آخری اسٹیشن!

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 25 فروری 2024
بہاول پور تا امروکا پھیلی بربادی کی ایک داستان ۔ فوٹو : فائل

بہاول پور تا امروکا پھیلی بربادی کی ایک داستان ۔ فوٹو : فائل

18 اپریل 1992

بغداد اسٹیشن، سطح سمندر سے بلندی 393 فٹ

سمہ سٹہ جنکشن سے بہاول نگر، امروکا آنے جانے کے لیے ٹرینوں کی واحد گزرگاہ پر 1835 میں بغداد الجدید کا اسٹیشن تعمیر ہوا تو نہ صرف بہاول پور کے مضافات میں بسنے والوں کو سہولت میسر آئی بلکہ ریاست کے نواب کو عراق سے باہر اپنا ایک اور بغداد بسانے کا موقع بھی مل گیا۔ اس اسٹیشن سے کئی لوگوں کا روزگار بھی چمک اٹھا تھا جن میں جندو پیر کوچوان بھی شامل تھا۔ دن میں وہ گھر کے کام نمٹا کے شام کو یہاں آجایا کرتا تاکہ ان کوچوانوں کی کمی پوری کر سکے جو شام ہوتے ہی اپنی اپنی بستیوں کو نکل جاتے تھے۔

اب یہاں رات گئے صرف ایک تانگہ سواریوں کے لیے موجود ہوتا تھا جس کی قدروقیمت سواریاں خوب جانتی تھیں۔ ٹرینوں کے آنے جانے سے ٹھیلے والے بھی جاگتے رہتے تھے سو بغداد الجدید میں زیادہ نا سہی کچھ رونق تو لگی رہتی تھی۔

26 نومبر 2023

عراق کا بغداد تو تہس نہس ہونے کے بعد پھر آباد ہوگیا تھا مگر نواب صاحب کا بغداد ریلوے اسٹیشن اب اجڑ چکا ہے۔ نہ یہاں کوئی جندو کوچوان نظر آتا ہے اور نہ ہی کوئی ٹھیلے والا۔ سگنل اور کانٹے بدلنے کا سسٹم تو موجود ہے مگر نہ وہ ریل گاڑیاں ہیں نہ ہی اسٹیشن ماسٹر۔ البتہ سرکار کی طرف سے حفاظت پر معمور دو لوگ نظر آجاتے ہیں۔

اب تو شہری بھی پٹڑی کنارے بیٹھے ریلوے لائن کو اداس آنکھوں سے تکتے ہی رہ جاتے ہیں۔

6 اگست 1988

ریلوے اسٹیشن چشتیاں

اسکول کھلنے میں ابھی چند دن باقی تھے۔ سو پرائمری اسکول ٹیچر قمرالزماں نے چند دوستوں کے ساتھ مری گھومنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور سامان سمیت ڈاہرانوالہ سے چشتیاں ریلوے اسٹیشن آن پہنچا۔ اُس دور میں ریل ہی سفر کا سب سے آسان اور سستا ذریعہ تھی۔ پھر چشتیاں جیسا شہر جو مرکزی راستوں سے ہٹ کر تھا، ریلوے لائن سے جڑا ہوا تھا۔ سو یہاں کی عوام ریل کو زیادہ پسند کرتی تھی۔

قمرالزماں نے بھی سفر کی ترتیب کچھ اس طرح بنائی تھی کہ چشتیاں سے بہاول پور پہنچ کر گاڑی بدلنی تھی اور اگلی گاڑی سے براستہ لاہور پنڈی پہنچ کے بس پر مری نکل جانا تھا۔

چشتیاں اسٹیشن پر چائے کا گھونٹ بھر کے قمر نے اپنے اور دوستوں کے سامان کو دوبارہ چیک کیا اور کچھ دیر میں اسے بہاولنگر ایکسپریس آتی دکھائی دی۔ سمہ سٹہ جنکشن سے ٹرین بدلی ہونی تھی جس کے بعد ان کی منزل راولپنڈی اور ملکہ کوہسار مری تھا۔ مسافر خانے سے اٹھ کے وہ پلیٹ فارم پر آیا اور خود اپنا سامان ٹرین میں رکھا۔ چار منٹ کے اسٹاپ کے بعد ٹرین نے سیٹی بجا دی اور سب دوستوں کے چہرے مسکرا اٹھے۔

26 نومبر 2023

شہر کی مصروفیت کے بیچوں بیچ چاپ چاپ کھڑا چشتیاں ریلوے اسٹیشن اپنی بربادی کی داستان سنا رہا ہے۔ میں یہاں قمر بھائی کے ساتھ آیا ہوں۔

مرکزی عمارت کسی خاندان کی رہائش بن چکی ہے جب کہ درجہ دوم کے مسافر خانے میں اس ملک کے درجہ دوم شہری جوا کھیلنے میں مشغول ہیں۔ برآمدے کی محرابوں سے بندھی ایک تار پر کپڑے سوکھنے کو ڈالے گئے ہیں۔

کیکر کے درخت تلے چشتیاں کا بورڈ اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے پیچھے بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اچانک ایک چائے کا خالی کپ پاؤں سے ٹکراتا ہے، اوہ قمر بھائی شاید اٹھانا بھول گئے ہوں گے۔

21 جنوری 1873

تخت محل، سطح سمندر سے 499 فٹ بلند

جاڑے کا اختتام چل رہا تھا لیکن پنجاب میں سردی کی شدت اب بھی کم ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ تخت محل کے چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے باہر تین چھکڑے 218 ڈاؤن کے منتظر تھے جس میں خانقاہ شریف سے عبد الوہاب تخت محل کی فاطمہ بی بی کو بیاہنے آج کی ٹرین سے پہنچنے والا تھا۔

پانچ بوگیوں کو کھینچتا انجن دور سے دھواں اڑاتا نظر آیا تو چھکڑے والے بھی ہوشیار ہو گئے۔ دن کے گیارہ بجے یہ چھوٹی سی بارات دولہے کو لے کر اسٹیشن پر اتر چکی تھی۔ دولہے کے باپ نے اسٹیشن ماسٹر کو دیسی مٹھائی کا ڈبا پکڑایا جو چار لوگوں پہ مشتمل عملے میں تقسیم ہونا تھا۔

بارات میں دولہا کے قریبی عزیز ہی شریک تھے جنہوں نے شام کی گاڑی سے دلہن کو بیاہ کے ساتھ خانقاہ شریف لے جانا تھا۔ ریل اپنی منزل کو جا چکی تھی جب کہ یہاں بارات بھی چھکڑوں پر سوار ہوئی اور تخت محل کے مضافات کو ہو لی۔

اُدھر اسٹیشن ماسٹر کمرے میں بنے آتش دان کے سامنے بیٹھا اور مٹھائی سے دو دو ہاتھ کرنے کے بعد ڈبہ آتش دان پر چھوڑ، باہر جا چکا تھا۔

26 نومبر 2023

مُسافر گاڑی سے اترا اور لمحے بھر کو آنکھ اٹھائی تو سامنے گندم کی ’’پرالی‘‘ سے اٹی خنک زمین پر ایک تخت بچھا تھا جس کے ماتھے پہ لکھا تھا؛

تَخت محل ، سطح سمندر سے بلندی 499 فٹ ، تعمیر شدہ 1897

آہ۔۔۔ بخت کے تخت سے یک لخت اتارا گیا تخت محل۔

کسی سہاگن کی اجڑی مانگ جیسا تخت محل مجھے اپنی جانب شدت سے کھینچ رہا تھا۔ اس خالی عمارت میں بلا کی کشش تھی جس کے محرابی دروازے میں دکھنے والے دو کھجور کے درخت شاید کسی کے منتظر تھے۔ دو کمروں، محرابی گزرگاہ اور ایک ٹکٹ گھر پر مشتمل دور دراز کا یہ اسٹیشن، نجانے کتنی ریل کی سیٹیاں سن چکا ہو گا۔ دیوار پہ بنا بورڈ بہت کچھ بتا رہا تھا۔

317 اَپ اور 318 ڈاؤن کے اوقات کار۔

بہاولنگر، چشتیاں، بخشن خان، حاصل، پور، شیخ واہن اور مدرسہ تک کا کرایہ،

ضروری اطلاع کہ یہ اسٹیشن گاڑی آنے سے ایک گھنٹی پہلے کھلتا ہے اور گاڑی آتے ہی بند ہو جاتا ہے۔

پیچھے کی طرف چھوٹی اینٹ کا ایک راستہ دور بنے ایک کمرے تک لے جاتا ہے جو شاید عملے کی رہائش گاہ رہی ہو گی۔ دھند میں چھپا یہ کمرا کچھ حد تک اپنی پراسراریت کا بھرم قائم رکھے ہوئے تھا۔

اسٹیشن کے کمروں میں مسافر کو کچھ دروازے، کھڑکیاں اور انگریز دور کے خوب صورت آتش دان ملے۔

ایک آتش دان پر کسی شادی کی مٹھائی کا ڈبا نظر آیا۔ شاید کوئی بھول گیا ہو گا۔

16 مئی 1935

بہاول نگر جنکشن ، سطح سمندر سے بلندی 514 فٹ

فجر پڑھتے ہی بہتر سالہ باریش، واحد بخش اپنا ٹی اسٹال کھول چکا تھا جو بہاول نگر ریلوے جنکشن کے پلیٹ فارم نمبر 2 پر واقع تھا۔ یوں تو یہاں دو سٹال اور بھی تھے لیکن وہ صرف ٹرین کے اوقات میں ہی چالو ہوتے تھے جب کہ محنت کا رسیا واحد بخش، مسافروں سمیت اسٹیشن کے عملے اور یہاں آنے والے ہر بندے کے لیے چائے تیار رکھنے کو ہمہ وقت موجود رہتا۔

دلی سے آنے والی گاڑیاں ہوں یا کراچی سے جانے والی، بہاولنگر جنکشن پہ اکثر رش لگا رہتا تھا۔ انتظار گاہیں مسافروں سے بھری رہتی تھیں، اسٹیشن ماسٹر ادھرادھر دوڑ رہا ہوتا تھا، ٹنکیاں وقت پر بھری جا رہی ہوتی تھیں، ورکشاپ پر انگریز افسروں کے ڈبوں کی مرمت کی جا رہی ہوتی تھی جب کہ انجن بھی رُخ بدلنے کو لوہے کی گول پٹڑی پہ گھوم رہے ہوتے تھے۔

اسٹیشن کا بجلی گھر ہو یا کوئی اور دفتر، سب ملازمین کی چائے کا آرڈر واحد بخش کے پاس ہی آتا تھا، بلکہ اکثر تو ڈانس کلب میں تعینات ملازم بھی اس کے پاس چائے پینے نکل آتے تھے۔ بہاولنگر اسٹیشن ہی تو تھا جس نے اس بوڑھے کی دونوں بیٹیوں کی شادیاں ٹھیک ٹھاک طریقے سے کروا دی تھیں، وہ اِسے کیسے چھوڑ سکتا تھا۔

اچانک فقیر والی، ہارون آباد اور ڈونگہ بونگہ کے مسافروں کو اٹھا کے ریل جنکشن پر رکی تو واحد بخش چائے کا آرڈر لینے بھاگا۔ داڑھی میں پھیرنے والی اس کی چھوٹی سبز کنگھی اچھل کہ کہیں گر گئی تھی لیکن اس وقت وہ گاہکوں کی سروس میں کوئی خلل نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔

26 نومبر 2023

مسافر کا خواب پورا ہونے والا تھا۔ بس ایک موڑ کے بعد ریاست بہاولپور کا مصروف اور بہترین جنکشن اس کے سامنے آنے والا تھا۔

اور وہ سامنے تھا۔

سفیدے کی ایک لمبی قطار اور آدھی ٹوٹی اینٹوں والے راستے پہ گرے سفیدے کے خشک پتے، اکھڑی ہوئی پٹڑیاں، سنسان پلیٹ فارم، تالا بند مسجد، ایک خوب صورت لمبا محرابی برآمدہ، لکڑی کے مقفل دروازے، باہر جانے کا راستہ جس پر تعمیر کا سال 1894 لکھا تھا۔ 13 اپریل 1995 کو وزیراعظم بینظیر بھٹو کی منظوری سے بحال ہونے والے بہاولنگرفورٹ عباس سیکشن کی افتتاحی تختی، خالی ٹنکیاں جن کے پائپوں پر اب بھی نارتھ ویسٹرن ریلوے لکھا ہے، ریلوے ورکشاپ کے زنگ آلود دروازے و تالے اور پرانا بجلی گھر جس کے راستے کو خشک لکڑیوں سے بند کیا گیا تھا۔

یہ کون سا بہاولنگر تھا؟

یقیناً واحد بخش کا بہاول نگر تو نا تھا۔

پلیٹ فارم پر سبز رنگ کی ایک چھوٹی کنگھی پڑی ملی، شاید جلد بازی میں کسی کی جیب سے گر گئی ہوگی۔

روجھانوالی کے اسٹیشن پر ہُو کا عالم تھا اور اس پرانے اسٹیشن کو یاسیت نے اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔ برآمدے خالی اور راستے بند ملے۔ اجڑی ہوئی ورکشاپ کے ایک حصے سے لوہے کی چھت تک اتار لی گئی ہے۔ لوہے کے پائپوں کو زنگ لگ چکا ہے۔ ٹنکیوں کی چھت تک جاتے زینے اپنا وجود کھو رہے ہیں۔ جابجا جھاڑیاں اور کائی اُگ چکی ہے۔ کسی کونے میں بِھڑوں کے چھتے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ البتہ شیڈ مین انچارج کا کوارٹر اور اس کے باہر لگے ہرے بھرے پودے اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ یہاں کوئی اب بھی رہتا ہے۔

دور ایک طرف انجن کا رخ بدلنے والا لوہے کا گول چکر کچھ بہتر حالت میں ہے۔

یہ جگہ اسٹیشن کم اور کوئی گودام زیادہ لگتا ہے جہاں جگہ جگہ لوہا بکھرا پڑا ہے۔

اسٹیشن کے باہر ٹکٹ گھر اور مسافر خانہ ہے جبکہ کچھ دور انگریزوں کا بنایا ناچ گھر بھی اپنی حالت پہ ماتم کناں ہے۔

خوب صورت ہال، لکڑی کے چھجے، اونچی چھتیں، قطار در قطار دروازے اور آتش دان، یہ ڈانس کلب اب بھی اپنے ماضی کی داستان سنا رہا ہے۔ بس چند ماہ میں ہی یہ بھی ختم ہوجائے گا۔

کاش کے ریاست پاکستان کے کسی وزیر مشیر کو اس مظلوم اسٹیشن کی آہ سنائی دے جائے اور اس کے بھاگ جاگ اٹھیں۔

3 ستمبر 1947

امروکا اسٹیشن ، سطح سمندر سے بلندی 572 فٹ

رات کے ڈھائی بجنے کو تھے اور غلام محمد کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ امروکا ریلوے اسٹیشن کا یہ بوڑھا اسٹیشن ماسٹر اس وقت تک سو جاتا تھا لیکن آج اس کی آنکھوں کو کسی کا انتظار تھا۔ آنے والا بہت خاص تھا۔

تھوڑی ہی دیر بعد دور سے ایک روشنی دکھائی دی اور غلام محمد کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔

دہلی سے کراچی جانے والی ٹرین امروکا پہنچنے والی تھی۔ یہ کوئی عام مسافر ٹرین نہ تھی، بلکہ ہندوستان سے نئی بننے والی مملکت پاکستان کے حصے کا دفتری سامان، اسلحہ و دیگر خزانہ لے کر آنے والی وہ خاص ٹرین تھی جس کا اسے تین دن سے انتظار تھا۔

حالاںکہ امروکا میں اس ٹرین کا اسٹاپ پندرہ منٹ کا تھا لیکن اس جانب پاکستان کا پہلا اسٹیشن ہونے کے ناتے غلام محمد اسے کچھ دیر اور روک سکتا تھا۔

ٹرین کے رکتے ہی اس نے انجن کے سامنے نئی مملکت کا پرچم لگا دیا اور اسے سلامی دی۔ ڈرائیور سمیت سیکیوریٹی کے عملے کو وہ اپنے کمرے میں لے آیا۔ اس کی بیوی جو کب سے کھانا پکائے انتظار میں تھی، تمام عملے کا کھانا لے کر آئی اور دسترخوان پر چُن دیا۔

مہمان نوازی کے اصولوں سے واقف امروکا کا یہ بوڑھا اسٹیشن ماسٹر، پاکستان کے حصے کا مال بحفاظت لے کر جانے والوں کو بغیر کھانا کھلائے کیسے جانے دیتا۔

طعام کے بعد عملے نے غلام محمد کا شکریہ ادا کیا اور قریباً پینتالیس منٹ بعد ٹرین چل پڑی۔

پلیٹ فارم کے کنارے پر ہلکی سی ملگجی روشنی والی لالٹین اٹھائے غلام محمد اس ڈرائیور کو ہمیشہ یاد رہنے والا تھا جو اب جاتی ٹرین کو ہاتھ ہلا رہا تھا۔

نومبر 2023

آہ، 1893 میں بننے والا غلام محمد کا امروکا اسٹیشن۔۔۔۔

مسافر مغرب سے چند منٹ پہلے جب اِس اسٹیشن پر اترا تو ہاتھ میں جھنڈا لیے پاگلوں کی طرح اُس ٹرین کے نشان تلاش کرتا یہاں وہاں بھٹکنے لگا، مگر نہ تو غلام محمد نظر آیا نہ اس کی لالٹین اور نہ ہی وہ ٹرین جس پر جھنڈا لگانے کی خواہش مسافر دل میں دبائے یہاں تک پہنچا تھا۔ اور اس ٹرین کے بعد تو نجانے کتنی ریل گاڑیاں آئیں اور اس کے نشان مٹا کے یہاں سے گزر گئیں۔ امروکے میں اب کچھ نہیں سوائے ایک بوڑھی عمارت، دو پٹڑیوں، چند بورڈز اور ریل کے کانٹوں کے۔

البتہ کچھ دور ایک بلند ٹاور ضرور ملتا ہے جو اس علاقے میں فوجی راج کا گواہ ہے۔

پاکستان کے انچ انچ سے شدید محبت کرنے والا یہ مسافر ایک آخری بار ہندوستانی سرحد کے پاس پہلے یا آخری اسٹیشن کو دیکھتا ہے، اور دوبارہ آباد ہونے کی دعا دے کر رخ موڑ لیتا ہے۔

ہندوستان کے شمال مغربی حصوں میں چلنے والے ریل کے نظام کو ’’شمال مغربی ریلوے‘‘ کا نام دیا گیا تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد 1961 تک مستعمل رہا۔ 1961 سے مئی 1974 تک یہ ’’مغربی پاکستان ریلوے‘‘ کہلاتا رہا اور بالآخر پاکستان ریلوے بنا جو اب تک چلتا آ رہا ہے۔

ایک دور تھا جب اس ریلوے نیٹ ورک کو ملک کے ذرائع نقل و حمل میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل تھی، کروڑوں لوگ صرف ٹرین کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ نیز یہ مال برداری کا بھی اہم ذریعہ تھا۔ ہزاروں خاندانوں کا چولہا ریل کے انجن سے جلتا تھا۔ پاکستان ریلوے کے پاس اربوں کی زمینیں تھیں جن میں رہائشی کالونیاں، کوارٹرز، ریلوے کلب، ڈاک بنگلے، اسپتال، بجلی گھر ریستوراں اور پارک ہوا کرتے تھے۔

پھر ہر محکمے کے ساتھ اس کا زوال بھی شروع ہوا۔ ایک کے بعد ایک مختلف ٹریکس پر ٹرینیں چلنا بند ہوگئیں اور ریلوے اسٹیشن ویران ہوتے چلے گئے۔ ساتھ ہی ریلوے کے اثاثے چوری کیے جانے سمیت ریلوے کی قیمتی زمینوں، کوارٹرز اور افسران کی رہائش گاہوں پر بھی قبضہ شروع ہوگیا۔

آج پاکستان میں ریلوے ٹریک کی کل لمبائی کم و بیش ’’آٹھ ہزار کلومیٹر‘‘ ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کے بجائے اضافے کے، ہر گزرتے سال اس میں کمی ہی دیکھنے کو ملی ہے۔

ہم نے اس میں جو اضافہ کیا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ مردان سے چارسدہ تک ایک چھوٹی سی لائن بچھا دی اور پھر جیکب آباد سے براستہ کشمور و راجن پور، ڈیرہ غازی خان کو ملا دیا۔ کھوکھراپار میں بھی ایک ریلوے لائن کو میٹر گیج سے براڈ گیج میں تبدیل کیا گیا ہے، جب کہ کئی ٹریک ایسے ہیں جن کو پاکستان ریلوے نے مکمل بند کردیا جن میں سے ایک اہم ترین ٹریک سمہ سٹہ تا امروکا ہے جسے 1890 سے 1894 کے درمیان بچھایا گیا تھا۔

سہیل خان ایک جگہ لکھتے ہیں؛

’’اس ریل سروس کو اصل میں ریلوے کمپنی نے دہلی، بھٹنڈا اور سمہ سٹہ کے درمیان 257 کلومیٹر کے ٹریک پر متعارف کرایا تھا۔ ریل کی پٹڑی کا مغربی حصہ اس وقت کی ریاست بہاولپور میں سمہ سٹہ اور امروکا سیکشن کے درمیان بچھایا گیا تھا۔

اسی طرح اس وقت کی بھارتی ریاست پٹیالہ کے شہر بھٹنڈا اور ہندومل کوٹ کے درمیان دوسرا ریلوے ٹریک بچھایا گیا۔ ریاستی ریلوے لائنوں کا نام ’دربار لائنز‘ رکھا گیا تھا اور ان کے تمام اخراجات متعلقہ ریاستیں برداشت کرتی تھیں۔ برصغیر کی تقسیم سے پہلے، نارتھ ویسٹرن ریلوے کے زیرِاثر دہلی اور کراچی کو ملانے کے لیے یہ ریلوے لائن بہت اہمیت کی حامل تھی جِسے 1947 میں بھارت سے کراچی تک عملے اور ان کے سامان کی نقل و حمل کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔‘‘

ریاست بہاولپور کی 112 کلومیٹر کی دوسری دربار لائن بہاولنگر اور فورٹ عباس کے درمیان 1928 میں بچھائی گئی تھی۔ اس ٹریک پر کھچی والا، فقیروالی، ہارون آباد اور ڈونگا بونگہ کی نئی غلہ منڈیاں قائم کی گئیں اور چولستان کے یہ علاقے کافی خوش حال ہوگئے۔

اُس دور میں چلنے والی گاڑیاں کراچی سے سمہ سٹہ جنکشن اور پھر بہاولپور سے ہوتی ہوئی بغداد، ڈیرہ بکھا، لال سہانرا، اسرانی، خیر پور ٹامیوالی، شیخ واہن، قائم پور، حاصل پور، بخشن خان، چشتیاں، چک عبداللہ، مدرسہ، تخت محل، بہاولنگر جنکشن، چھبیانہ، منچن آباد، منڈی صادق گنج، سوبھاوالا اور پاک بھارت سرحد پر آخری اسٹیشن امروکا تک جاتی تھیں۔

دوسری طرف بہاولنگر سے فورٹ عباس جانے والی لائن ڈونگہ بونگہ، ہارون آباد، فقیر والی، فورٹ عباس، مروٹ، منصورہ، یزمان سے ہوتی ہوئی قط العمارہ اسٹیشن (جو اب بہاولپور کا حصہ ہے) کے قریب امروکا سے آنے والی لائن میں ضم ہو کر سمہ سٹہ تک جاتی ہے جس پر پھر کبھی لکھوں گا۔ اس پٹڑی کا بیشتر حصہ صحرائے چولستان سے ہو کر گزرتا تھا۔

امروکا لائن پر 1894 میں قائم ہونے والے مرکزی جنکشن کا نام ’’روجھانوالی‘‘ تھا جسے بعد ازآں 1901 میں نواب بہاول خان عباسی پنجم کے نام پر ’’بہاول نگر جنکشن‘‘ کردیا گیا جس نے سابق ریاست بہاولپور خصوصاً ضلع بہاولنگر کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

ہندوستان میں آگے دہلی تک جانے کے لیے بھی یہی ٹریک استعمال ہوتا تھا۔ اس دور میں سمہ سٹہ سے بہاول نگر تک روزانہ کئی ٹرینیں چلا کرتی تھیں جن کی بدولت یہاں کے اسٹیشن پہ خوب رونق رہتی تھی۔ اپنی ٹرین یاترا کے دوران موہن داس گاندھی بھی ان اسٹیشنوں سے گزرے تھے۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ دہلی سے کراچی جاتے ہوئے وہ نہ صرف یہاں سے گزرے تھے بلکہ منڈی صادق گنج اسٹیشن پر رکھی کرسی پہ آرام بھی کیا۔ اس بات کا واضح ذکر کہیں نہیں ملتا۔

بہاولنگر ریلوے جنکشن 1935 میں اپنے عروج پر تھا جس کی ایک خاص وجہ کوئٹہ سے دہلی تک مال بردار ٹرینوں کا باقاعدگی سے چلنا تھا۔ اسی دور میں عملے کے لیے پانچ سو کوارٹرز بنائے گئے جن میں ریلوے افسران کی رہائش، ریلوے اسپتال، ڈی اے کے بنگلے، کھیل کے میدان، قبرستان، ڈانس کلب، ورکشاپ اور ریلوے پولیس اسٹیشن شامل ہیں۔

پھر 1938 میں یہاں ایک ڈی سی بجلی گھر قائم کیا گیا جو ڈیزل انجن کی مدد سے بجلی پیدا کیا کرتا تھا جس سے بہاول نگر جنکشن پر خوب روشنی رہتی تھی۔

ریلوے کی تمام ضروریات پوری ہونے کے بعد یہ ایک خوب صورت مقام میں تبدیل ہوگیا۔ اسٹیشن پر مستقل چوبیس گھنٹے مسافروں کی ہلچل رہتی تھی، چائے کے اسٹال کھلے رہتے، اسٹیشن ماسٹر سے لے کر، کانٹا بدلنے والا اور ٹنکیوں میں پانی بھرنے والا عملہ مستعد رہتا تھا اور اسے اس وقت برصغیر کے اہم ریلوے جنکشنوں میں شمار کیا جاتا تھا۔

یہاں تک کہ تقسیم کے بعد بھی اس جنکشن نے 1980 تک کاروباری مرکز کے طور پر اپنی ساکھ برقرار رکھی اور یہ شہر سے بھی اہم تصور کیا جاتا تھا۔ اور پھر آہستہ آہستہ جمہوریت کے ثمرات اس تک بھی پہنچ گئے۔ نوے کی دہائی کے آخرمیں شدید کرپشن سے ریلوے کو نقصان ہونے لگا۔ ایک خبر کے مطابق ہمارے ایک وزیر ریلوے (جن کا اپنا ٹرانسپورٹ کا دھندا تھا) نے پیسے لے کے ٹرینیں بند کرنا شروع کردیں اور بسوں کو پروموٹ کیا۔ جان بوجھ کر ٹرینیں لیٹ کی جاتیں اور خرابی کا بہانہ بنا کر گھنٹوں انہیں ویرانوں میں کھڑا رکھا جاتا۔ آخر تنگ آ کر مسافروں نے بسوں کا سفر اختیار کرنا شروع کیا۔

یوں دیکھتے دیکھتے ریلوے شدید مالی خسارے میں چلا گیا۔ ٹریک بند ہونے لگے اور اسٹیشنز کی حالت ابتر ہونے لگی۔ ریلوے ملازمین شدید مالی پریشانیوں سے دوچار ہونے لگے لیکن کہیں شنوائی نہ ہوئی۔

واحد ٹرین جو سالوں سے سمہ سٹہ تا امروکا ان پٹریوں سے گزر رہی تھی، 26 جولائی 2011 کو بند کردی گئی اور بہاول پور سے آگے یہ سب اسٹیشن ویران ہو گئے۔ ضلع بہاول نگر کی مانگ اجڑ گئی۔۔۔۔۔

بدقسمتی سے ایسا شان دار ریلوے جنکشن اور یہ پورا ٹریک کرپشن کا شکار ہوگیا۔

سمہ سٹہ سے بھاولنگر تک کا ٹریک اہم دفاعی ٹریک ہے سو اس کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 2021 میں اس ٹریک کی دوبارہ بحالی کا ایک نوٹیفیکیشن نظر سے گزرا تھا مگر اس کے بعد کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔

بطور ایک پاکستانی میری حکومت اور محکمۂ ریلوے سے گزارش ہے کہ اس ٹریک کو بحال کیا جائے اور ریلوے کے اس قیمتی ورثے کو بچا کر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔