مقامی حکومت اور سیاسی ترجیحات

سلمان عابد  جمعـء 9 فروری 2024
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

جمہوریت کے موثر ، شفاف اور لوگوں کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے میں ’’خود مختار مقامی حکومتیں ‘‘ جمہوری نظام میں ایک بڑی کنجی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جمہوری نظام کی ساکھ کو سمجھنے کے لیے ہمیں بنیادی طور پر مقامی حکومتوں کی مضبوطی سے جڑے نظام کو سمجھنا ہوگا کہ ہم اس نظام میں کہاں کھڑے ہیں۔

یہ جو اس ملک کی سیاست میں اوپر سے لے کر نیچے تک حکمرانی کا بحران ہے اس کی بڑی وجہ بھی مقامی سطح پر مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی ہے۔

بدقسمتی سے ہماری سیاسی یا ریاستی ترجیحات میں ’’ حکمرانی کے بحران ‘‘ سے نمٹنے کے لیے جس طرح کی سنجیدگی اور غیر معمولی اقدامات درکار ہیں ا س کی نفی نظر آتی ہے ۔ اسی طرح سے دنیامیں حکمرانی کے بحران سے نمٹنے کی جو بھی سنجیدہ کوششیں ہوئیں ان میں مقامی حکومتوں کو بنیادی فوقیت حاصل ہوئی مگرہم ان تجربات یا ان نظاموں سے بھی کوئی فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ہماری سیاسی جماعتیں جمہوریت، آئین و قانون کی بالادستی ، منصفانہ سیاسی و حکمرانی کا نظام ، شفافیت، جوابدہی، عام آدمی کے حقوق کی باتوں پر بہت زیادہ توجہ دینے کی باتیں کرتی ہیں ۔

ہر سیاسی جماعت خود کو جمہوریت کی سب سے بڑی چیمپئین کے طور پر پیش کرتی ہے ۔لیکن سچ یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں بنیادی جمہوریت کے معاملات میں نہ صرف بہت پیچھے ہیں بلکہ مقامی حکومتوں کا نظام ان کی سیاسی ترجیحات میںکوئی بڑی بالادستی نہیں رکھتا۔

حال ہی میں2024 کے عام انتخابات کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کی مقامی حکومتوں کے نظام کے بارے میں سیاسی ترجیحات کو دیکھنے کا موقع ان کے جاری کردہ سیاسی منشور کی بنیاد پر ملا۔مسلم لیگ ن کے بقول مقامی حکومتوں کی تحلیل کے بعد وہ 90 دن میں انتخابات کے عمل کو یقینی بنائے گی ، خصوصی لوکل گورنمنٹ سروس کیڈر بنایا جائے گا ، مقامی حکومتوں کو محصولات کاکم از کم 30 فیصد حصہ دیا جائے گا، میونسپل بانڈزاور لینڈ ویلیوکیپر کا نظام وضع کیا جائے گا ۔

اسی طرح اگر ہم پیپلزپارٹی کی طرف دیکھیں تو ان کے مطابق آرٹیکل 140-Aپر نظرثانی کرنا شامل ہے ۔ جب کہ پاکستان تحریک انصاف کے مطابق مقامی حکومتوں کا مقامی سطح کے تنازعات کے لیے استعمال اور گریڈ 16 تک بھرتی اور ترقی کا اختیار مقامی حکومتوں کے پاس ہوگا۔ جماعت اسلامی نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں خود مختارادارے کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے آئین میں ایک نیا باب اور شیڈول جاری کیا جائے گا ۔

صوبائی مالیاتی کمیشن کے ذریعے مقامی حکومتوں کو مالی اختیارات کی منتقلی ، انتظامی خود مختاری ، ترقیاتی فنڈز کی براہ راست منتقلی ، مقامی حکومتوں کے نظام کی معطلی اور بالائی حکومتوں کی مداخلت کا خاتمہ، موثر مصالحتی عدالتوں کا قیام شامل ہے ۔ اسی طرح سے ایم کیو ایم نے بھی آئین میں ترمیم کی مدد سے ایک مکمل آئینی پیکیج اور مقامی حکومتوں کی آئینی خود مختاری پر زور دیا ہے ۔

سیاسی جماعتوں کی سیاست یا ان کے منشور کو دیکھیں تو چند بنیادی مغالطے ہمیں نظر آتے ہیں ۔اول، سیاسی جماعتوں کی سطح پر بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کے درمیان فرق میں ہی تضاد نظر آتا ہے۔ ہمارے آئین میں بلدیاتی اداروں کے مقابلے میں اب مقامی حکومتوں کی بات کی جاتی ہے اور اس حکومت کو وفاق، صوبائی کے بعد ضلعی سطح پر تیسری حکومت کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن یہاں سیاسی جماعتیں صرف ہمیں بلدیاتی اداروں تک ہی بات کرتی نظر آتی ہیں ۔

دوئم ،اگر اب ہم نے واقعی مقامی حکومتوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو یہ بات محض صوبائی سبجیکٹ تک محدود نہیں ہونی چاہیے ۔کیونکہ اب ہمیں مقامی حکومتوں کی خود مختاری کے لیے آئین میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں درکار ہیں اور ایک آئینی پیکیج درکار ہے جو پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط ہے ۔اس پر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے بات کی ہے جب کہ پیپلز پارٹی نے بھی اس پر نظرثانی کی بات کی ہے۔

سوئم، ہمیں مقامی حکومت کی سیاسی ، مالی خودمختاری ، ان کی مدت کا تعین، صوبائی حکومتوں کی مداخلت، انتخابات کے تسلسل کے لیے آئین کی شق 140-Aمیں 140بی اور سی کا بھی اضافہ کرنا ہوگا ۔ اس کے لیے ہمیں بھارت میں کی گئی آئینی ترامیم کو دیکھنا ہوگا جنھوں نے اپنے ہی آئین میں ایک مکمل باب مقامی حکومتوں کی خودمختاری اور کردار پر ڈالا ہے ۔

چہارم، صوبائی حکومتوں کو پابند کرنا، ان کی نگرانی کرنا کہ وہ چاروں صوبوں میں مقامی حکمرانی کے بنیادی اصولوں کو وضع کریں گے جو چاروں صوبوں میں یکساں بھی ہوں اور آئین کی شق 140-A اور 32کے تقاضوں کو بھی پورا کرسکے۔مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کی مقامی حکومتوں سے جڑے نظام کی نگرانی کا عمل بھی شامل ہو اور صوبائی  حکومتیں جوابدہ ہوں ۔پنجم، سیاسی جماعتوں کو عملی بنیادوں پر پابند ہونا ہوگا کہ وہ مقامی نظام حکومت کی خود مختاری اور مضبوطی کے لیے مرکزیت پر مبنی نظام کو ختم کرکے عدم مرکزیت یعنی اختیارات کی نچلی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالی خود مختاری کو یقینی بنائیں ۔

ششم، کوئی بھی صوبائی حکومت کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ہی صوبہ میں مقامی حکومتوں کے نظام کی موجودگی میں کسی بھی طرح کا متبادل نظام ، کمپنیاں یا اتھارٹیاں قائم نہ کرے اور ایسا کرنا مقامی نظام حکومت کی نفی ہوگا۔ ہفتم، ہمیں مقامی سطح پر محروم طبقات جن میں عورتیں، اقلیتیں ، خواجہ سرا، مزدور ، کسان اور نوجوان شامل ہیں ان کو اس نظام کا باقاعدہ حصہ بنانا ہوگا اور مقامی سطح پر سالانہ ترقیاتی منصوبوں میں ان کی فیصلہ سازی میں شمولیت کو یقینی بنانا شامل ہے ۔

ہشتم، جب تک وفاقی اور صوبائی سطح پر ارکان اسمبلی کے لیے دیے جانے والے ترقیاتی فنڈز کا خاتمہ نہیں ہوگا اور جب تک ہم ترقیاتی فنڈز کو مقامی حکومتوں کے نظام تک محدود نہیں کریں گے صوبائی اور مقامی حکومتوں سمیت قومی اسمبلی کے درمیان جاری کشمکش یا ٹکراؤ کا عمل ختم نہیں ہوگا۔

اسی طرح جب تک قومی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے نظام کی مدت ایک جیسی نہیں ہوگی اور ان کے انتخابات ایک ساتھ یا صوبائی اسمبلی کے آنے کے بعد120دن میں نہیں ہونگے نئی صوبائی سطح پر بننے والی حکومتیں پہلے سے موجود مقامی حکومتوں کو برداشت نہیں کریں گی اور ان کی برطرفی کو یقینی بنا کر نظام کو غیر مستحکم کرنے کے کھیل میں حصہ دار بنی رہیں گی ۔

نہم، جب تک ہم مقامی حکومتوں کے نظام کو تسلسل نہیں دیں گے اور ہر چند برس بعد پہلے سے موجود نظام کا خاتمہ اور نئے نظام کی آمد کا یہ کھیل کبھی مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام کو یقینی نہیں بنا سکے گا ۔ دہم، ہمیں مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی کے لیے ان کے انتخابات کو جماعتی بنانے اور ضلعی سطح پر انتظامیہ کے تناظر میں علیحدہ سے سروس کیڈر بنانا ، کم سے کم انتظامی اور سیاسی ڈھانچے، اور بڑے شہر کے لیے متبادل نظام درکار ہے ۔

اس لیے سیاسی جماعتوں کی سطح پر محض چند لائینوں پر مشتمل نکات جو سیاسی منشور میں دیے جاتے ہیں کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے سیاسی سطح پر سیاسی جماعتوں میں باقاعدہ ہوم ورک درکار ہے اور ایک متبادل پالیسی اور پالیسی فریم ورک درکار ہے ۔

سیاسی جماعتوں کو مقامی حکومتوں کے نظام کی بحث کو خود بھی سمجھنا ہے اور اپنی جماعت میں اس پر نئی بحثوں کو جنم بھی دینا ہے ۔کیونکہ پاکستان کا بنیادی بحران گورننس کا ہے اور لوگ اس نظام سے نالاں ہیں ۔ اس لیے اس نظام کے مقابلے میں حکمرانی کا بہترمتبادل اور شفاف نظام کی کنجی خود مختارمقامی حکومتوں کے نظام سے ہی جڑی ہوئی ہے ، یہ ہی ہماری ترجیح ہونی چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔