رعونت

محمد سعید آرائیں  جمعرات 18 اپريل 2024
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

سرکاری اداروں کے ملازمین کے لیے وردیاں مختص ہیں اور مختلف اقسام کی وردیوں کا پہننا ان کے ملازمین کے لیے لازمی ہے ، یہ وردیاں ان کی شناخت بھی ہیں جو انھیں اکثر سرکاری طور پر فراہم کی جاتی ہیں جو مختلف ٹھیکیدار انھیں فراہم کرتے ہیں جن کے کپڑے کا معیار قانون کے مطابق نہیں ہوتا مگر کمیشن اور باہمی ملی بھگت کے تحت ان ٹھیکیداروں کو ادائیگی کر دی جاتی ہے اور بعض محکموں میں غیرمعیاری کپڑوں سے بنائی گئی وردیاں بھی ہوتی ہیں جیسے پولیس کی وردی کے بارے میں مشہور ہے اور اکثر غریب، ایماندار اور کمائی کی جگہوں پر تعینات سپاہی انھیں پہننے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی محدود تنخواہیں انھیں بازار سے معیاری کپڑا خرید کر وردی سلوانے اور پہننے کی اجازت نہیں دیتیں۔

پولیس کے بڑے افسر اور بعض پولیس ملازمین غیر معیاری کپڑے کی بنی وردی کے بجائے بازار سے کپڑا خرید کر وردیاں سلواتے ہیں مگر یہ سرکاری طور پر ملی ہو یا بازار کے معیاری کپڑے کی وردی ہو سب سرکاری ہوتی ہیں جن کا احترام عوام کے لیے ضروری اور ان پر ہاتھ لگانا بھی جرم بنا دیا جاتا ہے اور وردی پہنے پولیس اہلکار کو اگر کوئی شخص ہاتھ بھی لگا دے تو اس پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ بن جاتا ہے اس لیے لوگ محتاط ہی رہتے ہیں کہ کسی وردی والے کی وردی پر اس کی انگلی بھی نہ لگے۔ وردی پہنے اہلکار اگر لوگوں پر کھلے عام تشدد کریں۔

انھیں گریبان سے پکڑ کر کھینچیں اور دھکے دیتے ہوئے پولیس کی سرکاری گاڑیوں میں جبری طور پر ٹھونسیں، کوئی انھیں روکنے کی جرأت نہیں کرتا اور پولیس کی طرف سے ایسے مناظر نظر آنا عام ہو چکے ہیں اور لوگ ڈر کے مارے مزاحمت بھی نہیں کرتے اور پولیس کے ہاتھوں سرعام بھی پٹتے رہتے ہیں اور بے عزتی کرانے پر مجبور ہیں جب کہ پولیس تھانوں اور پولیس کے نجی عقوبت خانوں میں لوگوں سے جو وحشیانہ اور غیر انسانی سلوک غیر قانونی طور پر کیا جاتا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں ہوتا بلکہ پولیس کے دیگر سپاہی پر اپنے ہاتھ صاف کرنا اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔

تھانوں اور پولیس کے عقوبت خانوں میں پکڑے گئے لوگوں پر اس قدر تشدد کیا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو جائے تو پولیس کی طرف سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ بیمار تھا یا اس پر دل کا دورہ پڑا تھا۔ پولیس تشدد سے زیادہ زخمی ہو جانے والوں کو پولیس فوری طبی امداد کے لیے خود اسپتال نہیں پہنچاتی تاکہ میڈیکل رپورٹ میں اس پر پولیس کا تشدد ثابت نہ ہو جائے۔

پولیس غیر قانونی تشدد کے بعد اسے اس کے لواحقین کے مشروط طور پر حوالے کر دیتی ہے یا رات کے اندھیرے میں اسے زخمی حالت میں کسی ویرانے میں پھینک آتی ہے جہاں ان کی موت تک واقع ہو جاتی ہے اور اس کے لواحقین کو اپنے بندے کا پتا بھی نہیں چلتا اور نہ تشدد کرنے والے پولیس اہلکاروں کا پتا چلتا ہے کہ وہ کس کے عتاب کا نشانہ بنا ہے۔

تھانوں اور عقوبت خانوں کے خفیہ تشدد کے علاوہ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ شاہراہوں پر دن ہو یا رات پولیس لوگوں پر فائرنگ کر کے انھیں زیادہ تر ہلاک یا زخمی کر دیتی ہے اور جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ پولیس کے روکنے پر نہیں رکا یا اس نے پولیس پر فائرنگ کی خواہ اس کے پاس اسلحہ نہ ہو اور وہ مر جائے تو پولیس اپنے پاس سے کوئی ہتھیار اس کی انگلیوں میں اٹکا دیتی ہے یا قریب ڈال دیتی ہے اور اسے ڈاکو قرار دے دیتی ہے کہ مقابلے میں مارا گیا۔

جعلی مقابلوں میں بے گناہوں کو خود مارنے کا ریکارڈ بھی موجود ہے جو سزا سے بچ جاتے ہیں۔ ایس پی، ڈی ایس پی اور انسپکٹر سطح کے لوگ بھی جعلی مقابلوں میں ہلاکتوں پر پکڑے گئے اور اکثر سزاؤں سے محفوظ رہے یا باعزت ریٹائر ہوگئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔