انتہا پسندی اور دہشت گردی

زمرد نقوی  پير 1 اپريل 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

یہ مارچ کا ہی مہینہ تھا اور سال تھا1948۔ مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت رکھنے والے وژنری سیاستدان جو قائد اعظم کے ساتھی تھے اور بعد میں وزیر اعظم بھی بنے، انھوں نے قیام پاکستان کے فوراً بعد خبردار کیا تھا اس ملک میں ایسے فیصلے اور اقدامات نہ کیے جائیں جن کو بنیاد بنا کراسلام خطرے میں ہے پاکستان خطرے میں ہے کے نعرے سیاست و قانون بن جائیں۔

یہ تھے حسین شہید سہروردی۔ ان کے بقول ’’ایک ایسی ریاست جسے آپ اپنے ساتھ آزاد ہونے والی ریاست انڈیا کے ساتھ تصادم کی آگ لگا کر قائم رکھیں گے‘ اس ریاست میں ہمہ وقت خطرے کی گھنٹی بجتی رہے گی۔انتہا پسندی بتدریج پھیلتی چلی جائے گی۔ تم سمجھتے ہو کہ تم اس سے بچ جاؤ گے لیکن اس حالت میں نہ معیشت ہوگی نہ کاروبار اور نہ تجارت۔‘‘

دوسری بات جو انھوں نے کہی جس پر اس عظیم لیڈر کو آج بھی داد دینے کو دل چاہتا ہے کہ تقسیم ہند کے فوراً بعد ہونے والے فسادات کے خلاف خبردار کرتے ہوئے سہروردی نے کہا تھا کہ’’ اس طرح کے طرز عمل سے قانون کی حکمرانی ختم ہو جائے گی اور وہ قانون شکن عناصر جو آج متحد ہیں بعد میں ایک دوسرے کے خلاف ہو جائیں گے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کو بروقت خبردار کیا جائے۔‘‘ اور آج حرف بہ حرف بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔

شدت پسندی پورے پاکستان میں ننگا ناچ رہی ہے۔ا سے کہتے ہیں وژنری لیڈر۔ افسوس صد افسوس ایسے تمام محب وطن مخلص دیانت دار ایماندار لیڈروں کو قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی مقامی قوتوں نے اپنے عالمی سرپرستوں کے تعاون سے پاکستان کی سیاست سے نکال باہر کیا۔ ان کی جگہ یونینسٹ پارٹی کے لوگوں نے لے لی جو راتوں رات مسلم لیگی بن گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو انگریز راج کے وفادار تھے اور قیام پاکستان کے مخالف تھے‘ ان کی وفاداری پاکستان کے ساتھ کبھی بھی نہ تھی۔ یہ پاکستان سے زیادہ انگریزوں کے وفادار تھے۔

ان کی وفاداری انگریز سامراج سے اس لیے تھی کہ انگریز سامراج نے ان کو خطے میں اپنے طویل المیعاد سامراجی مفادات کے لیے تخلیق کیا تھا۔ پاکستان کے قیام کو پون صدی سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ یہ آج بھی انگریز کی جگہ لینے والے امریکی سامراج کے اتحادی ہیں۔ کیونکہ ان کی بقا ہی اس میں ہے۔ برسوں پہلے پاکستان کی ایک اہم شخصیت کی یہ کہی ہوئی بات مجھے نہیں بھولتی کہ ہم آج بھی ملکہ برطانیہ کو اپنا حکمران سمجھتے ہیں۔

سامراج نے پاکستان میں جو نظام قائم کیا تھا اب وہ لرزہ براندام ہے۔ پاکستانی قوم پر اس کی حقیقت کھل چکی۔پاکستانی قوم کے سامنے حقیقت پوری طرح بے نقاب ہو گئی ہے۔ اب اس ظالمانہ استحصالی نظام کی برہنگی چھپائے نہیں چھپتی۔ بے پناہ ظلم جبر تشدد، استحصال نے اس نظام کو وقت سے پہلے اپنے انجام کو پہنچا دیا ہے۔

یہ بھی مارچ کا ہی مہینہ تھا اور سال 1949جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی قرار دار مقاصد دستور ساز اسمبلی میں منظور ہوئی اور یہاں سے پاکستان کو فلاحی ریاست کے بجائے مذہبی اور سیکیورٹی ریاست میں ڈھالنے کا عمل شروع ہو گیا۔ اس کے لیے جہاں اور بہت سے کام کیے گئے اندرونی بیرونی قوتوں نے وہاں مذہب کو بطورسیاسی ہتھیار استعمال کرنے کافیصلہ کر لیا گیا۔

ویسے بھی لوہا گرم تھا۔ مذہب کی بنیاد پر برصغیر کی تقسیم ہو چکی تھی۔ یہی وہ سامراجی ایجنڈا تھا جس کے تحت پاکستان میں انتہا پسندی کو مرحلہ وار بڑھانا تھا ‘ یوں وہ طبقہ پاکستانی سیاست میں زندہ ہو گیا جنھوں نے قیام پاکستان سے پہلے ہر ممکن سازش کی کہ پاکستان وجود میں نہ آسکے۔ اور یوں قائداعظم کی 11اگست 1947 کی تقریر پر بھی عمل نہ ہوا جس میں اور بہت سی شاندار باتوں کے علاوہ جس پر عملدرآمد سے پاکستان کا مستقبل انتہائی تابناک ہوتا کہ پاکستان تھیوکریٹک ریاست نہیں ہوگی۔

لیکن افسوس صد افسوس اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ قائد اعظم کو پاکستان دشمن قوتیں آخر کار اپنے رستے سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئیں۔ کیونکہ قائد اعظم کا وجود ان کے سامراجی ایجنڈے کی تکمیل میں بہت بڑی رکاوٹ تھا۔

آخر کار وہ وقت آگیا جب امریکی سامراج نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں محاذ کھولا۔ اس میں ان مذہبی قوتوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا جن کی پرورش انگریز سامراج نے کی تھی۔ پاکستان کے قیام سے لے کر افغان جہاد تک وہ طویل عرصہ تھا جب پورے خطے میں مذہبی جنونیت کا جن بوتل سے باہر نکل آیا۔

ادھر بھارت میں ہندو بنیاد پرستی کا جن بی جے پی کی شکل میں سامنے آگیا۔ بی جے پی نے اس ہندو بنیاد پرستی کو جنم دیا جس نے بھارت میں سیکولرازم کا جنازہ نکالتے ہوئے وہاں بیس کروڑ مسلمانوں کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا۔ اب برصغیر کا مستقبل آیندہ کئی دہائیوں تک مذہبی جنونیت اور دہشتگردی سے عبارت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔