ماں بولی کا عالمی دن اور بنیادی حقوق

وارث رضا  اتوار 25 فروری 2024
Warza10@hotmail.com

[email protected]

تاریخ کے پنے معروض کے وقت کو حقائق کی نظر سے دیکھنے کے بعد واقعے کو نہایت ایمانداری سے جوں کا توں اس وقت کی اور آنے والی نسل کے حوالے کر دیتے ہیں تاکہ عوام واقعے کی تحقیق کے بعد غور فکر کے ذریعے وقت کے سچ کی روشنی میں ظالم اور مظلوم کا فیصلہ کر سکیں۔

تاریخ کے اوراق میں آج ’’ماں بولی‘‘ کے یوم کی گونج میں ایک ایسے واقعے کی طرف قارئین کی توجہ چاہتا ہوں،جو واقعہ ’’ماں بولی دن‘‘ کی بنیاد قرار پایا،یہ واقعہ 1952 کے پاکستان کا ہے جب سویلین بالادستی کے دوراہے پر نو آزاد ملک کے سیاست دان ملک کی سیاسی بالادستی قائم کرنے میں جتے ہوئے تھے،وہ 21فروری 52 کا وہ بدنصیب دن تھا جب مشرقی پاکستان کے طلبہ اپنی ماں بولی’’بنگالی زبان‘‘ کا حق سرکاری زبان کے مقابلے میں مانگ رہے تھے۔

گویا1952 میں اسی تاریخ کو ڈھاکہ میں بنگالی بولی کو مرحوم مشرقی پاکستان کی (اردو کے ساتھ دوسری) سرکاری زبان تسلیم کرانے کے حق میں مظاہرہ کرنے والے یونیورسٹی کے بنگالی طلبہ پر گولی چلا کر بنگلہ دیش کے قیام کی بنیاد رکھ دی گئی تھی،اس واقعہ میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے مین گیٹ پر ریاستی پولیس کی اس بلاجواز فائرنگ سے 5 نوجوان (سلام، برکت، رفیق، جبار اور شفیع) جاں بحق ہوگئے تھے جب کہ سیکڑوں طلبہ بے یارومددگار زخمی پڑے تھے۔

دنیا میںماں بولی کی اہمیت سمجھتے ہوئے1999 میں یونیسکو نے ریاستی بربریت کی نذر ہونے والے بنگالی طلبہ کو اپنے بنیادی حقوق کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کرنے پر خراجِ تحسین پیش کیا اور 21 فروری کی تاریخ کو ’’انٹرنیشنل ڈے آف مدر لینگویجز‘‘ قرار دے دیا، جس کی توثیق 2005 میں اقوام متحدہ نے کی اور دنیا بھر میں ماں بولی کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں ڈھاکہ یونورسٹی کے طلبہ کی قربانیوں کو سند دے کر پاکستان سمیت قومیتوں کے بنیادی حقوق بزور طاقت سلب کرنے والی تمام غاصب اقوام کو یاد دلایا کہ عوام کے بنیادی حقوق دینے کا موثر طریقہ اختیار کرکے ہر سال دنیا بھر میںماں بولی کی اہمیت کے پیش نظر ہر فرد کو اس کی مادری زبان اختیار کرنے اور بنیادی تعلیم دینے کے حق کو تسلیم کیا جائے۔

دنیا کے نقشے میں دنیا کی تمامتر ترقی کے باوجود افسوس کے ساتھ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالی روزمرہ کا معمول بن گیا۔ پاکستان کے وجود سے لے کر آج تک عام فرد آئین کے ہوتے ہوئے بھی اپنے سیاسی اور جمہوری حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں صرف جتا ہی ہوا ہے،مگر ملک آج بھی برطانیہ شاہی کے نوازے طاقتور جاگیر دار، وڈیرے، سردار اور خان کے گٹھ جوڑ کے تحت طاقتور آمرانہ مزاج اشرافیہ کی مدد سے چلایا جارہا ہے جب کہ آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے کے لیے ان مذکورہ استحصالی ٹولے کے افراد کو باری باری پارلیمینٹ میں لا کر عام فرد کے حق کا وہ تمسخر اڑایا جاتا ہے کہ جس سے عام پاکستانی کی سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے جب کہ پاکستان کا پورا سماج طاقتور اور آمرانہ سوچ کے حکمرانوں کی حکمرانی کے ہوتے ہوئے جھوٹ، مکر و فریب، دھوکہ دہی سمیت فخریہ طور پر ہر ناجائز ذریعہ کو استعمال کر رہا ہے، جب کہ ملک کے طاقتور حکمران ٹولے ان بدعنوان اور جھوٹ و فریب کے سوداگروں کو پال کر سماج سے مکمل طور سے اخلاقی قدریں نکالنے کا مسلسل کام کر رہے ہیں۔

ملک کو ایک تجربہ گاہ بنا کر من مرضی سے اقتدار کے ایوانوں میں شاہ دولہ کے چوہوں مانند ان مراعات یافتہ افراد کو لایا جاتا ہے جو ملک کے عوام کا احساس محرومی ختم کرنے کے مقابلے میں عوام کے اندر مایوسی پیدا کریں اور سماج سے ’’امید‘‘کو ختم کریں۔

اس کا نتیجہ حکومت سازی اور پارلیمنٹ سے عوام کا اعتبار دن بدن شکستہ ہوکر عوام کو ملکی مسائل اور جمہوری قدروں سے ’’بیگانہ‘‘ کر رہا ہے، جو سماج کی تباہی کی وہ نشانی ہے جس میں کسی بھی ’’اقتداری ریفارم‘‘ کی کامیابی ممکن نظر نہیں آتی۔

عوام میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو مثبت کے بجائے منفی انداز سے استعمال کرنے کا ایک ایسا فتنہ گیر مرض انصافی فتنہ گر نے ایجاد کر دیا ہے جو ملک کی نئی نسل میں سیاسی شعور پیدا کرنے کے برعکس ان میں جھوٹ،مکر وفریب کا بیج بو کر نئی نسل کو سیاسی اور اخلاقی طور سے ذھنی معذور کرنے کے درپے ہے جب کہ اس فتنہ گری کے آسیب میں معصوم عوام اپنے انسانی، جمہوری اور سیاسی حقوق حاصل کرنے کے مقابلے میں دوسرے فریق کو نیچا دکھانے کے لیے ہمہ وقت تیار نظر آتے ہیں۔

کسی بھی درست خبر سے پہلے فتنہ گری کے سوداگر سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے اتنے بھرپور اور منظم طریقے سے جھوٹ پھیلا دیتے ہیں کہ اصل حقائق ڈھونڈنا جان جوکھوں کا کام بن جاتا ہے،یہ ملک فتنی گری کے آسیب میں جھوٹی خبروں اور افواہوں کا ایک ایسے قبرستان کا منظر پیش کرتا ہے جہاں ہر لمحے بظاہر پڑھے لکھے سمجھے جانے والے اہل دانش،تجزیہ کار صحافی اور یو ٹیوبر اپنی قبر کھدوانے کے لیے قطار در قطار تیار رہتے ہیں اور جہالت کی موت مرنے کے لیے فتنہ قبرستان میں اپنی فتنہ زدہ قبر میں جانے کے منتظر رہتے ہیں۔

اس تکلیف دہ اور افسوسناک پہلو کی داستان 73 برس پر محیط ہے،اس ریاست نے اپنی اقتداری خواہش میں نہ صرف 1952 میں بنگالی زبان کی تحریک میں حصہ لینے والوں پر گولیاں چلائیں بلکہ اسی ریاست نے شہری آزادیوں کے تحفظ اور طلبہ حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والے ’’کمیونسٹ فکر‘‘کے ڈی ایس ایف کے طلبہ کو بھی 1953 میں تہہ و تیغ کیا، عوام کے جمہوری حقوق کی جدوجہد میں عوام کے شانہ بشانہ رہنے والی کمیونسٹ پارٹی کے عوامی رہنماؤں کو نہ صرف زندانوں میں ڈالا بلکہ عقوبت خانوں میں ریاستی تشدد کرکے حسن ناصر ایسے ذہین کمیونسٹ کو موت کے گھاٹ اتارا۔

عوام میں سیاسی شعور کی آگاہی فراہم کرنے والی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی کو ملک دشمن قرار دے کر خاندان کے خاندانوں کو روپوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا،نذیر عباسی ایسے سرفروش جب انسانی آزادی کے لیے حسن ناصر کے نقش قدم پر چلے تو ایسوں کو بھی تشدد کی مقتل کا راستہ دکھایا،اس سیاسی تاریخ کو بار بار دہرانے کا مقصد یہی رہا کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ نظریاتی اور سوشلسٹ فکر کی سیاست عوامی حقوق کی بازیابی کے لیے ریاست کے سامنے اپنے مطالبات اور احتجاج نوٹ کرواتی ہے۔

عوامی حقوق کی پاداش میں مقتل کے مینار پر سر قلم کرواتی ہے مگر عوامی حقوق کی حاصلات میں نہ کبھی تشدد کے راستے کو درست سمجھتی ہے اور نہ عوام کے سیاسی شعور کو بانجھ یا اپاہج ہونے دیتی ہے، بلکہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ سوچ عوام کے سیاسی حقوق کی طلبی اور وسائل کی عوام میں مساویانہ تقسیم پر زور دے کر ہر فرد کی آزادی کو یقینی بناتی ہے، اور سیاسی و عوام کے جمہوری حقوق حاصل کرنے کا درست طریقہ بھی پرامن اور آئینی احتجاج کے ساتھ عوام کو سیاسی شعور دینے کے ساتھ اخلاقی آگہی کا ہے نہ کہ عوام میں فتنہ گری کے جھوٹ اور فریب کا مسالہ ڈال کر عوام کو پرتشدد بنانا یا ان کے جمہوری حقوق سے عوام کو محروم کرنا؟آج نئی نسل کو یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ کیا وہ غیر سیاسی شعور کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرے گی یا سیاسی دانش کے پر امن اصول اپنائے گی اور خود پر ’’فتنہ قبرستان‘‘ کی قبر کا کتبہ نہیں لگوائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔