- پشاور میں سسرالیوں کی فائرنگ سے زخمی گولڈ میڈلسٹ طالب علم جاں بحق
- مارگلہ ہلز پر ایک مرتبہ پھر آگ بھڑک اٹھی
- نیب ترامیم کیس کی براہ راست سماعت سیاسی مقاصد کیلیے استعمال ہوسکتی ہے، سپریم کورٹ
- بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات مکمل، مودی کا تیسری بار وزیراعظم بننے کا امکان
- پاک بحریہ کی بحیرہ عرب میں کامیاب کارروائی، 380 کلوگرام منشیات پکڑ لی
- اٹلی میں غیرت کے نام پر قتل کی اشتہاری ملزمہ کھاریاں سے گرفتار
- گورنر سندھ کی جانب سے اسٹریٹ کرائم متاثرین میں 1000 موٹرسائیکلیں تقسیم
- کراچی بدامنی کے واقعات، نوجوان اور پولیس اہلکار جاں بحق
- کلفٹن میں ساحل کی ریت سے صفائی کی بابرسرف ریک مشینوں کا افتتاح
- حیدرآباد سلینڈر دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 9 ہوگئی
- الیکشن ٹربیونلز میں ریٹائرڈ ججوں کی تقرری کے آرڈیننس کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر
- پاک بھارت میچ، نسيم اشرف نے بیلٹنگ سسٹم پر سوال اٹھا دیے
- بغاوت چھوڑیں اور ٹویٹ ڈیلیٹ کر کے مذاکرات کریں، وفاقی وزیر کی پی ٹی آئی کو پیشکش
- حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پڑھنے میں غداری کیا ہے؟ عارف علوی
- بانی پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ سے ویڈیو اپلوڈنگ پرعمران خان سمیت 4 رہنماؤں کو ایف آئی اے کا نوٹس
- کم وقت میں ناک سے انگریزی حروف ٹائپ کرنے کا نیا ریکارڈ قائم
- اب تک کی سب سے قدیم کہکشاں دریافت
- ہیٹ اسٹروک ہوجانے کی صورت میں کیا ہنگامی اقدامات اپنائیں؟
- کراچی میں چار روز سے جاری ہیٹ ویو ختم
- آئی ایم ایف کا ایک بار پھر ارکان پارلیمنٹ اور سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کرنے کا مطالبہ
احسن اقبال اور احمد اقبال کی سرخروئی و آزمائشیں
چھ سال قبل یہی مہینہ تھا اور مئی کی یہی تاریخیں تھیں جب اُس وقت کے وزیر داخلہ جناب احسن اقبال پر اُن کے اپنے انتخابی حلقے، نارووال، میں ایک مخالف اور انتہا پسند شخص نے گولی چلا دی تھی۔ احسن صاحب شدید زخمی ہو گئے تھے ۔ایک گولی اب تک اُن کے بازُو میں ہے جو اُنہیں ہر دَم انتہا پسندوں کی یاد دلاتی رہتی ہے ۔ احسن اقبال صاحب مگر اپنے کردار و افعال سے انتہا پسندی اور ہر قسم کی نفرت کو ختم کرنے کے متمنی ہیں۔
6مئی2024 کو اُنھوں نے اپنے حلقے میں ایک زبردست عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہُوئے خود پر سابقہ قاتلانہ حملے کی یادیں تازہ کیں۔کئی لوگوں نے اُن کا خطاب سُنا اور عہد کیا کہ ہر قسم کی انتہا پسندی کو معاشرے میں آگے نہیں بڑھنے دیں گے کہ انتہا پسندی سماج اور ملک کے لیے مسموم بھی ہے اور زہرِ قاتل بھی ۔ احسن اقبال صاحب کا یہ تازہ خطاب اُن کے صاحبزادے، احمد اقبال، کے ضمنی انتخاب میں فتحیابی کے بعد ایک جشن کی صورت اختیار کر گیا تھا۔
21اپریل کو ملک بھر کے21حلقوں میں ضمنی انتخابات کا میدان لگا ۔ 8فروری کی طرح اِس بار بھی بڑا مقابلہ تین جماعتوں کے درمیان تھا ۔ میدان مگر نون لیگ کے ہاتھ لگا ہے ۔ نون لیگ نے پنجاب میں پھر صوبائی اسمبلی کی11اور قومی اسمبلی کی2سیٹیں جیت لی ہیں ۔ چند ایک سیٹیں سُنی اتحاد کونسل المعروف پی ٹی آئی اور پی پی پی کو بھی ملی ہیں۔نون لیگ نے بلوچستان سے بھی ایک سیٹ نکالی۔ لاریب ضمنی انتخابات میں نون لیگ کو ایک بڑی کامیابی نصیب ہُوئی ہے ۔
یوں نون لیگ کو بحیثیت پارٹی اور اس کی اعلیٰ قیادت کو ایک نیا اعتماد ملا ہے ۔ اِس سرشاری اور مسرت میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی، جناب احسن اقبال، خاص طور پر شامل ہیں ۔ جناب احسن اقبال کے جواں سال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبزادے، احمد اقبال صاحب، نے ظفروال ( ضلع نارووال ،حلقہ پی پی54)سے کامیابی حاصل کی ہے۔ احمد اقبال کی بطورِ رکنِ پنجاب اسمبلی یہ پہلی بڑی سیاسی کامیابی ہے۔ اُنھوں نے اپنے مدِ مقابل،پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چوہدری اویس قاسم ، سے تقریباً 12ہزار زیادہ ووٹ لے کر سیٹ اپنے نام کی ہے ۔
نون لیگ کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور وفاقی وزیر، جناب احسن اقبال، تہنیت کے خصوصی طور پر مستحق ہیں ۔ظفروال ، ضلع نارووال کا یہ حلقہ ، جہاں سے احمد اقبال صاحب ضمنی انتخاب جیتے ہیں ، خاصا متنازع اور متحارب بن چکا تھا۔8فروری کے جنرل الیکشنز میں یہاں سے احسن اقبال صاحب ، چوہدری اویس قاسم کے مقابل، جیتے تھے ۔ احسن اقبال کے سیاسی حریف ، سابق وفاقی وزیر چوہدری دانیال عزیز، بوجوہ چوہدری اویس قاسم کے حق میں اپنا پورا زور صَرف کررہے تھے ۔
دانیال عزیز بھی مگر اپنے حلقے ( شکرگڑھ) سے ہار گئے اور ظفروال سے چوہدری اویس قاسم بھی ۔ اِس شکست نے اویس قاسم و دانیال عزیز اور احسن اقبال میں مزید شکررنجیاں پیدا کر دیں۔ اور21اپریل کو ضمنی انتخابات کا رَن پڑا تو ایک بار پھر چوہدری اویس قاسم اور چوہدری احمد اقبال (دراصل احسن اقبال)کے درمیان میدان سجا ۔ اِس بار بھی دانیال عزیز کا سارا وزن اویس قاسم کے پلڑے میں تھا۔
بلکہ اِس بار تو دانیال عزیز نے اویس قاسم کی حمایت میں سابق وفاقی وزیر ، چوہدری طارق انیس ، کو بھی ساتھ ملا لیا تھا۔اِس سیاسی جتھہ بندی میں احمد اقبال اور اُن کے مقتدر والد گرامی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہے۔ اُنھوں نے بھی اپنی حمایت میں سابق صوبائی وزیر، سعید الحسن شاہ، اور سابق رکن پنجاب اسمبلی، چوہدری رشید ، کو ساتھ ملا لیا تھا ۔
ظفروال کے ضمنی انتخاب میں احمد اقبال نے اپنے والد گرامی سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اُن کی پشت پر اُن کے مقتدر والد صاحب کی طاقت ، مقتدر نون لیگ اور احسن اقبال صاحب کی اپنے حلقے ( نارووال) میں زبردست میگا ترقیاتی کاموں کی ایک طویل فہرست بھی کھڑی تھی۔ احسن اقبال اپنے دراز قد اور جواں سال صاحبزادے کی کامیابی پر بجا طور پر خوش ہیں ۔ باپ بیٹا ،دونوں نے نون لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاسی و انتخابی کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ظفروال میں اِن ضمنی انتخابات کے دوران ایک جھگڑے میں نون لیگ کا ایک وفادار کارکن، ساٹھ سالہ یوسف ، جان کی بازی ہار گیا ۔ مبینہ طور پر قاتل پی ٹی آئی کا ایک مقامی پُر جوش کارکن ٹھہرایا گیا ہے ۔ احسن اقبال کے ساتھ ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب ، محترمہ مریم نواز، نے بھی اِس موت پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا ۔ کاش یہ سانحہ رُونما نہ ہوتا ۔
فتحیاب احمد اقبال امریکہ میںFels Institute سے پبلک ایڈمنسٹریشن کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ہیں ۔ اُنھوں نے مذکورہ امریکی یونیورسٹی سے ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا ۔ وہ’’ لاہور اسکول آف اکنامکس‘‘ سے شعبہ اقتصادیات کے فارغ التحصیل بھی ہیں۔پاکستان میں ’’میرل لنچ انویسٹمنٹ بینکنگ‘‘ میں بطور بینکر پانچ سال تک اعلیٰ خدمات بھی انجام دے چکے ہیں ۔
وہ سعودی عرب کے ایک بڑے معاشی منصوبے ’’ کنگ عبداللہ اکنامک سٹی‘‘(KAEC) میں سربراہی خدمات بھی ادا کر چکے ہیں ۔ KAECمنصوبہ، مبینہ طور پر، 100 ارب ڈالر کا اکنامک پروجیکٹ تھا ۔ سیاست میں احمد اقبال صاحب نے قدم رکھا تو پہلی ہی جست میں نارووال کے ضلع کونسل کے چیئرمین منتخب ہو گئے۔ اور یوں اُنہیں براہِ راست، وسیع پیمانے پر بلدیاتی سیاست اور بلدیاتی معیشت کی میکانکی حرکیات کو سمجھنے کے مواقع میسر آئے ۔
نون لیگ کے نَو منتخب رکنِ پنجاب اسمبلی ، احمد اقبال،کو بلدیات اور اقتصادیات میں جو درک حاصل ہے، اِس کا تقاضا ہے کہ اُن کے فن اور تجربات سے حکومتِ پنجاب فائدہ اُٹھائے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ، محترمہ مریم نواز شریف ،اگر مناسب سمجھیں تو احمد اقبال کو اپنی کابینہ کا حصہ بنائیں ۔ وہ لوکل گورنمنٹ اور خزانہ کے شعبوں میں میڈم سی ایم صاحبہ کا مفید دست و بازُو بن سکتے ہیں ۔ممکن ہے ایسے میں بعض اطراف سے یہ اعتراض اُٹھایا جائے کہ باپ بیٹا کو بیک وقت وزارتیں کیسے اور کیونکر دی جا سکتی ہیں؟ یہ اعتراض مگر بودا ہے۔اگر باپ بیٹا اعلیٰ اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں تو کیا یہ اُن کا جرم بن جاتا ہے ؟
اب جب کہ احسن اقبال اور احمد اقبال ارکانِ اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں، اُن کی ذمے داریاں اور آزمائشیں بھی دو چند ہو گئی ہیں ۔ اُن کے ووٹروں کی دونوں باپ بیٹا سے توقعات بھی بڑھ گئی ہیں ۔ بلاشبہ احسن اقبال صاحب نے بطورِ رکنِ قومی اسمبلی اور کئی بار وفاقی وزیر بن کر اپنے حلقے اور ضلع میں بے مثال ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائے ہیں۔
نارووال شہر میں یونیورسٹیاں ، جدید اسپورٹس کمپلیکس ، میڈیکل کالج، جدید کمپیوٹر کالج، نئی سڑکیں، ماڈرن اسپتال بھی بنائے ہیں اور مقامی ریلوے اسٹیشن کی تعمیر ِ نَو بھی کی ہے۔
اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ احمد اقبال بھی اپنے والد صاحب کے تتبع میں اپنے حلقے، ظفروال ، کی شدید ترین پسماندگی دُور کرنے کے راستے تلاش کریں۔ ظفروال کا ناک نقشہ تبدیل کرنے کی سبیل نکالیں۔اپنے ہاںایسی انڈسٹریز لگائیں جو حلقے کے تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کو روزگار فراہم کر سکیں۔ ضمنی انتخابات کی کامیابی کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ احسن اقبال اور احمد اقبال اپنے اپنے حلقوں کی فلاح و بہبود کے لیے جان لڑا دیں ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔