لاعلمی کی فضاء میں لفاظی سے گزارہ

نصرت جاوید  بدھ 11 جون 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کراچی ایئرپورٹ پر اتوار کی رات جیسا کوئی واقعہ ہوجاتا ہے تو میرے جیسے صحافیوں کے پاس بار ہا دہرائی گئی باتوں کے علاوہ لکھنے کو اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہم میں اتنا تجسس ہرگز موجود نہیں کہ یہ جاننے کی کوشش کریں وہ باتیں جنھیں ہم سیکیورٹی امور کے حوالے سے ’’بنیادی‘‘ سمجھتے ہیں ان پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو پاتا۔ تھوڑا بہت تجسس پیدا ہو بھی جائے تو معاملات سمجھانے کو متعلقہ لوگ میسر نہیں ہوتے۔ قطعی لاعلمی کی اس فضاء میں محض لفاظی سے گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ لفاظی ہمارے معاشرے میں اس لیے بھی زیادہ کام آتی ہے کہ ہمیں حقائق سے زیادہ سازشی کہانیاں سننے کا شوق ہوتا ہے۔ یہ عادت نسلوں سے ہمارے دل و دماغ میں سرایت کر چکی ہے اور اس سے چھٹکارا پانے کا کم از کم مجھے تو کوئی طریقہ نظر نہیں آتا۔

کئی برسوں سے میں بڑے خلوص سے 1857 کے غدر یا جنگِ آزادی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس ضمن میں کئی کتابیں کنگھال ڈالیں۔ ابھی تک کچھ طے نہ کر پایا۔ اب سے چند ہی روز پہلے خواجہ حسن نظامی کی وہ کتاب ہاتھ لگ گئی جس میں نہایت آسان اُردو میں بہادر شاہ ظفر کے خلاف چلائے گئے مقدمے کی پوری روئداد ٹھوس دستاویزات کے حوالے سے بیان کی گئی ہے۔

اسے پڑھتے ہوئے بڑی حیرت ہوئی کہ بہادر شاہ ظفر سمیت اس اتنے بڑے تاریخی واقعہ سے متعلقہ اہم ترین لوگ بھی مختلف روحانی شخصیات کے ’’خوابوں‘‘ کا ذکر کرتے رہے جو 1857 کے واقعات کے ذریعے سچ ہوتے نظر آئے۔ بہادر شاہ کے اہم ترین معتمد حکیم احسن اللہ خان نے ساری گڑبڑ کا ذمے دار ان مسلمان فرقوں کے سرکردہ لوگوں کو ٹھہرا دیا جنھیں وہ اپنے ذاتی عقائد کے حوالے سے ناپسند کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بہت حیرانی یہ بات جان کر بھی ہوا کہ 1857میں دلی میں محصور ہونے والے مسلمانوں کی اکثریت بڑی سنجیدگی سے یہ سمجھتی تھی کہ ان کے بادشاہ کی مدد کو ایران، افغانستان اور حتیٰ کہ روس کی افواج نے بھی برصغیر کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔

2014میں داخل ہو جانے کے باوجود ہم اپنے تمام مسائل کی ذمے داری ’’غیروں‘‘ پر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہرگز بھول جاتے ہیں کہ آپ کے ازلی دشمنوں کا کام ہی آپ کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہوتا ہے۔افغانستان میں یقینا اسرائیلی اور بھارتی جاسوس افغانستان انٹیلی جنس کے لوگوں کے ساتھ مل کر ہمارے ملک میں دہشت پھیلانے والوں کی پشت پناہی میں مصروف ہوں گے۔ مگر اہم ترین سوال یہ بھی تو اُٹھتا ہے کہ اپنے دشمنوں کی تمام تر سازشوں کو پوری طرح جاننے کے باوجود ہم ان کے ایجنٹوں کو کراچی ایئرپورٹ جیسے حساس ترین علاقوں میں داخل ہونے سے کیوں نہیں روک پاتے۔ میں جب بھی یہ سوال کرتا ہوں تو اکثر مجھے 9/11  یاد دلا دیا جاتا ہے۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ انسانی اور ٹیکنیکل ذرایع سے دشمنوں کے ارادے اور منصوبے معلوم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھنے کے باوجود امریکا جیسی سپرطاقت 9/11 کو نہ روک پائی۔ اس کے بعد مگر کیا ہوا؟ امریکی انتظامیہ، وہاں کے تھینک ٹینک اور صحافی مسلسل اس بات کو جاننے میں جُت گئے کہ ان کے سیکیورٹی نظام میں وہ کیا بنیادی خامیاں تھیں جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے 9/11 ہو سکا۔ وہ اس تلاش میں مگن رہے۔

مگر ہمارے ہاں ’’دفاعی تجزیہ کاروں‘‘ کا ایک بڑا اور مؤثر گروہ ہمیں شدت سے سمجھاتا رہا کہ 9/11 امریکا نے خود کروایا تھا تا کہ اس سے پیدا ہونے والے اشتعال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان پر قبضہ کیا جا سکے۔ ہمارے لوگوں کی بے تحاشہ اکثریت تو ابھی تک یہ ماننے کو بھی تیار نہیں کہ 2 مئی2011کی رات ایبٹ آباد کے جس گھر میں امریکی کمانڈو در آئے تھے وہاں اسامہ بن لادن نام کا کوئی شخص اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ شتر مرغ کی طرح خطرے کے وقت ریت میں سر چھپا لینا اور بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا آپ کو حقیقی معنوں میں کوئی تحفظ ہرگز فراہم نہیں کر سکتا۔

گزشتہ چند ماہ سے یہ بات عیاں ہو چکی تھی کہ اگر شمالی وزیرستان میں کسی آپریشن کی حقیقی تیاریاں شروع ہوئیں تو پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیلے ہوئے Sleepers Cells یکدم متحرک ہو کر لوگوں کو خوفزدہ کرنا شروع کر دیں گے۔ ’’آپریشن‘‘ سے کہیں زیادہ اہمیت لہذا اس بات کی تھی کہ ٹھوس اطلاعات اکٹھا کر کے ان Cells کو ہر طرح سے کم از کم Degrade ضرور کر دیا جائے۔ چوہدری نثار علی خان نے چند ماہ پہلے بڑے جوش و خروش سے جو قومی سلامتی پالیسی قومی اسمبلی میں پیش کی تھی اس کا اصل ہدف ہمیں یہ ہی بیان کیا گیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہماری 26 کے قریب ایجنسیاں ایک اعلیٰ ترین ڈائریکٹوریٹ تک اپنی حاصل کردہ تمام معلومات پہنچایا کریں گی۔ ان اطلاعات کے پیشہ وارانہ تجزیے کے بعد مشکوک افراد کی گرفتاریاں ہوں گی جنھیں تحفظ پاکستان کے نام پر بنائے قانون کے تحت کئی دنوں تک حراست میں رکھ کر تفصیلی تفتیش وغیرہ کی جائے گی۔

چوہدری نثار علی خان کی متعارف کردہ پالیسی کو منظر عام پر آئے کئی دن گزر چکے ہیں۔ اس دوران میں نے میڈیا یا عوامی نمایندوں کو ایک بار بھی یہ معلوم کرنے کی لگن میں مبتلا نہیں پایا کہ مجوزہ اعلیٰ ترین ڈائریکٹوریٹ کا باقاعدہ قیام عمل میں آ گیا ہے یا نہیں۔ قوم بہت دنوں تک مذاکرات۔ مذاکرات وغیرہ کے تماشے دیکھنے میں مصروف رہی۔ پھر قربانی کی عید سے پہلے قربانی کی باتیں ہونا شروع ہو گئیں۔ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہو گیا۔

قومی سلامتی پالیسی کے دوران بڑی گھن گرج کے ساتھ ہمارے ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ کراچی ایئرپورٹ پر اتوار کی رات ہونے والے واقعات جیسے معاملات سے نمٹنے کے لیے ایک سریع الحرکت فورس بنائی جائے گی۔ مجھے خبر نہیں کہ وہ فورس بن چکی ہے یا نہیں۔ کراچی کے معاملات کو اب بھی بنیادی طور پر رینجرز کے افسران ہی دیکھ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں گزشتہ دس دنوں سے پولیس کے ساتھ ساتھ اسی فورس کی گاڑیاں بھی گشت کرتی ہیں۔

ناکوں پر آپ کے منہ سونگھے جا رہے ہیں اور کئی صورتوں میں آپ کے ساتھ بیٹھی خواتین کے ساتھ تعلق کو بھی ثبوتوں کے ساتھ بیان کرنے کی اذیت سے گزرنا پڑھ رہا ہے۔ کوئی شخص یہ بات سمجھ کر ہی نہیں دے رہا کہ ایک انتہائی تربیت یافتہ تخریب کار رات گئے ’’مشکوک‘‘ حالات میں اسلام آباد کی سڑکوں پر گھومتا نظر نہیں آئے گا۔ اس کی اصل تربیت ہی یہ ہے کہ عوام کو سمندر سمجھ کر اس میں ایک مچھلی کی صورت گم ہو جاؤ۔ کسی صورت ’’نمایاں‘‘ ہونے کی کوشش نہ کرو۔

کراچی ایئر پورٹ پر ہونے والے واقعے کے دوران میری آنکھیں چوہدری نثار کی سریع الحرکت فورس کو کئی گھنٹوں تک ڈھونڈتی رہیں۔ ہمیں بھیانک نقصانات سے بالآخر پہلے سے موجود اداروں سے متعلقہ افراد نے اپنی جانوں پر کھیل کر ہی بچایا۔ ان کی ہمت اور جرأت کو سلام۔ مگر Preemptive معلومات کہاں تھیں اور ابھی تک ہماری مختلف فورسز کے پاس وہ آلات کیوں نہیں تھے جو رات کے اندھیرے میں تخریب کاروں کو ڈھونڈ کر انھیں Sharp Shootings کے ذریعے مفلوج کر سکتے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔