سیاسی قیادت کی ذمے داری

ایڈیٹوریل  جمعرات 7 مارچ 2024
فائل فوٹو

فائل فوٹو

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت 263 ویں کورکمانڈر کانفرنس گزشتہ روز جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی میں ہوئی، آٹھ فروری کو عام انتخابات کے بعد یہ پہلی کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق کانفرنس کے شرکاء نے ملک میں امن و استحکام کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے مسلح افواج کے افسران، جوانوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور شہریوں سمیت شہدا کی عظیم قربانیوں کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ فورم نے عزم کیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دشمن قوتوں کے اشارے پر کام کرنے والے تمام عناصر کے خلاف ریاست مکمل طاقت کے ساتھ نمٹے گی۔

کور کمانڈرز نے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کے مینڈیٹ کے مطابق تمام تر مشکلات کے باوجود محفوظ ماحول مہیا کرنے پر سول انتظامیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسز کی کوششوں کو سراہا۔ فورم نے اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے دیے گئے مینڈیٹ کے مطابق عام انتخابات2024 کے انعقاد کے لیے عوام کو محفوظ ماحول فراہم کیا، اس سے زیادہ افواج ِ پاکستان کا انتخابی عمل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

کچھ مخصوص مگر محدود سیاسی عناصر، سوشل میڈیا اور میڈیا کے کچھ سگمنٹس کی طرف سے مداخلت کے غیر مصدقہ الزامات کے ساتھ پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کیا جا رہا ہے جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ بے بنیاد بیان بازی کے بجائے ثبوت کے ساتھ مناسب قانونی عمل کی پیروی کی جائے۔ فورم نے مرکز اور صوبوں میں اقتدار کی جمہوری انداز میں منتقلی پر اطمینان کا اظہار کیا اور امید ظاہرکی کہ عام انتخابات کے بعد کا ماحول پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام لائے گا۔

فورم اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ جمہوری استحکام ہی ملک کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ فورم نے سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے اورسماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں حکومت کو مکمل تعاون فراہم کرنے کا اعادہ کیا۔ اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی، بجلی چوری، وَن ڈاکومنٹ رجیم اور تمام غیر قانونی تارکین کی باعزت اور محفوظ وطن واپسی سمیت تمام غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے میں بھرپورمدد فراہم کی جائے گی۔

وزیر اعظم پاکستان کے عزم کے مطابق فورم نے اعادہ کیا کہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں، اشتعال دلانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور شہدا ء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والوں اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو یقینی طور پر قانون اور آئین کی متعلقہ دفعات کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

مسخ شدہ، ابہام اور غلط معلومات پھیلانے کی کوششیں مذموم سیاسی مفادات کے حصول کے لیے منظم مہم کا حصہ ہیں تاکہ 9 مئی کی گھناؤنی سرگرمیوں پر پردہ ڈالا جا سکے۔ فورم نے معاشرے میں مایوسی اور تقسیم ڈالنے کے لیے پھیلائی جانے والی منظم جھوٹی اور جعلی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا۔

کور کمانڈرز نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے جاری جبر پر تشویش کا اظہار کیا اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کی مذمت کی ہے اور اعادہ کیا کہ پاکستان اپنے کشمیری بہن بھائیوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت ہر سطح پر جاری رکھے گا۔

فورم نے فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل اظہارِ یکجہتی اور غزہ میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کی مذمت کی۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کو پاکستانی قوم کی مکمل سفارتی، اخلاقی اور سیاسی حمایت حاصل ہے اور ہم مسئلہ فلسطین کے پائیدار حل کے لیے اپنے بھائیوں کے اصولی موقف کی حمایت جاری رکھیں گے۔

بلاشبہ واضح اور دوٹوک الفاظ میں کورکمانڈرز کا یہ کہنا کہ’’انتخابی نتائج سے فوج کا کوئی تعلق نہیں ہے اور جن عناصرکو شکایت ہے، وہ ہنگامہ آرائی کے بجائے مناسب اور قانونی فورمز سے انصاف حاصل کریں‘‘ درست نصیحت اور مشورہ ہے، سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ چونکہ آئین و قانون کی حکمرانی کی دعویدار ہوتی ہیں لہٰذا آئین و قانون پر عمل کرنا بھی ان کی ڈیوٹی ہے۔

آٹھ فروری کو پاکستان بھر میں ہزاروں،لاکھوں ووٹرز گھروں سے نکلے تھے ، پولنگ اسٹیشن پر ووٹرز کی لمبی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں، لوگوں نے موسم کی سختیوں کی پروا بھی نہ کی تو یہ کروڑوں ووٹرز کا جمہوری عمل پر اعتماد کا اظہار تھا، اور اسی اعتماد کو برقرار رکھنا سیاست دانوں کا فرض ہے۔

اب ان انتخابات کے نتیجے میں جس بھی سیاسی جماعت کی حکومت بنے، اس کو وقت دیا جائے اور الزام تراشی کا سلسلہ اب پھر سے شرو ع نہیں ہونا چاہیے اور دھاندلی کا شور جو ہم ہر الیکشن کے بعد دیکھتے ہیں کہ ہمیشہ ہارنے والی پارٹی اس بات کا واویلا کرتی ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے، دھاندلی ہوئی ہے تو اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور بڑے دل کے ساتھ ہار کو تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا، اسی میں ملک کی ترقی کا راز مضمر ہے، اگر روایتی الزام تراشی اور پروپیگنڈا کا سلسلہ شروع ہوا تو انتشار اور محاذ آرائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے حامی صحافیوں، تجزیہ کاروں اور اینکرز حضرات پر یکساں طور سے یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ پروپیگنڈا مہم سے متاثر ہوئے بغیر حقائق کو سامنے رکھ کر بات کریں تاکہ ملک میں غیریقینی پیدا نہ ہو۔

پاکستان کے وائٹل انٹرسٹس کے خلاف منظم انداز میں مسلسل پروپیگنڈا جاری ہے، اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا ٹولزکو استعمال کیا جارہا ہے، ریاستی ادارے ہی اگر بے توقیر ہوجائیں تو ریاست کی آزادی، سلامتی اور یک جہتی سنگین خطرات سے دوچار ہوجاتی ہے۔

خدا نخواستہ اگر ریاستی اداروں کے خلاف تنقید کا سلسلہ جاری رہا تو پاکستان اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔لہٰذا ایسے عناصر کے خلاف آئین وقانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے، پاک فوج اور دوسرے سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف مسلسل ٹارگیٹڈ آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا خاتمہ کرنا پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہیں، عوام کو متحد اور منظم ہو کر پاکستان کو بچانے کے لیے مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے۔

پاکستان میں عام انتخابات کے بعد حکومتیں بن رہی ہیں‘ پنجاب میں کابینہ نے حلف اٹھا لیا ہے ‘ وفاق میں بھی عنقریب وزراء اپنے اپنے قلمدان سنبھال لیں گے‘ خیبرپختونخوا ‘سندھ اور بلوچستان میں بھی وزراء اپنی اپنی ذمے داریاں سنبھال لیں گے‘ تین چار روز میں نئے صدر کا انتخاب بھی عمل میں آ جائے گا‘ اپریل میں سینیٹ کی جو نشستیں خالی ہو گئی ہیں‘ ان کا بھی انتخاب ہو جائے گا ‘ یوں اب تک ملک میں جمہوری عمل آئین اور قانون کے مطابق جاری و ساری ہے جو ایک خوش آیند بات ہے۔

الیکشن میں ہار اور جیت ہوتی رہتی ہے‘ برطانیہ میں کبھی کنزرویٹو پارٹی حکمران ہوتی ہے اور کبھی لیبر پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے‘ بھارت میں بھی پارلیمانی جمہوریت رائج ہے ‘وہاں بھارتی جنتا پارٹی گزشتہ دس برس سے اقتدار میں چلی آ رہی ہے اور اب وہاں بھی لوک سبھا کے الیکشن ہونے والے ہیں‘ بھارت میں بھی جو جماعت ہارتی ہے وہ نتائج کو تسلیم کرتی ہے اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتی ہے۔

پارلیمانی جمہوریت کا یہ بنیادی اصول ہے۔انتخابی نتائج میں اگر کہیں بے ضابطگی ہوئی ہے یا دھاندلی ہوئی ہے تو اس کے ازالے کے لیے بھی آئین اور قانون میں راستہ موجود ہے‘ جس ہارے ہوئے امیدوار کو کہیں کوئی شکایت ہے یا پوری جماعت کو کوئی شکایت ہے تو وہ اپنی شکایت کے ازالے کے لیے الیکشن کمیشن سے رجوع کر سکتی ہے‘ الیکشن ٹربیونلز اس مقصد کے لیے موجود ہیں۔

اعلیٰ عدلیہ کا فورم بھی موجود ہے ‘لیکن ان قانونی راستوں کو چھوڑ کر الزام تراشی اور پراپیگنڈا کر کے عوام میں کنفیوژن پیدا کرنا یا الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو دباؤ میں لانا کسی طور بھی درست طرز عمل نہیں ہے۔بے شک کسی زیادتی یا غیر قانونی عمل کے خلاف آواز بلند کرنا‘ سیاسی جماعتوں کا بھی حق ہے اور شہری بھی احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ لیکن جس بنیاد پر کوئی احتجاج کیا جا رہا ہو تو اس کی ٹھوس وجوہات کا ہونا اور ٹھوس شواہد کا ہونا لازم ہے۔

ایسا نہیں ہو سکتا کہ بلاثبوت کسی پر الزام تراشی کی جائے۔ مہذب ملکوں میں اس حوالے سے سخت قوانین موجود ہیں اور وہاں کی عدالتیں اس حوالے سے زیروٹالرنس کا مظاہرہ کرتی ہیں ‘ پاکستان میں بھی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ذمے دارانہ سیاست کی داغ بیل ڈالنے کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ اسی میں ملک اور قوم کی بھلائی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔