عید اور غزہ کے یتیم بچے

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 13 اپريل 2024

عید کا دن مسلمانوں کی خوشی کا سب سے بڑا تہوار ہوتا ہے۔ اس سال خوش قسمتی سے تقریباً تمام اسلامی ممالک نے اور غیر اسلامی ممالک کے مسلمانوں نے بدھ کو عید الفطر کی نماز ادا کی۔ عید کی مبارکبادیں دی گئیں۔ طرح طرح کے پکوان پکائے گئے اور کھائے گئے خوب مہمان نوازیاں ہوئیں اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، کیونکہ پاکستان میں عید کا سماں سرکاری چھٹیوں تک جاری رہتا ہے۔ بچوں کی عید کا سلسلہ ان کے اسکول جانے تک جاری رہتا ہے۔

عید ملنے ملانے کا سلسلہ خوب زور شور سے جاری ہے، لیکن اس سال کی عید بہت مختلف ہے۔ رفح کے بچوں کی فریاد ہے کہ اس عید پر ہمیں ملنے کوئی نہیں آئے گا۔ عید تو گزر گئی لیکن غزہ کے بچوں، مرد و خواتین پر کیا گزر رہی ہے، معصوم یتیم بچے بچیاں شاید سوچ رہے ہوں گے آج تو میری امی آئیں گی، آج تو میرے ابو آئیں گے۔ ماں مجھے سینے سے لگائے گی، ابو گود میں اٹھائیں گے، بہن بھائی مجھے آ کر ملیں گے، آپی میرا ماتھا چوم لے گی، بڑے بھائی جان مجھے کندھے پر بٹھا لیں گے، لیکن عالم اسلام کو خبر تو ہوگئی ہوگی کہ روتے بلکتے بچوں کو 6 ماہ سے زائد گزر گئے ابھی تک غزہ خون سے نہا رہا ہے، کیونکہ اسرائیل کو معلوم ہے کہ ’’او آئی سی‘‘ ابھی سکتے کے عالم میں ہے۔

عالم اسلام کی بے حسی کو دیکھ کر اسرائیل اپنی بربریت سے باز نہیں آ رہا۔ وہ بھی تو ممالک ہیں جن کے امدادی کارکن غزہ میں امداد پہنچاتے ہوئے ہلاک ہوئے، ان ملکوں نے اپنے ایک ایک ہلاک ہونے والوں کے لیے وہ ہنگامہ کھڑا کیا کہ اسرائیلی صدر کو معذرت کرنا پڑی۔ امریکی صدر نے بھی چند ہلاکتوں کی مذمت کی۔ یہ بھی عجیب انسانیت ہے۔ اللہ تعالیٰ فلسطینیوں کی مدد فرمائے اور کشمیری مسلمانوں کی بھی مدد فرمائے۔

یتیم بچے کس معاشرے اور کس ملک میں نہیں، لیکن پاکستان میں یہ تعداد نصف کروڑ کے برابر ہے۔ اگرچہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان بچوں کی تعداد ملک بھر میں 46 لاکھ بتائی جاتی ہے اور عید تو دیگر بچوں کی بھی ہوتی ہے اور ان یتیم بچوں کی عید کرانا ان کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنا یہ ہر صاحب حیثیت پاکستانی کا فرض ہے۔ پاکستان میں بچوں کے سر سے والد کا سایہ اٹھ جائے تو غریب ماں گھر گھر جا کر برتن دھو کر کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کو روٹی کھلا کر گزر بسر کر لیتی ہے، کہیں معاشرہ ایسی ماؤں کو جینے نہیں دیتا۔ عزیز رشتے دار سب منہ موڑ لیتے ہیں اور اگر والدین میں سے دونوں ہی گزر جائیں تو عجیب ماجرا پیش آتا ہے۔

کچھ دور پرے کے رشتے دار آ جاتے ہیں اور گھروں میں کام کاج کے لیے پسند کے بچے بچیاں لے جاتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں روتے سسکتے سڑکوں گلیوں میں اپنے دن گزارتے گزارتے کچھ بڑے ہو جاتے ہیں تو مافیا ان کی سرپرستی کرنے لگ جاتا ہے۔ ان سے بھیک منگوائی جاتی ہے، کتنوں کے ہاتھ پیر توڑ دیے جاتے ہیں یا ان پر زخم لگا کر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ اکثر چوراہوں، سڑکوں، شاہراہوں پر ہم یہ دیکھتے رہتے ہیں لیکن کسی طرح کا کوئی حل نہیں سوچا جاتا۔ ایک بچے کے بارے میں، میں نے سنا لیکن ایسے کئی بچے ہوں گے کہ ماں نے دوسری شادی کی خاطر اپنے بچے کو یتیم خانے میں داخل کرا دیا، جہاں بچہ کہہ رہا تھا ’’ماں! تم بہت یاد آتی ہو۔‘‘ ان یتیم بچوں کو اپنے ماں باپ عید کے موقع پر بڑی شدت سے یاد آتے ہیں۔ بھائی بہن یاد آتے ہیں، دیگر عزیز رشتے دار یاد آتے ہیں۔

حکومت کہتی ہے کہ اس نے بہت سے یتیم خانے بنا ڈالے ہیں، بہت سے افراد اپنے طور پر بھی یتیم خانے چلا رہے ہیں اور ملک کی کئی تنظیمیں بھی یتیم خانے بڑے احسن طریقے سے چلا رہی ہیں۔ جہاں ان بچوں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے ان کی تعلیم و تربیت اور خوراک، رہائش، پوشاک کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ یتیم بچے ملک میں 46 لاکھ ہوں یا نصف کروڑ۔ بات تو یہ ہے کہ کتنے بچوں کو ایسی سہولیات میسر ہوں گی؟ 15 لاکھ 20لاکھ یا شاید 25 لاکھ۔ اب بھی نصف یا اس سے کم بچے ایسے ہیں جو سڑکوں، چوراہوں، شاہراہوں پر دیکھے جا سکتے ہیں، ان کی حالت دیکھتے ہوئے بہت سے افراد دل گرفتہ بھی ہو جاتے ہیں۔ بہت سے اشک بار بھی ہو جاتے ہیں۔

ان میں بہت سے بیمار بھی ہوتے ہیں۔ نحیف و کمزور بھی ہوتے ہیں۔ عید والے روز انھوں نے اپنے ہاتھ پھیلا رکھے ہوتے ہیں، کاش کوئی ان کا بھی پرسان حال ہوتا۔ ان کی عید کیسے گزر رہی ہے، ہم سب کو سوچنا چاہیے ہمارے ارد گرد آس پاس اِدھر اُدھر یہاں وہاں اور نہ جانے کہاں کہاں یہ بچے رل رہے ہیں۔ شدت کی گرمی بھی سہہ رہے ہیں، شدید سردی میں ان کے جسم اکڑ رہے ہیں، بھوک کی شدت بھی ہے، پیاس بھی ہے، اکثر کوڑے دانوں سے اپنے لیے کچھ خوراک تلاش کر لیتے ہیں۔

آخر میں ایک گزارش کروں گا بہت سے گھرانے ایسے دیکھے جہاں بچے ملازم ہوتے ہیں، بچیاں ملازم ہوتی ہیں، غریب ماں اپنے بچوں کی اچھی خوراک کی خاطر ان کو ملازم رکھوا دیتی ہے تو ایسے تمام افراد پر فرض ہے کہ ان کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کیا جائے۔

انھیں کم از کم قرآن پاک کی تعلیم اور دیگر اسلامی علوم سکھا دیے جائیں کچھ لکھنا پڑھنا بھی سکھا دیا جائے آپ یقین کریں وقت تو گزر جائے گا وہ بھی بڑے ہو کر کہیں اور چلے جائیں گے لیکن آپ کی یہ نیکی وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ نماز میں تلاوت کرکے آپ کے لیے دعا کریں گے۔ مرنا تو ہر شخص نے ہے لیکن مجھ سمیت ہم سب کو فکر آخرت بھی کرنی چاہیے، اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ (آمین۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔