- عالمی برادری فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ جارحیت بند کروائے، سعودی عرب
- ٹی20 ورلڈکپ؛ وارم اَپ میچز کا شیڈول جاری
- 2000 سے زائد جگسا پزل اکٹھا کرنے کا ریکارڈ
- کیریبیئنز آج بھی سوئنگ کے سلطان ’وسیم اکرم‘ کے سحر میں مبتلا
- سبزی خوروں کی غذاؤں اور بہتر صحت کے درمیان تعلق کا انکشاف
- گوگل کا اینڈرائیڈ صارفین کیلئے سیکیورٹی فیچر متعارف کرانے کا اعلان
- روہت شرما پاکستانی مداح کے پیغامات پر مسرور
- کوچ بابر کو توقعات کے بوجھ سے آزاد کرائیں گے
- گرمی کی شدت میں اضافہ، وفاقی تعلیمی اداروں کے اوقات تبدیل
- ٹی20 ورلڈکپ، شعیب ملک نے ٹیم سے بلند توقعات وابستہ کرلیں
- کراچی کے علاوہ لاہور، ملتان کی ٹمبرمارکیٹ بھی احتجاجاً بند کرنیکا اعلان
- 10ماہ میں تجارتی خسارے میں 16.55 فیصد کمی ریکارڈ
- موقف پر کھڑاہوں، گردن کٹوادوں گا، پیچھے نہیں ہٹوں گا، فیصل واوڈا
- پاکستان میں زراعت، آئی ٹی میں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں، اسحق ڈار
- پاکستان کا چین کے توانائی قرضوں کی تجدید پر غور، تجاویز تیار
- ڈیوٹی، ٹیکسز ادائیگی پر 248 موبائل ڈیوائسز ان بلاک
- دلِ مردہ دل نہیں ہے۔۔۔۔۔ !
- حجِ بیت اﷲ کی شرائط، فضیلت و برکات
- جج کی دہری شہریت پر ایم کیو ایم، ن لیگ اور آئی پی پی اراکین قومی اسمبلی کی تنقید
- مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا
اقوام متحدہ مبصر نے اسرائیل کو جنگی جرم کا مرتکب قرار دے دیا
لندن: برطانوی میڈیا نے اسرائیلی فوجی کے ہاتھوں فلسطینی بچے کے قتل پر تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی جس کا جائزہ لینے کے بعد اقوام متحدہ مبصر نے اسرائیل کو جنگی جرم کا مرتکب قرار دے دیا۔
بی بی سی کے مطابق 29 نومبر 2023ء کو مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کرکے 2 بچوں 15 سالہ باسل اور 8 سالہ آدم کو شہید کردیا تھا۔
بی بی سی نے اس واقعے کے تناظر میں مغربی کنارے میں اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے طرز عمل کی انکوائری کی، جس میں موبائل فون اور سی سی ٹی وی فوٹیج، اسرائیلی فوج کی نقل و حرکت کی معلومات جمع کی گئیں، گواہوں کے بیانات لیے گئے اور جائے وقوعہ کی تفصیلی تحقیقات کی گئیں جس میں پیمائش تک شامل تھی، ان سب معلومات سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے شواہد ملے ہیں۔
بی بی سی کو ملنے والے شواہد کا جائزہ لینے کے بعد اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی بین ساؤل یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آدم کی موت ایک “جنگی جرم” نظر آتی ہے۔
ایک اور قانونی ماہر ڈاکٹر لارنس ہل کاوتھورن نے اس واقعے کو اسرائیل کی جانب سے ہلاکت خیز طاقت کا “اندھا دھند” استعمال قرار دیا۔
7 اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے کے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ بی بی سی کو ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ فلسطینیوں کے گھروں پر حملے کیے جارہے ہیں، انہیں دھمکایا جارہا ہے اور فلسطین سے اردن ہجرت کرنے کےلیے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔
29 نومبر کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ باسل اور آدم سمیت کچھ بچے ایک بند دکان کے پاس کھڑے ہیں تو اچانک وہاں سے گزرنے والے اسرائیلی فوجی قافلہ کا رخ ان بچوں کی طرف ہوتا ہے، بچے ڈر کر وہاں سے بھاگنے لگتے ہیں تو اچانک ایک اسرائیلی فوجی اپنی بکتر بند گاڑی کا دروازہ کھول کر اور بچوں پر برسٹ کھول دیتا ہے، جس میں دونوں بچے شہید ہوجاتے ہیں۔ 11 گولیاں چلائی جاتی ہیں۔
بی بی سی کے مطابق میڈیکل رپورٹس میں بتایا گیا کہ باسل کے سینے میں دو گولیاں لگیں جبکہ 8 سالہ آدم کے سر کے پچھلے حصے میں ایک گولی لگی۔
بی بی سی نے جائے وقوعہ کی اپنی تحقیقات کے شواہد کو متعدد آزاد ماہرین کے ساتھ شیئر کیا جن میں انسانی حقوق کے وکلاء، جنگی جرائم کے تفتیش کار اور انسداد دہشت گردی کے ماہرین ، اقوام متحدہ اور دیگر غیر جانبدار اداروں کے ارکان بھی شامل تھے۔
تمام ماہرین نے اس واقعے کی تحقیقات کروانے پر اتفاق کیا اور کچھ نے کہا کہ اس واقعے میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نظر آتی ہے۔
دوسری طرف اسرائیلی فوج نے الزام لگایا کہ باسل نے ہاتھ میں کوئی دھماکہ خیز چیز پکڑ رکھی تھی۔
انسانی حقوق اور انسداد دہشت گردی کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی بن ساؤل نے کہا کہ اگر باسل کے پاس دھماکہ خیز مواد تھا تو اس بارے میں سوالات کیے جاسکتے ہیں کہ آیا اس کے خلاف قانونی طور پر مہلک طاقت کا استعمال کیا جا سکتا تھا، لیکن جہاں تک آدم کا تعلق ہے اسے قتل کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔