دماغی امراض اور ذہنی سکون

زمرد نقوی  پير 8 جنوری 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

ایک نئی ریسرچ کے مطابق دماغ کی کوئی بھی بیماری لاعلاج نہیں ۔ یہ دعویٰ ڈینئل ایمن کرتے ہیں جو ڈاکٹر سائنسدان سائی کیٹرسٹ ہیں۔

انھوں نے دماغ پر جو کتابیں لکھیں ان کا شمار نیویارک ٹائمز کے مطابق بیسٹ سیلرمیں ہوتا ہے۔ یہ 5کتابیں ہیںجو بتاتی ہیں کہ دماغ کس طرح کام کرتا ہے انھوں نے دماغ کے فنکشن پر 22 سال کام کیا جس میں 93ملکوں کے افراد شامل ہیں ۔

اس طرح سے 83000لوگوں کے دماغوں کو اسکین کیا اور دیکھا کہ ان کا دماغ کس طرح کام کر رہا ہے اور کیا کیا بیماریاں اسے لاحق ہیں۔ انھوں نے برین کے موضوع پر 30کتابیں لکھیں جن میں سے ایک شہرہ آفاق کتاب Change of Brain Change your Lifeہے ۔

اس کے مطابق آپ کسی عمر میں بھی اپنے دماغ میں تبدیلی لا سکتے ہیں ۔ بیماری کی وجہ سے متاثرہ دماغ کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے ۔دماغ کی بیماریوں پر نہ صرف قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ ان کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ Change of Brainکے نام سے امریکا میں ان کے گیارہ کلینک ہیں۔

ان کی ریسرچ کے مطابق دماغ کی 16قسمیں ہیں اس کتاب میں دماغی افعال کو ترقی اور بہتر بنانے کے طریقے بتائے گئے ہیں جس میں مخصوص غذائیں اور فش آئل وغیرہ شامل ہیں لیکن یہ ہر ایک کے لیے نہیں ہیں، نہ صرف وہ ڈاکٹر سائنسدان ہیں بلکہ سائی کیٹرسٹ بھی ہیں وہ بتاتے ہیں کہ انسانی رویوں کا تعلق دماغ سے ہے۔

جب تک دماغ بیمار ہے اور باڈی فٹ نہیں ہے آپ اپنے دماغی افعال کو کنٹرول اور اس کو ترقی نہیں دے سکتے۔ اس کتاب کی ہدایات کے مطابق عمل کرنے کے نتیجے میں نہ صرف دماغی افعال رویوں میں بہتری آتی ہے بلکہ آپ سپر ہیومن بھی بن سکتے ہیں ۔

تازہ ترین سروے کے مطابق پاکستان میں دماغی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد دو کروڑ ہے اور اس میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے پاکستان جن معاشی سیاسی ، سماجی خرابیوںمیں مبتلا ہے اب تو شاید بہت کم ہی لوگ رہ گئے ہیں جو ان خرابیوں کے اثرات سے بچے ہوں ۔

یہ خرابیاں گزشتہ 76برسوں سے چلی آرہی ہیں ہر گزرتے سال ان کی شدت میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔کمی کسی صورت نہیں آئی۔ ایک ایسا ملک جو چالیس برسوں سے براہ راست دہشت گردی کا شکار ہو اور اس میں اس کے نوے ہزار افراد قتل ہو گئے ہوں، جا بجا خودکش دھماکے ہورہے ہوں ملک کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہ ہو وہ کیسے ذہنی امراض کا شکار نہیں ہوگا۔

خاندان کا سربراہ یا خاندان کے افراد مارے جائیں تو لواحقین کا کیا حشر ہوتا ہے ان کے دل سے پوچھیں۔ اچانک سے معاشی وسماجی عدم تحفظ انھیں گھیر لیتے ہیں۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں پرجو بیتی ہے اس کا تصور ہی اذیت ناک ہے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ان کو تسلی دینے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔

وہ ہیں اور ایک اذیت ناک تنہائی ۔اس طرح سے ذہنی اور نفسیاتی امراض صرف ان تک ہی محدود نہیں رہتے بلکہ اگلی نسل کو منتقل ہوجاتے ہیں۔غم، رنج، دکھ ، صدمہ ، مایوسی ان کی شخصیت کا مستقل حصہ بن جاتی ہے۔ اس طرح سے وہ اپنے منفی دماغی نفسیاتی رویوں سے نہ صر ف اپنی فیملی ، رشتہ داروں بلکہ معاشرے کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔

حکمران طبقات ، اشرافیہ اور اپر کلاس کو چھوڑ کر پاکستان کے 24کروڑ عوام پچھلے کچھ برسوں سے شدید قسم کے ذہنی ، نفسیاتی امراض کاشکار ہو گئے ہیں۔ ہر روز بڑھتی ہوئی مہنگائی جو پاکستان کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، نے لوگوں کا ذہنی سکون غارت کردیا ہے۔ خاص طور پر تنخواہ دار اور چھوٹے کاروباری لوگوں کو خوفناک مہنگائی نے پیس کر رکھ دیا ہے ۔

اگر وہ گھر کا کرایہ ، بجلی ، گیس کے بلز جو ہر ہفتے کے حساب سے بڑھ رہے ہیں ادا کرتے ہیں تو دو وقت کی روٹی کے پیسے ان کے لیے نہیں بچتے ۔ اس کے بعد بچوں کو پڑھائیں گے کہاں سے۔ ان کی فیسیں کہاں سے ادا کریں گے ۔

پاکستانی عوام پر ظلم کی انتہاء ہے کہ ایک مدت سے وہ اندرونی اور بیرونی قوتوں کے بیک وقت ظلم اور استحصال کا شکار ہیں اور ہر گزرتا دن ان کے عدم تحفظ بے یقینی اور مایوسی میں اضافہ کر رہا ہے ۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ ان بدترین حالات کے ہوتے ہوئے عوام ذہنی طور پر کیسے صحتمند رہ سکتے ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔