنے مفادات پورے کرنا چاہتے ہیں۔

یاد رہے، دور حاضر کی بیشتر عالمی طاقتیں مثلاً برطانیہ،امریکا، جرمنی، روس اور جاپان نوآبادیاتی قوتیں رہی ہیں۔انھوں نے دیگر خصوصاً مسلم ممالک سے وسائل لوٹے اور خود کو امیر کبیر وترقی یافتہ بنا لیا۔

یہ بات امید افزا ہے کہ ترک حکمران ، رجب طیب اردوغان نے اپنے خواب کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بیس سالہ دور حکومت میں اسلامی مملکت، ترکی کو نمایاں عسکری طاقت بنا دیا۔وہ ماضی کی طرح عالم اسلام کو عسکری طور پہ طاقتور بنانا چاہتے ہیں۔

ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مغرب اب امت مسلمہ کو کمزور نہ سمجھے اور من مانیاں کرنے سے باز رہے۔عسکری طور پہ مضبوط ہونے کا نتیجہ ہے کہ رجب طیب گاہے بگاہے امریکا اور روس، دونوں کو تنقید کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔وہ مغرب وروس کی نئی جنگ میں فریق بننے کو تیار نہیں بلکہ ترکی کو غیرجانبدار رکھنا چاہتے ہیں حالانکہ یہ ملک مغربی عسکری اتحاد، نیٹو کا رکن ہے۔

فی الوقت عالم اسلام میں ترکیہ ہی عسکری سائنس وٹیکنالوجی کے شعبے میں سرفہرست ہے۔وہ ہر سال دفاع پہ ’’40 سے 45 ارب ڈالر ‘‘خرچ کرتا ہے۔ یہ عالم اسلام میں سب سے بڑا دفاعی بجٹ ہے۔خاص امر یہ کہ ترکی کے تیار کردہ ہتھیار کارکردگی میں امریکی و روسی اسلحے کے ہم پلّہ ہیں۔

یہ بات اہل ترکی کے لیے فخر وانبساط کا باعث ہے۔ترکوں کی اس شعبے میں شاندار کامیابیاں دیکھ کر دیگر اسلامی ممالک کو بھی تحریک ملی ہے کہ وہ عسکری سائنس وٹیکنالوجی میں کارہائے نمایاں دکھائیں۔واضح رہے، جدید ترین اسلحہ بنا کر ہی مغربی ملکوں کو موقع ملا کہ وہ اسلامی ممالک پہ قبضہ کر لیں۔

اب اگر اسلامی ملک بھی جدید اسلحہ بنا لیتے ہیں تو وہ مغربی ممالک کی اسٹیبلشمنٹوں کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔یہی نہیں ، ان کا دفاع بھی بڑا توانا و مضبوط ہو جائے گا۔تب مغرب کے لیے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ وہ ہر معاملے میں علم اسلام کو ’’ڈکٹیٹ‘‘کر سکے۔

 رجب طیب کا دیرینہ خواب

یہ مسّرت کی بات ہے کہ ترکی کا شمار اب دنیا کے ان گنے چْنے ملکوں میں ہوتا ہے جو جدید ترین ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ رجب طیب اور ان کے رفقا کی دینی حمیت، محنت اور جہد مسلسل ہے کہ ترکی آج ایک بڑی عسکری قوت بن گیا ۔یہ ان لیڈروں کا دیرینہ خواب تھا جس نے تعبیرکا جامہ پہن لیا۔

یہ بے مثال کارنامہ انجام دینے پر رجب طیب کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔انہی کی سعی و جدوجہد سے ترکی نے نہ صرف اقوام عالم میں نمایاں مقام پایا بلکہ اب عالمی معاملات میں امت مسلمہ کی بھی سنی جا رہی ہے ورنہ سابق نوآبادیاتی آقا کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔

کامیابیاں اور ناکامیاں

رجب طیب کی زیرقیادت ترکی نے معاشی ترقی کی ہے۔ 2001ء میں ترک باشندوں کی فی کس آمدن دو ہزار ڈالر تھی۔کامیاب حکومتی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے آج وہ گیارہ ہزار ڈالر سے زیادہ ہو چکی۔انھوں نے اسلامی روایات کو بھی فروغ دیا۔

کہتے ہیں’’ہر ترک کو یہ آزادی حاصل ہونی چاہیے کہ وہ اپنی مذہبی روایات پہ عمل کر سکے۔‘‘وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ریاست کو شہری کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔

مخالفین رجب صاحب کو آمر کہتے ہیں۔ان کا دعوی ہے کہ جو ترک رجب طیب کی مخالفت کرے، سرکاری مشینری اسے مختلف طریقوں سے تنگ کرتی ہے۔حتی کہ اسے جیل میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔جبکہ بعض اسلام پسند رہنما اُردغان کے رویئے کو

منافقت پر مبنی قرار دیتے ہیں۔وجہ یہ کہ وہ تقریروں میں اسرائیل پہ تنقید کرتے ہیںمگر انھوں نے اسرائیل سے معاشی وتجارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔

تاہم جب عرب ممالک نے بھی اسرائیل سے سفارتی وتجارتی تعلقات قائم کر لیے تو اس تنقید میں کمی آچکی۔رجب طیب کا فلسفہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ اگر اسرائیل و بھارت سے تجارتی تعلقات کے ذریعے ترکی کو فوائد حاصل ہو رہے ہیں تو انھیں قائم کرنے میں مضائقہ نہیں کہ اس میں ملک وقوم کی بہتری ہے۔

کوویڈ وبا پھیلنے اور روس یوکرین جنگ کے بعد ترکی سبھی ملکوں کی طرح مہنگائی کا شکار ہے۔ترک کرنسی، لیرے کی ڈالر کے مقابلے میں قدر بہت گر گئی۔اس امر نے مہنگائی میں اضافہ کر دیا۔

مذید براں آئے دن کے زلزلوں نے بھی ترک معیشت کو نقصان پہنچایا۔رجب طیب مختلف اقدامات اپنا کر مہنگائی کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ عوام کی زندگیوں میں آسانیاں لاسکیں۔مثلاً انھوں نے سرکاری ملازمین کی تنخوہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔نیز کم سے کم تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیا۔

سب سے بڑا کارنامہ

طویل اقتدار کے دوران رجب طیب کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے ترکی میں عسکری سائنس و ٹیکنالوجی کو زبرست فروغ دیا۔اس شعبے کو دی جانے والی سرکاری رقم میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔

اس طرح ترک سائنس دانوں اور انجیئنروں اور ہنرمندوں کو یہ سنہرا موقع ملا کہ وہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے تحقیق و تجربات کی مدد سے نت نئے ہتھیار تیار کر سکیں۔عسکری سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ کی وجہ سے ہی ترکی آج دنیا کی اہم اور عالم اسلام میں سب سے بڑی عسکری طاقت بن چکا۔

درج ذیل اعداد وشمار رجب طیب کے دور اقتدار میں عسکری سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ کی حوصلہ افزا اور تابناک داستان سناتے ہیں:

٭…2002ء میں شعبہ عسکری سائنس وٹیکنالوجی کو حکومت وقت نے 94ملین (چار کروڑ نوے لاکھ )ڈالر تفویض کیے تھے۔آج رجب طیب حکومت اس شعبے کو ہر سال پونے دو ارب ڈالر دے رہی ہے۔

٭…2002ء میں ترکیہ میں ’’65‘‘کمپنیاں اسلحہ سازی کر رہی تھیں۔ آج ان کی تعداد ’’دو ہزار‘‘سے زائد ہو چکی۔

٭…2002ء میں اسلحہ سازی کے منصوبوں کی مالیت ’’5.5 ‘‘ارب ڈالر تھی۔ آج ترکیہ میں ’’57‘‘ار ب ڈالر مالیت کے اسلحہ سازی منصوبوں پہ کام جاری ہے۔

٭…2002ء میں ترکیہ میں تیار ہونے والے اسلحے میں ’’80فیصد‘‘پرزہ جات بیرون ممالک سے آتے تھے۔ آج ان کی شرح صرف ’’20فیصد‘‘رہ گئی ہے۔ گویا ہتھیاروں کے 80 فیصد پرزہ جات اب ترکیہ میں تیار ہوتے ہیں۔

٭…2002ء میں ترکیہ842 ملین (چوبیس کروڑ اسی لاکھ )ڈالر کا اسلحہ برآمد کرتا تھا۔ آج وہ ’’پونے پانچ ارب ڈالر ‘‘کا ترک ساختہ اسلحہ بیرون ممالک فروخت کر رہا ہے۔خریداروں میں پاکستان بھی شامل ہے۔

٭…دنیا کی ایک سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں اب ترکیہ کی بھی دو کمپنیاں شامل ہیں۔ ایسیلسان (Aselsan) اس فہرست میں 65نمبر پہ فائز ہے۔ یہ ترکیہ کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی ہے۔ہر سال ڈھائی ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرتی ہے۔ ترکش ایروسپیس انڈسٹریز (Turkish Aerospace Industries) فہرست میں شامل دوسری ترک کمپنی ہے۔اس کا نمبر 84ہے۔

ترکیہ کے بنے اسلحہ بردار ڈرون ہتھیار نے دنیا بھر میں شہرت پائی۔ترکیہ دنیا کا پہلا ملک ہے جس کے بنے ڈرون کامیابی سے میدان جنگ میں استعمال ہوئے۔

ٹی ایف۔ایکس کان

آج ترکی میں جدید ترین طیارے، جنگی بحری جہاز، ہمہ اقسام کے میزائیل ، ٹینک، بکتر بند گاڑیاں، مختلف قسم کی توپیں غرض ہر نوع کا اسلحہ بن رہا ہے۔ترکیہ ایک اسٹیلتھ طیارہ ’’ٹی ایف۔ ایکس کان‘‘ (TAI TF Kaan)بنا رہا ہے جو پانچویں نسل (ففتھ جنریشن )میں شمار ہو گا۔صرف امریکا، روس اور چین ہی اسٹیلتھ طیارے بنانے کا اعزاز رکھتے ہیں۔عنقریب ترکی بھی اس چوٹی کی فہرست میں شامل ہونے کا اعزاز پا لے گا۔

ایف۔ایکس کان جڑواں انجن والا فضائی برتری(air superiority) کا حامل لڑاکا طیارہ ہے۔ ٹرکش ایرو اسپیس انڈسٹریز (TAI) اوربی اے ای ( BAE )سسٹمز کے اسلحہ ساز ترک ادارے مل کر اسے تیار کر رہے ہیں۔ترک حکومت اسے ایف۔سولہ طیاروں کی جگہ اپنی فضائیہ میں شامل کرنے کی خواہش مند ہے۔یہ طیارہ دیگر ممالک کو بھی ایکسپورٹ کیا جائے گا۔فی الوقت اس کی تجرباتی پروازیں شروع ہو چکیں۔

 ’’اندولو‘‘

اسی سال ماہ اپریل میں ترکیہ نے اپنا پہلا ائیر کرافٹ کیرئر بحری جہاز، ’’اندولو‘‘(Anadolu)سمندر میں اتارا ہے۔یہ72 ہزار ٹن وزنی جنگی بحری جہاز 167فٹ لمبا ہے۔اس کا اعزاز یہ ہے کہ یہ دنیا کا پہلا ڈرون بردار بحری جنگی جہاز ہے۔

اس پر تیس ڈرون کھڑے کیے جاسکتے ہیں۔ان کے علاوہ ہیلی کاپٹر اور چھوٹے لڑاکا ہوائی جہاز بھی لادنا ممکن ہیں۔اندولو کے باعث ترک فوج کو قوت ملی ہے نیز ترکیہ کا بحری دفاع مضبوط ہوا ہے۔

ترکی کی بحریہ نے دنیا بھر میں درمیانی طاقت کی بحری افواج کو دکھایا ہے کہ بحری فضائی طاقت اب کم قیمت پر دستیاب ہے۔

اگرچہ ’’اندولو‘‘ 2026ء سے اپنے کام کا آغاز کرے گا مگر اس نے وژن پیش کر دیا۔ دیگر علاقائی بحری افواج جیسے جاپان، برازیل، آسٹریلیا، بھارت، اور دیگر ممکنہ طور پر اس کی پیروی کریں گے۔ گویا 2030ء تک ہم ڈرامائی طور پہ زیادہ طیارہ بردار بحری جہاز دنیا میں دیکھ پائیں گے مگر ان طیاروں کو پائلٹ نہیں مصنوعی ذہانت اڑائے گی۔

التائے ٹینک

ترکی’’التائے‘‘(Altay) کے نام سے جدید ترین ٹینک تیار کر رہا ہے۔یہ مین بیٹل ٹینک ہو گا۔اس منصوبے کا آغاز دس سال قبل ہوا تھا۔ٹینک میں جرمنی کا انجن لگنا تھا۔مگر امریکا کے دباو پر جرمنی نے انجن دینے سے انکار کر دیا۔

چناں چہ یہ ٹینک بنانے والی ترک اسلحہ ساز کمپنی، بی ایم سی اب اپنا 1500ہارس پاور والا انجن تیار کر رہی ہے۔ انجن بننے کے بعد التائے ٹینک تیار کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔تب یہ دنیا کے جدید ترین اور خطرناک ٹینکوں میں سے ایک ہو گا۔

اس ٹینک کا گولہ آٹھ کلومیٹر دور تک جا سکتا ہے۔اسے مختلف ماحولیاتی حالات میں اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ لڑنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ٹینک کا ڈیزائن روایتی ہے جس میں ڈھانچے کے آگے ڈرائیور بیٹھتا ہے۔ درمیان میں ایک برج ہے اور عقب میں انجن۔ اسے چار افراد کا عملہ چلاتا ہے: ایک ٹینک کمانڈر، گنر، لوڈر اور ڈرائیور۔

التائے میں 120 ملی میٹر کی گن نصب ہے۔یہ لیزر گائیڈ بم پھینکنے پر بھی قادر ہے۔ٹینک میں40 گولے ذخیرہ ہو سکتے ہیں۔نشانے کو ٹارگٹ کرنے کی خاطر اس میں جدید ترین آلات نصب ہیں۔وہ نشانہ باندھنے میں توپچی کی مدد کرتے ہیں۔

اس میں دو مشین گنیں بھی نصب ہیں۔نیز ہینڈ گرنیڈ لانچر بھی لگا ہے۔یہ تینوں ہتھیار آٹومیٹک طریقے سے کام کرتے ہیں۔

یہ جدید ترک ٹینک میدان جنگ میں مختلف قسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کردہ جدید آرمر کی خصوصیات رکھتا ہے۔ حفاظتی وجوہات کی بنا پر بکتر کی ساخت کے بارے میں مخصوص تفصیلات عوامی طور پر دستیاب نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ ٹینک جامع اور رد عمل والے آرمر سسٹم کے امتزاج کا استعمال کرتا ہے۔

یہ آرمر ٹیکنالوجیز بہت سے خطرات کے خلاف بہتر تحفظ فراہم کرتی ہیں جیسے کہ ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل، راکٹ سے چلنے والے دستی بم، اور کائینیٹک انرجی پینیٹریٹرز۔

ٹینک کی بقا کو اضافی خصوصیات جیسے سپل لائنر سے مزید بہتر بنایا گیا ہے، جو ٹکر لگنے کی صورت میں جہاز کے عملے کو چوٹ لگنے کے خطرے سے محفوظ رکھتا ہے، اور ایک فعال حفاظتی نظام جو آنے والے خطرات کا پتہ لگا سکتا ہے اور اسے روک سکتا ہے۔

التائے میں بارودی سرنگوں سے اپ گریڈ شدہ تحفظ، لیزر کا پتا لگانے اور وارننگ سسٹم، میدان جنگ میں ہدف کی شناخت کے آلات اور جوہری اور کیمیائی خطرے کا پتا لگانے کے نظام بھی شامل ہیں۔یہ ٹینک 56 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتا ہے۔ پانی کے اندر چار میٹر کی گہرائی تک جانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

قزل الما

ترکی کے ماہرین پائلٹ کے بغیر اڑنے والا جنگی طیارہ ’’ قزل الما ‘‘(Kizilelma) بنانے کی خاطر بھی تحقیق وتجربات کر رہے ہیں۔ امریکا کے علاوہ ترکی واحد مملکت ہے جہاں بے پائلٹ جنگی طیارہ بنانے کے لیے جستجو جاری ہے۔اس کو بایکار کمپنی کے ہنرمند تیار کر رہے ہیں۔ماہرین نے اس کے دو تجرباتی نمونے (پروٹوٹائپ)بنا لیے ہیں۔ان کی آزمائشی پروازیں جاری ہیں۔

قزل الما تیاری کے بعد سپر سونک رفتار سے اڑ سکے گا۔ اس میں 1500 کلو وزنی بم، میزائیل اور راکٹ لد سکیں گے۔یہ بے پائلٹ جنگی طیار ہ پینتیس ہزار فٹ بلند ہونے کی صلاحیت رکھے گا۔ اس کی تیاری سے ترکیہ کی فضائی فوج کو طاقتور ہونے میں مدد ملے گی۔

پاک  ترک عسکری اشتراک

پاکستان اور ترکی کے مابین برادرانہ دینی، تاریخی ، ثقافتی و معاشی تعلقات موجود ہیں۔پاکستان میں بھی کئی اسلحہ ساز اداروں میں سائنس داں و ہنرمند جدید ترین ہتھیار بنانے کے لیے تحقیق و تجربات میں مصروف ہیں۔

پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ جدید اسلحہ بنانے کے سلسلے میں ترکی سے بھرپور مدد لے۔بلکہ ان کے ماہرین کو مشترکہ طور پہ تحقیق و تجربات کرنے چاہیں۔یوں ایک دوسرے کے تجربے سے استفادہ کرتے ہوئے زیادہ بہتر ہتھیار بن سکیں گے۔

ترکی کے بعد پاکستان ہی میں عسکری سائنس وٹیکنالوجی کو ترقی و توسیع دی جا رہی ہے۔ دونوں برادر اسلامی ممالک اسلحہ سازی میں ایک دوسرے سے اشتراک کر کے عمدہ ہتھیار تیار کر سکتے ہیں۔ان کے اتحاد وایکا سے نہ صرف دونوں ملکوں کا دفاع مضبوط تر ہو گا بلکہ مسلم دشمن طاقتوں سے مقابلہ کرتے ہوئے عالم اسلام کو بھی تقویت پہنچے گی۔

ترکی میں عسکری ترقی کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ مملکت کو اپنے ہتھیار بناتے ہوئے بیرونی طاقتوں کی طرف سے عائد کردہ رکاوٹوں اور پابندیوں کو عبور اور مقامی وسائل پر انحصار کرنا پڑا۔خاص طور پہ امریکا، جرمنی اور دیگر یورپی قوتوں نے ترکی کو عسکری ٹیکنالوجی دینے سے انکار کر دیا۔

بیرقدار ڈرون بنانے والی عسکری کمپنی کے روح رواں، سلجوق بیرقدار ترک صدر کے داماد بھی ہیں۔وہ ترکیہ کی عسکری ترقی و پھیلاؤ کو ’’آزادی کی جدوجہد‘‘سے تعبیر کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے ’’یہ ایک اچھی بات ہے کہ یورپی طاقتوں نے ہمیں عسکری ٹیکنالوجی دینے سے انکار کر دیا اور ہمیں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ ترکیہ کو بالکل ابتدا سے ہر چیز تیار کرنا پڑے گی۔‘‘

اسی لیے اہل ترکی کے لیے ان کے ملکی ساختہ ہتھیار اب قومی وقار، قومی خودمختاری اور خود اعتمادی کا نشان بن گئے ہیں۔

اس ضمن میں ترک صدر کہتے ہیں:’’ہمارے ملک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے انتہائی اہم موڑ پر تنہا چھوڑ دیا گیا۔ترکی کو جن چیزوں کی ضرورت تھی، اس تک رسائی دینے سے انکار کر دیا گیا۔ہم مجبور ہو گئے کہ اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کریں۔

ترکی میں شائع ہونے والے اخبار ’’یینی شفق‘‘ کے کالم نویس، حسن اوزترک لکھتے ہیں:’’اپنے اتحادیوں کی طرف سے دھمکیوں، معطلیوں اور پابندیوں کی وجہ سے ترکیہ اپنی دفاعی صنعت کو انقلابی رفتار سے ترقی دے رہا ہے۔

وہ اپنی دفاعی صنعت کو قومیا رہا ہے، جس سے اس کی فوج مضبوط ہو گی اور ایک مضبوط فوج سے ترکی ایسے اقدامات اٹھا سکے گا جن سے وہ مزید آزاد اور خودمختار ہو سکے۔ ترکیہ کے جدید ترین ہتھیار غیر مغربی تہذیب کے عروج کی نوید ہیں اور یہ ایسی قوم کی واپسی کا باعث بن رہے ہیں جو عالمی سیاسی گٹھ جوڑ ہلا کر رکھ دے گا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔