ملکی سلامتی و دفاع مقدم ہے

ایڈیٹوریل  جمعـء 10 مئ 2024
سب کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ‘لیکن اس کے باوجود سانحہ9مئی کی تپش ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہے (فوٹو : فائل)

سب کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ‘لیکن اس کے باوجود سانحہ9مئی کی تپش ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہے (فوٹو : فائل)

پاکستان کو جن چیلنجز کا سامنا ہے‘ اس سے ملک کے فہمیدہ حلقے پوری طرح آگاہ ہیں۔ ملک کے اندر سیاست کے نام پر جو انتشار پیدا کیا گیا ہے اور اس انتشار کو مزید گہرا کرنے کی جو تیاری ہو رہی ہے‘ اس سیقومی سلامتی کے ادارے ہی نہیں بلکہ سیاسی قیادت بھی پوری طرح آگاہ ہے۔

ملک کی معیشت کو جو خطرات ہیں ‘وہ بھی ڈھکے چھپے نہیں‘اب تو پاکستان کا عام شہری بھی معیشت پر بات کرتا ہے اور معیشت کیوں زوال پذیر ہے اس کے حوالے سے بھی اسے شعور ہے کہ ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا ‘معیشت بھی بہتر نہیں ہو سکتی۔

گزشتہ روز پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے بھیپریس کانفرنس سے خطاب کیا اوربہت سے گمبھیر اور سنجیدہ معاملات پرگفتگو کی۔انھوں نے صحافیوں کے سوالات کا بڑے مدلل انداز میں جواب دیا۔ سانحہ 9 مئی کے حوالے سے بھی انھوں نے کھل کر اظہار خیال کیا ہے اور سانحہ کے ذمے داروں کو آئین اورو قانون کے مطابق جلد سے جلد سزا دینے کی بات کی ہے۔

سانحہ نو مئی پورے ملک کے لیے افسوس اورصدمے کا باعث بنا ہے۔ سب کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ‘لیکن اس کے باوجود سانحہ9مئی کی تپش ہر جگہ محسوس کی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کا موقف بھی سب کے سامنے ہے جب کہ اسٹیبلشمنٹ کا موقف اور دلیل بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے۔

پاک فوج کے ترجمان نے بھی اس پر دوٹوک انداز میں اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ اب یہ سارے معاملات عدلیہ کے سپرد ہیں۔آئین اور قانون جرائم کے حوالے سے واضح ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ آئین اور قانون متحرک رہے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔

پاکستان میں کوئی بھی شخص اپنے ملک کی فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے عمل کی حمایت نہیں کرتا‘یہاں تک کہ پی ٹی آئی کی قیادت بھی یہی کہتی ہے کہ سانحہ9مئی کے مجرموں کو سزا ملنی چاہیے لیکن سوشل میڈیا پر بعض مخصوص گروہ جنھیں پاکستان کے اندرسے کچھ با اثر حلقوں کی مدد اور تائید حاصل ہے‘وہ پاک فوج اور عدلیہ کی چند شخصیات کے حوالے سے انتہائی منفی اور شرانگیز پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔اسے روکنے کے حوالے سے بھی قوم کا ذہن واضح ہے۔

پاک فوج کے ترجمان نے بھی انھیں انتشاری ٹولا قرار دیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان کی فوج قومی فوج ہے، اس کے اندر تمام مکتبہ فکر کے لوگ ہیں، اس میں تمام رنگ و نسل کے لوگ ہیں، اس کی کوئی سیاسی سوچ نہیں ہوتی، ہم پارلیمانی جمہوری نظام میں ہیں۔

ہر حکومت میں وقت کے ساتھ فوج کا ایک غیر سیاسی مگر آئینی و قانونی تعلق ہوتا ہے،ہمارے لیے تمام سیاسی سوچیں، سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما قابل احترام ہیں۔انھوں نے کہا بات چیت سیاسی جماعتوں کو آپس میں زیب دیتی ہے، اس میں فوج یا ادارے کا ہونا مناسب نہیں۔

پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے اور ماضی قریب میں جو ہوا ہے، وہ عوام کے سامنے ہے، پاکستان کا فہمیدہ و باشعور طبقہ حقائق کو سمجھتا ہے۔ کسی بھی جمہوری ملک میں الیکشن ہوتا ہے تو ووٹرز کسی سیاسی جماعت کے امیدوار کو یہ سمجھ کر ووٹ نہیں ڈالتے کہ اس کی پسندیدہ سیاسی جماعت یا امیدوارکو یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ سرکاری یا نجی املاک کی توڑ پھوڑ کرے ۔ قانون کے مطابق بھی اگر کسی سیاستدان یا سیاسی جماعت پر مقدمات درج ہیں اور اسے بھاری تعداد میں ووٹ پڑ جاتے ہیں ‘تب بھی مقدمات ختم نہیں ہوسکتے ۔

الیکشن لڑنا، ووٹ حاصل کرنا، پارلیمنٹ کا رکن بننا الگ ہے، اس سے جرم معاف نہیں ہوتا۔پاکستان کے سیاستدانوں، بزنس ٹائیکونز، بیوروکریسی، فوجی افسران ‘ ججز ، وزیراعظم، صدر، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر آئینی عہدے آئین و قانون سے بالا تر نہیں ہیں۔قانون کے تحت جوفعل جرم قرار دیا گیا ہے، اس کا ارتکاب کرنے والا قانون کی نظر میںمجرم ہی قرار پائے گا۔اس پر مقدمہ بھی درج ہوگا،پولیس اور عدالت میں پورے قانونی پراسس کے بعد ہی اس کے جرم کے مطابق سزا یا جزا،یابریت کا فیصلہ ہوگا۔

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایک مقبول لیڈر ہیں، صدر جو بائیڈن انتہائی کم مارجن سے ٹرمپ سے جیتے تھے لیکن وہ آج بھی مقدمات بھگت رہے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ امریکی عدالت ان کی عوامی مقبولیت کو ہی ان کی بے گناہی کا ثبوت قرار دے کر انھیں تمام مقدمات سے بری کردے۔دہلی کے وزیراعلیٰ کیجری وال بھی مقدمات بھگت رہے ہیں اور جیل میں ہیں۔حالانکہ وہ عوام کے منتخب وزیراعلیٰ ہیں لیکن عدالت ان کی عوامی مقبولیت کو دیکھ کر انھیں بری نہیں کرسکتی۔

2008 میں صدر آصف زرداری پر بھی مقدمات تھے‘صدر ہونے کی بنا پر انھیں آئینی استثنیٰ تو حاصل تھا لیکن وہ مقدمات اپنی جگہ بدستور قائم رہے۔وہ بعد میں قانونی پراسس کے ذریعے بری ہوئے۔میاں نواز شریف بھی جیل میں رہے ‘4برس لندن میں رہے لیکن ان کے مقدمات بدستور موجود رہے اور انھیں پاکستان میں آ کر دوبارہ قانونی مراحل سے گزر کر بری ہونا پڑا۔اس معاملے میں کوئی عزت یا بے عزتی کا ایشو نہیں ہے ‘ یہ سراسر قانونی معاملات ہوتے ہیں‘ انھیں قانون کے مطابق ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کی سالمیت اور معیشت دونوں کو مشرق اور شمال مغرب سے جو خطرات ہیں، وہ بھی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔افغانستان دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے ۔پاکستان میں دہشت گردی کے اکثر واقعات کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی ہے۔ ٹی ٹی پی کے لوگ آج بھی افغانستان میں آزاد گھوم رہے ہیں، وہاں ان کے دہشت گردی کے تربیتی کیمپ موجود ہیں۔ ٹی ٹی پی کی لیڈرشپ وہاں ہونے والی تقریبات میں شریک ہورہی ہے۔

پاکستان کے اندر سے دہشت گرد گروہوں کو مدد ملنا، قوم کی بدقسمتی ہی کہلا سکتی ہے۔ بلوچستان میں دہشت گرد امن و امان کی صورتحال خراب کر رہے ہیں۔ پاکستان نے افغانستان کی عبوری حکومت کی ہر سطح پر مدد کی لیکن افغانستان کی عبوری حکومت نے وعدوں پر عملدرآمد تاحال نہیں کیا۔

پاک فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں قومی اہمیت کے تقریباً تمام اہم امور پر  گفتگو کی ہے تاکہ عوام و خواص حقائق سے آگاہ ہوں، افواہوں یا بے یقینی کے شکار نہ ہوں۔ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی خطرات سب کے سامنے ہیں۔ بھارت اور افغانستان کی سرزمین بیرونی محاذ پر اشتعال انگیزی کے لیے استعمال ہورہی ہے، ایسی صورت حال میں سیاسی محاذ آرائی کے دوران قومی سلامتی کے ریاستی اداروں کو نشانہ بنانا سیاسی دانشمندی نہیں ہے، ایسا کرنے والے دراصل پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کاسبب بن رہے ہیں۔

افغانستان کی حکومت دہشت گردوں کو روکنے پر ناکام ہوچکی ہے،دو ہزار چھ سوکلومیٹر طویل سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے پاک فوج قربانیاں دے رہی ہے‘ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف ایک بار پھر بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، سیاست کا لبادہ اوڑھے کچھ کردار پاک فوج اور عوام میں خلیج پیدا کرنے کے لیے پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات فراہم کرکے ان کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔ اب سیاسی اور گروہی مفادات کو بچانے کے لیے ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف پراپیگنڈا کیا جارہا ہے۔

پاکستان کی سلامتی ناقابل تسخیر بنانے کے لیے قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا کو ساز گار کرنا ہوگا،  اس لیے قومی سطح پر آپس کے اختلافات اور ذاتی مفادات سے اوپر دفاع وطن اور سلامتی کے لیے افواج پاکستان کو مضبوط کرنا چاہیے کیونکہ ملکی سالمیت سب سے مقدم ہے۔اب بھی پانی سر سے گزرا نہیں ہے ‘ غلطیوں اور خرابیوں کو سدھارنے یا ان کا ازالہ کرنے کا وقت ابھی باقی ہے‘ پاکستان کے طاقتوراسٹیک ہولڈرز اپنے مفادات کا ایسا ارینجمنٹ کر لیں ‘جس میں ایک دوسرے کے ساتھ ورکنگ ریلیشن قائم رہیں۔

جب کسی ملک میں بڑے اسٹیک ہولڈرز اپنے مفادات کاحجم کم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے ‘عوام کے اور ریاست کے اجتماعی مفادات کی پروا نہیں کرتے اور اپنے اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں تو ایسے ملک میں لازم ہے کہ بدامنی اور انتشار پیدا ہو جائے۔ ہمارے سامنے ایسی کئی مثالیں ہیں۔ عراق‘یمن ‘شام اور افغانستان اس کی واضح مثالیں ہیں۔

ان ملکوں کی حکمران اشرافیہ کے مفادات ایک دوسرے سے اس انداز میں ٹکرائے ہیں کہ ارینجمنٹ کی گنجائش ہی ختم ہو گئی ۔ایک گروہ مشرق کو دوڑا اور دوسرا مغرب کو ‘ایک نے شمال میں پناہ لینے کی کوشش کی تو دوسرے نے جنوب کو ترجیح دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ گھر تباہ ہو گیا ‘ جہاں یہ حکمران اشرافیہ رہتی تھی ‘جس پر حکمرانی کرتی تھی اور جہاں سے بے انتہا دولت کماتی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔