(دنیا بھر سے) - کیا مشرق وسطٰی تقسیم ہورہا ہے؟

ملیحہ خادم  بدھ 2 جولائی 2014
ایک طرف مشرق وسطی مسلکی اعتبار سے تقسیم ہوتا جارہا ہے جبکہ او آئی سی اور عرب لیگ نے پرسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جو حیران کن ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک طرف مشرق وسطی مسلکی اعتبار سے تقسیم ہوتا جارہا ہے جبکہ او آئی سی اور عرب لیگ نے پرسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے جو حیران کن ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

دولت اسلامیہ عراق و شام ( آئی ایس  آئی ایس) داعش نے بالآخر عراق و شام کے مفتوحہ علاقوں میں خلافت کا اعلان کرتے ہؤے اپنے راہنما ابو بکرالبغدادی کو خلیفہ ابرہیم کے لقب سے نامزد بھی کردیا ہے ۔ جسطرح یہ تنظیم عراق میں پیشقدمی کر رہی ہےاِس نے عراق کے ہمسایہ ممالک کے لیے بھی یقینی طور پر خطرے کی گھنٹی  بجادی ہے اورسعودی عرب ، قطر ، کویت، اردن اِس وقت ہائی الرٹ پر ہیں کہ مبادا یہ طوفان انکی سرحدوں کا رخ نہ کرلے ۔

پچھلے دس برسوں میں مختلف ناموں سے القاعدہ کے زیر سایہ کام کرنیولی یہ تنظیم رواں سال جنوری میں یکدم عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ۔ پھر ایک کے بعد ایک عراقی شہر اس طوفان کے آگےریت کی دیوار ثابت ہوئے یہاں تک کہ بغداد کے دہانے تک داعش آن پہنچی ہے ۔  القاعدہ  اختلاف کی بنیاد پر آئی ایس  آئی ایس  سے  اپنے روابط توڑ چکی ہے  مگر حیرت انگیز طور پر یہ جنگجو تعدا میں کم ہونے کے باوجود اپنی مہارت اور تربیت کے سہارے آگے ہی آگے بڑھے چلے جارہے ہیں جبکہ اِس تنظیم کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ نظریات میں داعش القاعدہ سے بھی سخت ہے ۔

سوچنے کی بات ہے کہ داعش خود رو نظریاتی تنظیم ہے یا پس پردہ بھی  کوئی  ہے ۔ جب بشار الاسد کیخلاف امریکہ اور اسکے حواری شام میں جنگجوؤں کے ہاتھ مضبوط کررہے تھےتو آئی  ایس آئی ایس بھی اس گروہ میں شامل تھی ۔ ابوبکر البغدادی امریکیوں سے رہائی پا کر ہی دوبارہ میدان جنگ میں آیا ہے ۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صرف خلافت کا قیام اور اسلامی نظام ہی واحد ہد ف ہے؟  جواب اگر نفی میں ہے تو سوال اٹھتے ہیں کہ کیا اس صورتحال سے مشرق وسطی کا نقشہ تبدیل نہیں ہورہا ؟ کیا وہ شیعہ کریسنٹ جو اسرأیل کی سرحدوں تک رسائی پاتا نظر آ رہا تھا إس افتاد کیوجہ سے کمزور ہوگیا ہے ؟ کیا یہ مسالک کی جنگ نہیں ہے؟  کیا2003 میں  امریکہ کی  جانب سے عراق پر چڑھائی  ہی مسائل کا اصل سبب نہیں ہے اور پھر آج لاکھوں لوگوں کی جانوں کے ضیاع کے بعد امریکا کی جانب سے یہ ماننا کہ یہ عراق جنگ  امریکہ کی غلطی تھی، اس جنگ اور خون ناحق کی ذمہ دار نہیں ہے ؟

امریکہ نے جسطرح عراق کو تاراج کر کے مفلوج حکومتی و فوجی ڈھانچے کیساتھ چھوڑ دیا جس کی وجہ سے  وہ ایک بحران کی صورت اختیار کرگیا ۔اور  پھر نوری المالکی نے ایک مسلک کی حد سے زیاہ حمایت کر کےعراق میں موجود دوسرے مسلک کو نظریاتی بنیادوں پر استعمال ہونے کےلٔے آسان ہدف بنایا۔یہ خلاء  جسطرح  پر ہورہا ہے اس نے عراق کو عملاٌ تقسیم کردیا ۔ شام میں بیجا بیرونی مداخلت نے تصویر کو مزید بگاڑ دیا ۔

امت کا تصور تو بہت پہلے ہی مفادات کی بھینٹ چڑھچکا ہے لیکن اسوقت او آئی سی اور عرب لیگ کی پرسرار خاموشی حیرانکن ہے تو ہے لیکن اِس خاموشی نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ یہ تنظیم عملی طور پر ایک نا اہل اور ناکارہ تنظیم ہے جس کا قیام مسلمانوں کے معاملات کو حل کرنے کے لیے عمل میں آیا تھا مگر مجال ہے کہ اِس نے ایک بار بھی اپنا فرض ادا کرنے کی جسارت کی ہو ۔

عراق تو عراق اب تو کردستان کی کہانیاں بھی باہر آ رہی ہیں ۔ بظاہر لگتا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد مشرق وسطیٰ کو جو شکل دی گٔئی تھی اب ایک صدی کے بعد ان عرب مملک کے ملبے پر نیا مشرق وسطیٰ  تعمیر کرنیکا وقت آن پہنچا ہے ۔ مسالک کی صف بندی کرتی ہوئی عرب  دنیا دو دھڑوں میں منقسم دکھائی دے رہی ہے، یہ نہایت افسوسناک اور خوفناک ہے کیونکہ یہ صف بندی عرب دنیا تک محدود رہے إسکی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔