اسرائیل کو ایک اور دھچکا

ایڈیٹوریل  جمعـء 24 مئ 2024
غزہ کے حوالے سے نیتن یاہو کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ثابت ہوگئی ہے۔ فوٹو:فائل

غزہ کے حوالے سے نیتن یاہو کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ثابت ہوگئی ہے۔ فوٹو:فائل

فلسطین کے حوالے سے اسرائیل کو یورپ میں بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق یورپ کے تین ممالک اسپین، ناروے اور آئرلینڈ نے فلسطین کو ریاست تسلیم کر لیا ہے، ان ممالک کے اس فیصلے کا اطلاق 28 مئی سے ہوجائے گا۔ تینوں ممالک یورپی یونین کے رکن ہیں، ان ممالک کے فیصلے سے یورپی یونین کے دیگر ممالک کی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، یورپی یونین کے دیگر ارکان بھی اس راہ پر چلنے کا اعلان کرسکتے ہیں۔

فلسطینیوں کے لیے یہ انتہائی اہم پیش رفت ہے کیونکہ اسپین ، ناروے اور آئرلینڈ یورپ کے اہم ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔اسرائیل کی یہ بڑی شکست ہے کیونکہ یورپ عموماً اسرائیل کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے لیکن اسرائیل کے غزہ میں مظالم اتنے بہیمانہ تھے کہ یورپی ممالک کے عوام سڑکوں پر آگئے ، یورپی ممالک کی حکومتوں کے لیے اسرائیل کی حمایت کرنا مشکل ہوگیا ۔ اسپین، ناروے اور آئرلینڈ تو ابتدا ہے ، اب فلسطین کو ایک آزاد و خودمختار ملک اور اقوام متحدہ کا رکن بننے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔

اسرائیل کی نیتن یاہو حکومت کے لیے یہ بڑا دھچکا ہے، غزہ کے حوالے سے نیتن یاہو کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ثابت ہوگئی ہے۔ اسپین ، ناروے اور آئرلینڈ کے فیصلے پر اسرائیل کی حکومت نے سخت ردعمل دیا ہے ۔ عالمی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو حکومت کے وزیر خارجہ نے آئرلینڈ، ناروے اور اسپین کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل خاموش نہیں رہے گااور اس کے مزید سنگین نتائج ہوںگے۔

امریکا نے بھی آئرلینڈ، اسپین اور ناروے کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے فیصلے پر اپنا ردعمل دیا ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر جو بائیڈن سمجھتے ہیں کہ یکطرفہ طور پر فلسطین کو ریاست تسلیم نہیں کیا جانا چاہیے۔صدر جوبائیڈن کا ماننا ہے کہ فریقین کے درمیان مذاکرات سے فلسطینی ریاست تسلیم ہونی چاہیے۔وائٹ ہاؤس کا مزید کہنا تھاکہ صدر بائیڈن اپنے پورے کیریئر میں دو ریاستی حل کے مضبوط حامی رہے ہیں۔

امریکا نے خاصا محتاط ردعمل دیا ہے، غور کیا جائے تو امریکا کے صدر نے یہ کہا کہ اسرائیل کو اعتماد میں لے کر فلسطین کو ریاست تسلیم کیا جانا چاہیے۔ امریکا میں چونکہ صدارتی الیکشن ہونے والے ہیں، امریکی عوام غزہ میں اسرائیل کے مظالم کے خلاف ہے، اس لیے صدر جو بائیڈن اینٹی اسرائیل اور پرو اسرائیل ووٹرز دونوں کو خوش رکھنا چاہتے ہیں۔

سعودی عرب نے ناروے، اسپین اور آئرلینڈ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔عالمی میڈیا کے حوالے سے ملکی میڈیا نے بتایا ہے کہ سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تینوں ممالک کے قابل ستائش اقدام سے بین الاقوامی اتفاق رائے کی تصدیق ہوتی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ فلسطینی عوام کو حق خود ارادیت کا موروثی حق حاصل ہے، دیگر ملکوں کو بھی چاہیے کہ جلد از جلد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا موقف اختیار کریں۔ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا بیان بھی سامنے آگیا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اپنے بیان میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ دریا سے لے کر سمندر تک فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کیا جائے گا۔ایرانی سپریم لیڈر نے کہا کہ فلسطین کی فتح کا قدرت کا وعدہ بھی پورا ہوگا۔

ناروے کے وزیراعظم جوناس گہر سٹور نے کہا کہ اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم نہ کیا گیا تو مشرق وسطی میں امن نہیں ہوسکتا اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ناروے 28 مئی تک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرلے گا۔ناروے کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر عالمی عدالت انصاف نے اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تو ناروے دونوں کو گرفتار کر لے گا۔

اردن نے آئرلینڈ، ناروے اور اسپین کی طرف سے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے کے ایک مربوط اقدام کو فلسطینی ریاست کی جانب ایک اہم اور ضروری قدم قرار دیتے ہوئے اس کی تعریف کی۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن الصفدی نے عمان میں اپنے ہنگری کے ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہاکہ ہم دوست یورپی ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے فیصلوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ ہم اس فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسے دو ریاستی حل کی جانب ایک اہم اور ضروری قدم سمجھتے ہیں جو جون 1967 کی سرحدوں کے ساتھ ایک آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست تشکیل دے۔الصفدی نے امید ظاہر کی کہ یہ فیصلے ایک وسیع تحریک کا حصہ ہوں گے جودنیا اور خطے کے تمام ممالک کو ایک منصفانہ اور جامع امن کی طرف جانے والے ایک واضح راستے پر گامزن کریں گے جو فلسطین، اسرائیل اور خطے کے لیے سلامتی اور استحکام کا واحد ضامن ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ فلسطین کو تسلیم کرنے کا عمل اسرائیلی حکومت کے اقدامات کے جواب میں ایک اہم اور ضروری قدم کی نشاندہی کرتا ہے جو نہ صرف دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں بلکہ زمینی سطح پر ایسے عملی اقدامات کے حوالے سے بھی یہ خطے میں امن کے حصول کے امکانات کو ختم کر دیتے ہیں۔ان کے تبصرے غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کے دوران ڈبلن، میڈرڈ اور اوسلو کی جانب سے اس اعلان کے بعد سامنے آئے ہیں کہ وہ تینوں 28 مئی کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے۔

مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں میں محدود اختیارات کی حامل فلسطینی اتھارٹی کے مطابق اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 142 پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔امریکا سمیت بیشتر مغربی حکومتیں کہتی ہیں کہ وہ ایک دن فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں،لیکن اس سے پہلے اس کی حتمی سرحدوں اور یروشلم کی حیثیت جیسے کانٹے دار مسائل پر معاہدہ طے پانا ضروری ہے۔

ادھر غزہ میں اسرائیل اب تک اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔7 اکتوبر سے لے کر اب تک غزہ میںچار ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ جب تک اسرائیل انسانی امدادی کارکنوں کے لیے صورتحال کو محفوظ نہیں بناتا غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے 320 ملین ڈالر کا نیا امریکی پراجیکٹ بھی ناکام ہو سکتا ہے۔

سربراہ عالمی ادارہ صحت ٹیڈروس ادھانوم گیبریئسس کا کہنا ہے کہ غزہ کے مکینوں کی زندگی بچانا مشکل نہیں عملا نا ممکن بنادیا گیا ہے۔اسرائیل غزہ میں طبی امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں ہٹائے جہاں تقریبا 700 شدید بیمار مریض پھنسے ہیں۔اسرائیلی فوج نے حماس کے اینٹی ٹینک میزائل یونٹ 414 کے رہنما احمد یاسر القرہ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔اگلے روز شمالی غزہ میں حماس کی کارروائی میں 3اسرائیلی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

اسرائیل کے غزہ میں جاری مظالم کی وجہ سے پورے مشرق وسطیٰ میں لڑائی کی فضا ہے۔ اقوام عالم واضح طور پر اسرائیل کے مظالم کے خلاف ہیں ۔ دی ہیگ کی عدالت عالمی انصاف بھی اسرائیل کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے لیکن اسرائیل ابھی تک کسی کی بات تسلیم نہیں کر رہا۔ اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بحیرہ احمر بھی غیر محفوظ ہے۔ اگلے روز کی خبر کے مطابق امریکی اور برطانوی طیاروں نے الحدیدہ ایئرپورٹ پر چھ فضائی حملے کیے ہیں۔

مغربی یمن میں یہ ایئرپورٹ حوثی گروپ کے کنٹرول میں ہے۔ عرب ٹی وی کے مطابق امریکی اور برطانوی افواج نے بحیرہ احمر میں ’’ خوشحالی کے محافظ اتحاد ‘‘کے تحت کارروائی اس وقت شروع کی ہیں جب حوثی گروپ نے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے رد عمل میں بحیرہ احمر میں تجارتی اور فوجی بحری جہازوں پر حملے شروع کیے۔

حوثی گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف جانے والے تجارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہا ہے جس کا مقصد اسرائیلی فورسز پر اس چیز کا دبا ڈالنا ہے کہ وہ امدادی سامان اور ادویات کو غزہ کی پٹی میں داخل ہونے دیں اور غزہ کا محاصرہ ختم کرے۔حوثی گروپ نے کہا کہ وہ بحیرہ احمر، خلیج عدن اور بحر ہند میں تجارتی اور فوجی بحری جہازوں کو نشانہ بنانا اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک اسرائیل غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ جنگ ختم نہیں کردیتا۔

اسرائیل کی حکومت کو بھی حالات کی سنگینی کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں امریکا ‘برطانیہ اور فرانس اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں جب کہ یورپی یونین کے کئی ممالک اسرائیل کو تنبیہ کر چکے ہیں کہ وہ غزہ میں مظالم بند کرے ‘امریکا ‘برطانیہ اور فرانس کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ غزہ میں لڑائی بند ہو اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آ سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔