برگدکی جٹیں، ایک مطالعہ

نسیم انجم  اتوار 5 مئ 2024
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

میں جناب فیروز ناطق خسرو کو شاعری کے حوالے سے عرصہ دراز سے جانتی ہوں، قادر الکلام شاعر ہیں، ان کے دس شعری مجموعے اشاعت کے مرحلے سے گزر چکے ہیں، اب ایک نیا انکشاف بھی ہوا ہے جس سے میں ناواقف تھی لیکن ان کے دوست احباب انہیں افسانہ نگارکی حیثیت سے ضرورت جانتے ہونگے، مجھے اس وقت بڑی حیرت ہوئی جب ان کے افسانوں کا مجموعہ بعنوان ”برگد کی جٹیں“ موصول ہوا، افسانوں کے مطالعے نے مجھ پر یہ بات واضح کردی کہ وہ بہت اچھے افسانہ نگار ہیں۔

ان کے افسانے دیرپا اثر رکھتے ہیں یہ افسانے علم وآگہی اور تجربات کی روشنی میں لکھے گئے ہیں، افسانوں کی بنت اور اسلوب بیان دلکش اور قابل تحسین ہے وہ ایک پختہ کار افسانہ نگار ہیں تحریرمیں شائستگی اور سادگی پنہاں ہے، یہ خوبی بھائی خسروکی شخصیت کی عکاس ہے وہ بھی نرم خو اور تہذیب یافتہ انسان ہیں، اس ہی وجہ سے ان کی تحریر صبح صادق کی طرح نکھری نکھری اور افسانے کے لوازمات سے مرصع ہے۔

ماحول سازی، مکالمہ نگاری، منظرکشی کو احاطہ تحریر میں لانے میں وہ ید طولیٰ رکھتے ہیں،کسی بھی جگہ تشنگی کا احساس نہیں ہوتا ہے، وہ فنی باریکیوں کے ساتھ لکھتے ہوئے انجام تک پہنچ جاتے ہیں، تجسس اور پیچ وخم کی فضا برقرار رہتی ہے، یہ افسانے قاری کے لیے تسکین کا باعث ہیں، اس کا مزہ تادیر دل ودماغ میں قائم رہتا ہے، مذکورہ کتاب سے قبل ان کی کتاب کند قلم کی ”جیسھ“ جو مضامین، تبصرے اور افسانوں پر مشتمل ہے2017 میں شائع ہوچکی ہے۔

خسرو صاحب کے لکھنے کی ابتدا کس طرح ہوئی، یہ ان کی ہی زبانی سنتے ہیں، ان کے مضمون کا عنوان ہے”قلم کہانی“ اس ہی مضمون سے چند سطور ”میں باقاعدہ کہانی نویس نہ افسانہ نگار، البتہ پڑھنے لکھنے کا جنون بچپن ہی سے ہے، ایک دن ابا سے کہا کہ میری کہانی سنیے، ابا نے کہا سناؤ،کہانی سن کر وہ بہت خوش ہوئے، بچوں کے صفحے پر چھپ بھی گئی، یہ میری پہلی نثری کاوش تھی،گرمیوں کی چاندنی راتوں میں گھرکے صحن میں جب سب سوجاتے تو میں ”الف لیلہ“ پڑھا کرتا، ایک دن اس چوری پر پکڑاگیا، ”الف لیلہ“ ضبط ہوگئی، ابا نے میرا شوق دیکھتے ہوئے خیرپور پبلک لائبریری کا ممبر بنوا دیا، میٹرک کے بعد شاعری کی زلفِ گرہ گیر نے ایسا جکڑا کہ آج تک نکل نہ پایا۔“

بے شک تخلیقیت کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے اور یہ وہ نشہ ہے جو آخری سانس تک قائم رہتا ہے تو بھائی خسرو تخلیق کے اعتبار سے بے حد فعال قلمکارہیں ِ جم کر لکھتے ہیں اور بہت خوب لکھتے ہیں، صفحہ قرطاس کے علاوہ فیس بک کے منظر نامے پر بھی چھائے ہوئے ہیں۔ افسانوں کے مجموعے کی اشاعت نے ان کی ایک نئی جہت کو طشت ازبام کردیا ہے اور یہ بات قابل تحسین ہے۔

افسانوں کے مطالعے کے بعد اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہوا کہ یہ افسانے تجربے کی آنچ اور سچائی کی روشنی سے گندھے ہوئے ہیں، معاشرتی مسائل،گھریلو کشیدگی، متضاد کرداروں کے پس منظر میں انہوں نے کہانیاں تخلیق کی ہیں اورکرداروں کے باطن میں اترکر قلم سنبھالا اور اس کا حق دیانت داری کے ساتھ ادا کیا ہے، تب ہی یہ افسانے اپنے اپنے سے لگتے ہیں۔

ہر افسانے کا علیحدہ ذائقہ ہے، قاری مختلف تاثر سے گزرتا ہے، وہ کرداروں کی ذہنی اذیت اور دلی خوشی میں خود بھی شامل ہوجاتا ہے، یہ ہی ایک اچھے اورکامیاب افسانے کی دلیل ہے کہ افسانہ اور اس کا قاری گھل مل جائے، کتاب کے کئی افسانے قابل رشک ہیں، جن میں بلیک آؤٹ، نیکلس، نئی عورت، آنگن بیچ دیوار، صبح کا بھولا ”نیکلس“، ایک بہترین اور شاہکار افسانہ ہے، خوشی، غم، محرومی، ناکامی کے گہرے سائے، تفکرکی فضا کو پروان چڑھاتے ہیں، اس افسانے میں والد صاحب کا کردار منفی اندازکے طور پر سامنے آیا ہے، ایسے ہٹ دھرم، انا پرست حضرات اپنے ہی گھرکا ماحول خراب کر دیتے ہیں۔

مصنف نے معاشرتی محرومیوں اور دکھوں کو افسانوں کی شکل میں خوبصورتی کے ساتھ ڈھالا ہے۔ تخلیق کسی بھی رنگ میں لکھی جائے تو یہ چاہتی ہے اس کے بغیر کامیابی کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے۔

تخلیق کارکی حیثیت ایک باغبان کی سی ہے وہ اپنے پودوں کو پروان چڑھانے کے لیے صبح وشام محنت کرتا ہے تب کہیں بیچ اگتا ہے، ننھے پودے تناور درخت میں بدل جاتے ہیں، تخلیق کا عمل بھی ایسا ہی ہے، انہی اصولوں کو ایک اچھا لکھاری اپناتا ہے اور پھر بہت جلد کامیابی اسے خوش آمدید کہتی ہے۔

میں نے کتاب کے سب تو نہیں، لیکن دس بارہ افسانے توجہ اور خلوص کے ساتھ پڑھے ہیں، یقین جانیے یہ افسانے مکمل اور بھرپور ہیں، ابلاغ کا مسئلہ اور نہ ہی دلچسپی اور توانائی سے خالی ہیں، افسانوں کی ایک خوبی کفایت لفظی بھی ہے وہ نپے تلے الفاظ میں اپنی بات کہنے کا فن جانتے ہیں، فہم وادراک اور سماجی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے جب کوئی فن پارہ وجود میں آتا ہے تب اس کا اثرگہرا اور پکا ہوتا ہے، ایسی ہی تحریریں دل سے لکھی جاتی ہیں اور دل میں اترتی ہیں، مجموعے کے افسانے قارئین کے لیے سبق بھی ہیں اورگلستان ادب میں اضافے کا باعث بھی، اس قدرکامیاب اور پر تاثیر افسانوں کی تخلیق پر میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں اور دعا گو ہیں، اس ہی طرح ان کے قلم کی سیاہی ترو تازہ رہے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔