کیا 2024ء پاکستان کے لئے معاشی انقلاب کا سال ثابت ہو سکتا ہے؟

روزنامہ ایکسپریس  جمعـء 5 جنوری 2024

پاکستان کے معاشی مستقبل پر عالمی بینک جنوبی ایشیا کے نائب صدر مارٹن ریزر اور کنٹری ڈائریکٹر ناجی بن حسین کی تحریر

ایک طویل عرصے تک شرح غربت میں مسلسل کمی کے شاندار رجحان کے بعد آج پاکستانی معیشت ایک بدترین بحران سے دوچار نظر آتی ہے۔

ایک طرف ناقص پالیسی فیصلے اور دوسری جانب یکے بعد دیگرے بحرانوں کا شکار معیشت، پہلے کووڈ 19، پھر 2022ء  کا تباہ کن سیلاب اور نامساعد عالمی حالات، ان سب نے مل کر معیشت کو مندے کا شکار بنا دیا، معاشی نمو کی رفتار سست ہو گئی، غربت میں اضافہ ہوا اور ملک  دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔

انسانی ترقی کی صورتحال کہیں زیادہ غریب ممالک کے مانند ہو کر رہ گئی ہے، جبکہ پیداواری صلاحیت کی کمی اور بارآوری کی بلند شرح کے پیش نظر فی کس آمدنی کی نمو مسلسل روبہ زوال ہے۔

عالمی بینک نے حال ہی میں جاری کئے گئے پالیسی نوٹس کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے کہ اب کیا کیا جائے۔  ہماری یہ تجاویز ہرگز نئی نہیں۔ ہم اور بعض دیگر ادارے اس طرح کے مشورے پہلے بھی دے چکے ہیں۔ اس بار نئی بات یہ ہے محض وقتی طور پر کام چلانے والی سوچ سے بات نہیں بنے گی۔

ہمارے سامنے کئی ملکوں کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اس طرح کے بحرانوں میں بازی پلٹ دی اور سرخرو ہو کر نکلے۔ پاکستان کے لئے بھی غالباً یہ ویسا ہی ایک موقع ہے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے ان بنیادی مسائل کو دور کر سکتا ہے۔

پہلا، پاکستان کو انسانی سرمایہ کے بحران کو دور کرنا ہو گا۔ سات فیصد بچے عمر کے پانچویں سال میں قدم رکھنے سے پہلے لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور یہ تناسب پاکستان جیسے دیگر ملکوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے چالیس فیصد بچے نشوونما کی کمی کا شکار ہیں اور غریب اضلاع میں یہ تناسب پچاس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

محض غذائیت اور صحت پر کام کرنے کی روایتی سوچ سے ہٹ کر صاف پانی، صفائی ستھرائی یا سینی ٹیشن سہولیات تک رسائی دینا ہو گی، پیدائش میں وقفے کی خدمات فراہم کرنا ہوں گی۔ اس کیلئے کئی مختلف شعبوں کو مل کر کام کرنا ہو گا، ہر سال جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر سرمایہ اس پر لگانا ہو گا۔

کمزور تعلیمی نظام نشوونما کی اس کمی کے اثرات کو دوچند کر دیتا ہے۔ پاکستان میں دس سال عمر کے 78 فیصد بچے اس قابل نہیں کہ اپنی عمر کی مناسبت سے موزوں تحریر پڑھ سکیں، جبکہ دو کروڑ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے۔

دوسرا، پاکستان کو خدمات کی فراہمی اور انسانی وسائل کی ترقی پر زیادہ سرمایہ لگانے کے لئے مالی گنجائش پیدا کرنا ہو گی۔ ٹیکس وصولی کا تناسب مدتوں سے جی ڈی پی کے 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ صرف معیشت پر گراں گزرنے والی انواع واقسام کی چھوٹ ختم کر دی جائے اور ٹیکس قواعد کی پاسداری کے اخراجات کم کر دئیے جائیں تو فوری اثرات سامنے آئیں گے اور جی ڈی پی کے تقریباً 3 فیصد کے برابر اضافی ریونیو حاصل ہو سکے گا۔

اس کے علاوہ صوبائی اور مقامی سطح پر کئی شعبے مثلاً رئیل اسٹیٹ، زراعت اور ریٹیل ، ایسے ہیں جو کم ٹیکس دیتے ہیں اور یہ جی ڈی پی میں مزید تین فیصد اضافے کی نوید ثابت ہو سکتے ہیں۔ زیادہ خسارے میں چلنے والے سرکاری شعبے کے کاروباری اداروں کی نجکاری کر دی جائے۔ زراعت اور توانائی کے شعبوں میں جو “تیرِ بے ہدف” سب سڈیز دی جا رہی ہیں ان پر کٹوتیاں لگنی چاہئیں ۔ وفاقی اور صوبائی سطح کے دہرے مصارف کو بھی کم کرنا ہو گا۔

وقت کے ساتھ دلیرانہ مالی اصلاحات کے  ذریعے مزید مالی گنجائش پیدا کی جائے تو جی ڈی پی میں مزید 12 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن پاکستان میں جب تک اقتصادی نمو کا عمل مستحکم نہیں ہو گا، سرکاری شعبے کے مالی امور کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا ممکن نہ ہو گا۔

تیسرا، پاکستان کو اپنی معیشت کو زیادہ فعال بنانے کے لئے کام کرنا ہو گا۔ موجودہ پالیسیاں منڈی میں بگاڑ کا باعث بن رہی ہیں جو محض چند لوگوں کے لئے سودمند ہیں۔ کرنسی کی متواتر بیش قدری اور ٹیرف کی بلند شرح کے باعث کاروباری ادارے اپنی توجہ مقامی منڈیوں پر مرکوز کر رہے ہیں، اور برآمدی شعبے کے لئے مراعات ناپید ہو رہی ہیں۔

مشکل کاروباری ماحول سرمایہ کاری کوروکتا ہے۔ ٹیکس نظام کا بگاڑ بھی پیداواری سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور رئیل اسٹیٹ جیسے شعبے اسکی حمایت کرتے ہیں۔

پیداواری اثاثوں کی فروخت میں تیزی یا غیرملکی سرمایہ کاری معاہدوں سے وقتی طور پر شاید زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ جائیں (جس کی اشد ضرورت بھی ہے) لیکن دیرپا اثرات اور تبدیلی کے لئے ضروری ہو گا کہ اصل مسائل کو فی الفور دور کیا جائے جو سرمایہ کاری کی کمی اور ثمرآور معاشی نمو کے زوال کا بنیادی سبب ہیں، یعنی برابر مواقع دئیے جائیں، مسابقتی رجحان بڑھایا جائے، دفتری کاروائی کی رسمی پابندی کو ختم کیا جائے اور پالیسی کو زیادہ قابل اعتبار بنایا جائے۔

چوتھا، موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی بڑھتی قلت کے پیش نظر غذائی تحفظ یقینی بنانے کے لئے زرعی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں۔ موجودہ سب سڈیز، حکومت کی طرف سے خریداری اور قیمتوں پر پابندیوں نے کسانوں کو کم فائدہ دینے والے اور ایک دائرے میں محدود رہنے والے کاشت کاری نظام اور پانی کا بہت زیادہ استعمال کرنے والی فصلوں کا اسیر بنا دیا ہے۔

ان سب سڈیز کو عوامی فلاحی اشیاء  و خدمات مثلاً بیجوں پر تحقیق،مویشیوںکیمعالجے، نکاسی و آبپاشی کی سہولیات، “ری جنریٹو ایگریکلچر” کے فروغ اور شروع سے آخر تک آپس میں جْڑی زرعی ویلیو چین کی تعمیر کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔

پانچواں، شعبہ توانائی کی ناقص کارکردگی کا فوری اور موافق ازالہ ضروری ہے۔ ٹیرف میں حالیہ اضافوں سے ایک طرف نقصانات کو محدود کرنے اور دوسری جانب غریب صارفین کو تحفظ دینے میں مدد ملی ہے لیکن اس شعبے کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے تقسیم اور ترسیل کے نظام میں ہونے والے بڑے نقصانات کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار کے بھاری اخراجات میں بھی کمی لانا ہو گی۔

خوش قسمتی سے پن بجلی اور شمسی توانائی کے بعض سستے ترین وسائل پاکستان کو میسر ہیں۔ اخراجات پورے کرنے کے لئے ٹیرف میں کمی بیشی کو سیاسی تحفظ دینا ضروری ہو گا تاکہ سرمایہ کاروں کو دوررس بنیاد پر معتبر مراعات فراہم کی جا سکیں۔

پالیسی میں ان تمام تبدیلیوں کو محض وفاقی سطح پر عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں۔ مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا ہو گا اور ان کے اندر صلاحیت پیدا کرنا ہو گی کہ وہ مقامی خدمات پر سرمایہ کاری کے لئے فنڈز جمع کر سکیں اور انہیں مناسب طریقے سے مختص کر سکیں۔ عدم مرکزیت کے ایجنڈا کا احیاء  ضروری ہے۔

مزید برآں، معیشت زیادہ فعال ہو گی تو بیشتر پاکستانیوں کے لئے مواقع میسر ہوں گے لیکن اصل مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی محروم نہ رہے اس لئے سماجی تحفظ کے نظاموں کو وسعت دینا ہو گی اور وفاقی اور صوبائی سطح کی تمام سرگرمیوں کے تحت ہدف کو بہتر بنانا ہو گا اور ان میں اتصال پیدا کرنا ہو گا۔

آئندہ سالوں کے دوران بنیادی نوعیت کی ان اصلاحات کو عملی جامہ پہنا کر پاکستان 2047ء  میں اپنے قیام کے سو سال پورے ہونے پر بالائی متوسط آمدنی والے ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے۔

ہمیں اس بات پر ہرگز شبہ نہیں کہ اس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان کے پاس نہ صرف انسانی استعداد بلکہ عملدرآمد کی ثابت شدہ قابلیت بھی موجود ہے۔یہ ملک اس معاشی بحران کی بدولت پیدا ہونے والے موقع سے فائدہ اٹھانے اور اسے اپنی تاریخ کے فیصلہ کن موڑ کا روپ دینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔ 2024ء  واقعی “پاکستان کا سال” ثابت ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔