لیول پلیئنگ فیلڈ

جاوید قاضی  اتوار 24 دسمبر 2023
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

انتخابات کی شفافیت کے ابہام اور الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنا، ان دونوں باتوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

یہ بات سمجھ نہ آئی اور الیکشن کمشنر سے استعفیٰ کا مطالبہ اس وقت کرنا جب الیکشنز وقت ِ مقررہ پر ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہو اور وقت صرف سوا مہینہ بچا ہو۔ ان انتخابات کا ہونا اور ہونے کی تصدیق ہونا، سپریم کورٹ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے، وگرنہ لاہور ہائی کورٹ کے آرڈر اور بہت سے ایسے عدالتی فیصلے جو بظاہر تو عدالتوں کے فیصلے تھے مگر وہ ظاہر یہی کرتے تھے کہ انتخابات کا وقت مقررہ پر ہونا مشکل ہے۔

انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی اور سپریم کورٹ نے اس پٹیشن کا فیصلہ سناتے ہوئے آٹھ فروری کو انتخابات کی تاریخ مقرر کی۔ پی ٹی آئی نے ہی لاہور ہائی کورٹ میں استدعا پیش کی اور ریٹرننگ آفیسر کو متنازعہ قرار دیا، جب کہ جانا ان کو الیکشن کمیشن میں تھا اور اگر الیکشن کمیشن ان کی استدعا کو مسترد کردیتا تو الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کسی ہائی کورٹ میں نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں ہی چیلنج کیا جاسکتا تھا۔

ایک پریس ریلیز جاری ہوا تھا منجانب سپریم کورٹ بار صدرکے، جس میں چیف الیکشن کمشنر کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔ سپریم کورٹ بارکے صدر تو اس بات سے ہی منحرف ہوگئے کہ ایسا کوئی پریس ریلیز ان کی طرف سے جاری ہوا ہے اور وہ چونکہ عمرے کی ادائیگی میں مشغول تھے، لٰہذا اس بات کا جواب وہ پاکستان واپس آکر دیں گے۔

پاکستان سپریم کورٹ کی کابینہ اور پاکستان بارکونسل کے ممبر بھی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ چیف الیکشن کمشنر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جائے۔ انتخابات کا وقت پر ہونے کی تصدیق کے بعد اس مسئلے پر پاکستان بار کونسل کا کوئی موقف نہیں ہونا چاہیے اور ایسا مطالبہ تو قطعی نہیں کرنا چاہیے جو انتخابات کو غیر یقینی بنائے۔

2018 کے الیکشن کس طرح انجام پائے وہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ کیسے دھاندلی کے ذریعے حکمرانوں کو اقتدار کی کرسی تک لایا گیا۔ اس سے پہلے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا گیا، تاحیات نا اہل قرار دیا گیا۔ ایک منظم انداز میں الیکٹبلزکی پی ٹی آئی میں شمولیت کروائی گئی۔

الیکشن جیتنے اوراقتدار میں آنے کے بعد پہلے جہانگیر ترین پھر ان کا جہاز اور بلآخر نو مئی کا واقعہ ! اور اب کبھی آن لائن جلسہ تو کبھی آرٹیفشل انٹیلیجنس کا استعمال یعنی پروپیگنڈا کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ مطلب کس طرح جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنایا جاتا ہے یہ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

ان تمام سیاسی معاملات میں پہلے یہ تاثر دیا گیا کہ جی ڈی اے الیکشن سے کترا رہی ہے، پھر دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کردیا گیا۔ نگراں حکومت بنا دی گئی جو دو صوبوں میں ایک سال اور وفاق میں سات مہینے پورے کرنے جا رہی ہے۔

اسٹاک مارکیٹ کا ایک ہی دن میں دو ہزار پوائنٹس گر جانے والی بات کو ہمارے کچھ محترم صحافیوں نے اس بات کو ایسے جوڑا ہے کہ تاجر حضرات الیکشنزکا انعقاد نہیں بلکہ الیکشنز کا التواء چاہتے ہیں تاکہ نگراں حکومت پہلے ملکی معیشت کو مضبوط کرے۔

یہ کون لوگ ہیں جو کسی نہ کسی بہانے سے انتخابات کو ملتوی کروانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اسٹاک ایکسچینج اتنی تیزی سے کبھی اوپر نہیں گئی تھی جتنی کہ اب تو پھر ٹیکنیکل کریکشن بھی لازمی ہے۔

لگ بھگ دوکروڑ چالیس لاکھ نئے ووٹرزکا اندراج ہوا ہے، یہ سب نوجوان ووٹرز ہیں۔ ایسے کئی محرکات ہیں جن سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتخابات کے نتائج بہت مختلف ہوںگے ان اندازوں اور پیش گوئیوں سے جو اس وقت کی جارہی ہیں۔ 1971 کے انتخابات میں ہماری اسٹبلشمنٹ کو یہ اندازہ بھی نہیں تھا کہ شیخ مجیب مشرقی پاکستان سے جیت جائیں گے اور جب وہ جیت گئے تو ان کو اقتدار منتقل نہیں کیا گیا، جس کے نتائج کیا نکلے وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔

اب پی ٹی آئی کے لیے اس بات کا اندازہ لگانا کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کوئی بہت بڑا سرپرائز دے گی، میں اس بات سے متفق نہیں۔ ٹرمپ صاحب بھی ایسے ہی لیڈر تھے جس کو امریکا کی ریاست کولوراڈوکی سپریم کورٹ نے چھ جنوری 2021 کے واقعے میں ملوث ہونے کی بناء پر 2024 کے انتخابات کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ خان صاحب کے حالات ان سے بھی بدتر ہیں وہ نہ صرف نو مئی کے واقعات میں ملوث تھے بلکہ ان پر اور بھی کئی کیسز ہیں جو اس وقت ان کی نااہلی کا سبب بن سکتے ہیں۔

اب پی ٹی آئی کی اکثریت سندھ، بلوچستان یا ساؤتھ پنجاب میں نہیں رہی۔ اس کا وجود جتنا ہے وہ ہے سینٹرل پنجاب اور کے پی کے کے شہروں میں، لٰہذا ان انتخابات میں خاں صاحب کوئی معرکہ مارتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ہاں! مگر وہ پی ایم ایل نون کے لیے پنجاب میں اور مولانا فضل الرحمٰن کے لیے کے پی کے میں مشکلات پیدا کرسکتے ہیں۔

ایسا نظر آرہا ہے کہ نہ ہی پیپلز پارٹی اور نہ ہی نون لیگ ان انتخابات کے وقت پر ہونے میں خوش ہیں اور پیپلز پارٹی ان انتخابات میں باقی صوبوں سے مایوس کن حد تک صرف سندھ کی پارٹی بن کر ابھرے گی۔ صرف بیانیہ کی بنیاد پر وہ یہ نعرہ لگا سکتے ہیں کہ ’’آیندہ حکومت ان کی ہوگی اور بلاول بھٹو اگلے وزیرِاعظم ہوںگے‘‘ مگر حقیقتا ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔

ہمارا خود سے یہ سوال ہے کہ شفاف انتخابات سے ہماری کیا مراد ہے؟ وہ یہ کہ دانستہ طور پر یہ ریاست انتخابات میں انجینیئرنگ نہ کرے جیسا کہ2018 کے انتخابات میں کیا گیا۔ یہ بات بھی ہمیں پتا ہے کہ 2013 کے انتخابات کو خان صاحب نے دھاندلی زدہ قرار دیا اور وہ دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔

کیا کچھ نہ کیا گیا اس ملک میں کہ کسی طرح جمہوریت کا خاتمہ کیا جا سکے۔ ابھی تک یہ ملک الیکشن ہونے جا رہے ہیں یا نہیں کے معمے سے نہیں نکل سکا۔ کچھ بنیادی اور فطری دھاندلیاں بھی ہیں جن کو صرف ارتقاء کا عمل ہی روک سکتا ہے۔

ٹرمپ صاحب نے بھی شفاف الیکشنز کو چیلنج کیا اور اسی تناظر میں 06-01-2021کو لوگوں کے ایک ہجوم (Mob)کو جمع کر لیا اور اسی مقدمے میں آج امریکن ریاست کلو راڈو نے 2024 کے انتخابات کے لیے ٹرمپ صاحب کو نا اہل قرار دے دیا۔

امریکا کا نظام چونکہ مضبوط ہے لہٰذا ٹرمپ صاحب ان کے مضبوط نظام کے لیے خطرہ نہیں بنے اور ہمارا نظام کیونکہ کمزور ہے، اس لیے ہمارے لیے دو معقول افراد ابھر کر سامنے آئے، جو بہ ظاہر نظر آتے ہیں اور ان کے پیچھے شاید کئی محبِ وطن لوگ ہوں جو اس سسٹم کو سنبھال لیں گے۔

ہمارے شرفاء طبقے میں ایک ایسا طبقہ ہے جن کے مفادات اس ملک کے آئین سے ٹکراؤ میں ہیں۔ بہ حیثیت ایک آزاد اور ایٹمی ریاست ہمارے اوپر بہت سی ذمے داریاں عائد ہو تی ہیں اور ان ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے ہمیں ایک ذمے دار ریاست بن کر ابھرنا ہوگا۔

انتخابات میں دھاندلی سندھ کا وڈیرہ بھی کرتا ہے، اس کو کوئی نہیں روک سکتا اور بیانیہ دے کر دھاندلی خان صاحب بھی کرتے ہیں ان کو بھی کوئی نہیں روک سکتا۔ دراصل دھاندلی ایک مبہم اصطلاح ہے۔ یہ ہمارے انتخابات کا عمل ہے جس کو صرف ارتقاء کا عمل ہی روک سکتا ہے۔

خان صاحب نے آنے والے انتخابات کو بھی شفاف نہیں کہنا، اگر دو حلقوں کے اندر الیکشن کمیشن درست حد بندی نہیں کر پایا تو کیا الیکشن کمیشن کے تمام پراسزکو تقرری قرار دیا جائے، یہ بات نہ ہی موزوں ہے اور نہ واجبی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔