(میڈیا واچ ڈاگ) - دیوانی دنیا اور احمقانہ سوچ

اعظم طارق کوہستانی  جمعـء 20 جون 2014
فیس بک کیا اگر میڈیا کے تمام شعبے بھی معطل ہوجائے تو زندگی کی ڈگر یوں ہی چل سکتی ہے۔۔۔ان چیزوں کے پیچھے رونا اور ہاتھ دھونا اور ان کے بغیر اپنی زندگی کو ادھورا سمجھنا صرف اور صرف حماقت ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

فیس بک کیا اگر میڈیا کے تمام شعبے بھی معطل ہوجائے تو زندگی کی ڈگر یوں ہی چل سکتی ہے۔۔۔ان چیزوں کے پیچھے رونا اور ہاتھ دھونا اور ان کے بغیر اپنی زندگی کو ادھورا سمجھنا صرف اور صرف حماقت ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

امجد کی مری ہوئی شکل دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اس کی بیمار ماں اس فانی دنیا سے کوچ فرماچکی ہیں۔ یہ واقعی ایک بڑا سانحہ تھا۔ میں نے امجد کی مرجھائی ہوئی آنکھوں میں دیکھا وہاں یاس اور ناامیدی کا ایک سیلاب تندوخو بہہ رہا تھا۔ اس سے قبل وہ سیلاب اشکوں کے روپ میں بہتا ۔۔۔میں نے امجد کو دلاسا دینے کی کوشش کی۔۔۔مجھے پہلے تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ماں کے مرنے پر کس قسم کے تعزیتی کلمات کہتے ہیں۔کسی سے تعزیت کرنا میرے لیے ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ خیر میں نے اپنی ساری ہمت مجتمع کی۔۔۔ اور اس کے قریب ہوگیا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ یقیناًوہ صدمے کی کیفیت میں تھا۔ کچھ دیر تک ہم خاموش ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ پھر میں نے ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے کہا:’’ مجھے معلوم ہے امجد! یہ دکھ بہت گہرا ہے۔تمہیں صبر سے کام لینا ہوگا۔‘‘

امجد خاموش رہا۔ ’’ہاں امجد!ماں ۔۔۔ماں ہوتی ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں اس نے تمھاری ہر خواہش پوری کی ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر میں امجد کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔

’’صبر۔۔۔کرو اعظم۔۔۔کوئی ٹیکنیکل وجہ لگتی ہے۔ ورنہ وہ ہمیں یوں چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔‘‘ میں نے امجد کی یہ بات سنی لیکن سمجھ نہیں پایا۔

’’جنازہ کب ہے امجد؟‘‘

’’جنازہ؟ کیسا جنازہ!‘‘ امجد مجھے پرے دھکیلتے ہوئے بولا۔ ۔۔۔کیوں اپنی ماں کو بغیر جنازے کے دفناؤگے۔‘‘ میں حیرت زدہ رہ گیا۔

’’کیا بکواس کررہے ہو تم۔‘‘ امجد غصے سے بولا۔’’میری ماں تو زندہ ہے۔‘‘

’’لیکن ابھی تو تم نے کہا کہ میری ماں مرگئی ہے۔‘‘ میں امجد کے دوغلے پن پر حیران رہ گیا۔

’’میں نے کب کہا۔تم نے کہاپہلے۔‘‘

’’اچھا لیکن تم جذباتی کیوں ہورہے تھے۔شکل دیکھ کر مجھے لگا تمھاری ماں مرگئی ہے۔۔۔لیکن اگر ماں نہیں مری تو کون مرا ہے۔‘‘

’’لاحول ولاقوۃ!میں فیس بک کے بند ہونے پر اداس ہوں اور تمھیں اٹھکھیلیاں سوج رہی ہیں ، حد ہے یار! انسانیت کا زمانہ نہیں رہا۔‘‘امجد نے میری ذہنی حالت پر ماتم کیا۔

اُف فیس بک کا نزلہ امجد پر پوری شدت کے ساتھ گرا تھا۔دو دن پہلے ایک ٹیکنیکلی خرابی کی وجہ سے فیس بک کیا بند ہوا۔ لوگوں کا حال اس بچے کی مانند ہوگیا جس سے اس کا پسندیدہ کھلونا پانچ منٹ بعد چھین کر کسی دوسرے بچے کو دیدیا گیا ہو۔ صرف اور صرف آدھے گھنٹے کے لیے فیس بک کیا بند ہوا۔۔۔لوگوں نے ٹوئٹر پر اپنے اقوال زریں کہنا شروع کردیے۔

کسی نے کہا دنیا میں اندھیرا چھاگیا ہے۔ کیوں کہ روشنی کا منبع بند ہوگیا۔

کسی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اب لوگ اپنی فلائٹ کینسل کردیں کیوں کہ وہ لوگوں کو نہیں بتاسکتے کہ اس وقت وہ جہاز میں کتنی بلندی پر ہیں۔
اور کوئی تو اس بات پر افسردہ ہوا کہ اب وہ گیم کیسے کھیلے گا۔

کسی نے کہا وہ سوشل ورکر ہے اب وہ سوشل کام کیسے کرے گی(یہ تو حد کردی اس نے۔۔۔اب اگر سوشل ورک بھی فیس بک پر ہونا شروع ہوگیا تو انسانیت کی بھینس تو گئی پانی میں۔۔۔)

غرض مشرق سے مغرب تک لوگ فیس بک کے آدھے گھنٹے کے لیے بند ہونے کو برداشت نہیں کرسکے ایسا لگا کہ شاید ان سب کی بھی امجد کی طرح ’’ماں‘‘ مرگئی ہو۔
لیکن میرا تو یہی کہنا ہے کہ ایک فیس بک کیا۔۔۔اگر میڈیا کے تمام شعبے بھی معطل ہوجائے تو زندگی کی ڈگر یوں ہی چل سکتی ہے۔۔۔ان چیزوں کے پیچھے رونا اور ہاتھ دھونا اور ان کے بغیر اپنی زندگی کو ادھورا سمجھنا صرف اور صرف حماقت ہے ۔ میں آپ کو صحیح بتاتا ہوں یہ ایک بڑی حماقت ہے۔۔۔لیکن کتنی حیرت کی بات ہے نا۔۔۔مغرب کو چھوڑ کر مشرقی شتربے مہاربھی اس حماقت میں شامل ہیں ۔۔۔نہیں بلکہ پیش پیش ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی

اعظم طارق کوہستانی ان کا قلمی نام ہے۔ اصلی نام ’محمد طارق خان‘ ہے۔ نوجوان صحافی اور ادیب ہے۔ آج کل بچوں کے رسالے ’جگمگ تارے‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ بچوں کے لیے اب تک ان کی کہانیوں پر مشتمل دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔