ٹوٹی ہوئی شاخیں

اقبال خورشید  بدھ 2 جولائی 2014

تخیل کا گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ اُس کی پُرقوت جست وقت کی گھاٹیاں عبور کر گئی۔ مستقبل کے حزنیہ مناظر آنکھوں کے سامنے دمکنے لگے۔ اور اُن مناظر سے ایک سوال نے جنم لیا۔

سوال: اگر خدانخواستہ یہ خطہ نیست و نابود ہو گیا، جنگ اور قدرتی آفات نے اسے زیر زمین دھکیل دیا، تو برسوں بعد یہاں کھدائی کرنے والے ماہرین آثاریات کے ہاتھ بھلا کیا آئے گا؟شاید وہی سب، جو آج ہمارے سامنے ہے۔ محلوں کے پہلو میں چھوٹی چھوٹی بستیاں، تنگ گلیاں، تاریک مکانات، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، تباہ حال درس گاہیں، نکاسی و فراہمی آب کا بدحال نظام، فرقوں میں منقسم عبادت گاہیں اور قبرستان۔  کھنڈرات کی کھدائی کے دوران عام طور پر قدیم سکے، کھلونے، برتن، مہریں اور انسانی وحیوانی باقیات ملتی ہیں، لیکن اگر ہمارا خطہ تباہ ہو گیا، تو شاید ماہر ین کو کچھ انوکھی چیزیں ملیں۔

زرق برق ملبوسات سے بھرے صندوق، جنھیں پیوند لگے کپڑوں کے ڈھیر میں چھپایا گیا۔ گودام، جہاں ذخیرہ کردہ اناج سڑ گیا، مگر اُسے انسانوں کے پیٹ میں جانا نصیب نہیں ہوا۔ کھیت، جہاں بارود کاشت کیا گیا۔ ساہوکاروں کے کھاتے، جن میں فقط نفرت کا اندارج ہے۔ تخلیق کاروں کے فن پارے، جو گروہوں میں بٹے ہیں۔ قلم، جن پر برائے فروخت لکھا ہے۔ اسلحہ، جس کی تعداد قبروں سے زیادہ تھی۔ اُنھیں رسیاں اور اینٹیں ملیں گی، جو عورتوں کے قتل میں معاون ثابت ہوئیں۔ پلاسٹک بیگ، جو زمین کی زرخیزی نگل گئے۔ موبائل سمیں، جو شاید آسمان سے برسیں۔ ملازمتوں کے لیے دی جانے والی کروڑوں درخواستیں۔ لوہے کے وحشت ناک ڈھانچے ، جنھیں سفر کے لیے برتا جاتا تھا۔

اُن عجیب و غریب اشیاء کے درمیان، جن کی وہ کوئی نہ کوئی توجیہہ کر ہی لیں گے، ماہرین کو درختوں کی بے تحاشہ شاخیں ملیں گی۔ یہ پُراسرار شاخیں، جنھیں دیکھ کر یوں محسوس ہو گا، جیسے وہ ایک دن، اچانک ٹوٹ کر زمین پر آن گریں، اُنھیں مبہوت کر دیں گی۔ وہ چیستانی شکل اختیارکر جائیں گی۔ جب تحقیقی کوششوں کے باوجود یہ معما حل نہیں ہو گا، تو یہ شاخیں ان کے حواس پر سوار ہو جائیں گی۔

ممکن ہے، وہ مورخین کا رخ کریں گے۔ مگر تاریخ دان اس معاملے میں معاون ثابت نہیں ہوں گے۔ وہ مٹ چکی ریاست میں رقم ہونے والی مظالم کی داستانیں، ناانصافی کے قصے اور طبقاتی استحصال کی کہانیاں تو بیان کر دیں گے، مگر پُراسرار شاخیں سے متعلق ان کا ریکارڈ یکسر خاموش ہو گا۔

مایوسی کی حالت میں، جب ماہرین آثاریات کھنڈرات کی راکھ کُرید رہے ہوں گے، اُنھیں خاصی گہرائی میں عجیب و غریب کاغذات ملیں گے۔ اُن پر اجنبی زبان درج ہو گی۔ قدیم زبانوں کے کسی ماہر سے رجوع کیا جائے گا، جو انکشاف کرے گا؛ یہ پراسرار کاغذات دراصل صدیوں پرانے اخبارات ہیں۔تو اب اخبارات کا مطالعہ شروع ہو گا۔

اور یوں مستقبل کے انسان کا سامنا ہمارے عزت مآب سیاست دانوں سے ہو گا، جو اقتدار میں آنے کے لیے انتخابات کے بجائے جلسوں اور دھرنوںکا سہارا لیتے تھے۔ نعرہ جمہوری نظام کا لگاتے، مگر اُسے گرانے کے درپے رہتے۔ انقلاب کی، جو جہد مسلسل سے جنم لیتا ہے، تاریخوں کا اعلان کرتے پھرتے۔ پیروکاروں کو، جو راہ بر کی قوت ہوتے ہیں، بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے۔ انصاف کی درانتی چلاتے، مگر اپنے بیٹے کے گناہ معاف کر دیتے۔ منصفانہ نظام کا راگ الاپتے، اور اپنے اہل خانہ میں عہدے بانٹتے۔

اور مستقبل کے انسان کا سامنا ہمارے دانش وَروں سے ہو گا، جن کے قلم میں جذباتیت کی سیاہی بھری تھی۔ اور جن کے الفاظ سستی پیش گوئیوں سے مزین تھے۔ جن کے دلوں پر انا کی مہرلگی تھی۔ اُنھوں نے ایسے عقائد کی ترویج کی، جو عمل کو نگل گئے۔ علم دشمن نظریات کی حمایت کی۔ خواب فروخت کیے۔ سچ چھپا لیا، اور جھوٹ کا چاند آسمان میں لٹکا دیا۔ اُنھوں نے شکست زدہ قوم کو خوش گمانی میں مبتلا رکھا۔ ناکام محاذوں کے قصّے حذف کر دیے۔ ظلم کو ظلم کہنے سے اجتناب برتا۔ دہشت گردوں کو اپنا بھائی قرار دیا۔مغرب کی ترقی کو مغرب کی پستی بنا کر پیش کیا، اور اپنی پستی کوخوب روغن لگایا کر چمکایا۔

آنے والا دور کے انسان کا سامنے ہمارے ماہرین معیشت سے بھی ہو گا، جن کے دعویٰ کھوکھلے نکلے۔ جن کے بھونڈے اقدامات نے ریاست کو دیوالیہ کر دیا۔ اور وہ ہمارے علماء کے روبرو ہو گا، جو کبھی اپنے مسلکی دائرے سے باہر نہیں نکل سکے۔ جنھوں نے فعل خدا سے منہ موڑا، اور قول خدا کی من چاہی تشریح کی۔ وہ ہمارے مورخین سے ملے گیا، جنھوں نے تاریخ کا حلیہ بگاڑ دیا۔ منصف، جنھوں نے فقط ذاتی مفادات پیش نظر رکھے۔ سپہ گر، جو فسوں گر بن گئے۔ اور پھر اُس کا سامنا مٹ چکی ریاست کے باسیوں سے ہو گا، جنھوں نے سوچنا خود پر حرام کیا، آمروں کی پرستش کی، اور بھیڑوں کے ریوڑ کی شکل اختیار کر گئے۔

ممکن ہے، ماہرین آثاریات اخبارات میں چھپے عجیب و غریب واقعات، خلاف عقل سیاسی بیانات پڑھ کر انگشت بدنداں رہ جائیں۔ البتہ ٹوٹی ہوئی شاخوں کا اسرار ہنوز قائم رہے گا۔ اور پھر۔۔۔ بوسیدہ اوراق کھنگالتے کسی نوجوان کی نظر ایک مصرع پر پڑے گی:’’ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہو گا!‘‘

ایک مراقباتی لمحہ اترے گا۔ نوجوان جست لگا کر کھنڈر ہو چکی تہذیب کے ماضی میں داخل ہو گا۔ اور اُس پُرشور باغ تک جا پہنچے گا، جہاں الوئوں کی بھرمار ہو گئی تھی۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے الو۔ ایک سر کھجاتا، دوسرا پر پھڑپھڑاتا،کوئی دعوے کر تا، کوئی وعدہ۔ کوئی پیش گوئی سے لیس ، کوئی یاوہ گوئی سے۔ چند الزام تراشیوں میں مصروف، چند لن ترانیاں میں۔ وہاں سامع کم تھے، مقرر زیادہ۔ شور ایسا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اُس مضطرب منظر نے نوجوان کے ذہن میں اطمینان کی شمع روشن کی۔ اب وہ اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرے گا: ’’میں جانتا ہوں کہ شاخوں کا اسرار کیا ہے۔‘‘سب اس کے گرد اکٹھے ہو جائیں گے۔ وہ گہرا سانس لے گا: ’’یہ اُن الوئوں کے بوجھ سے ٹوٹیں، جن کی ریاست میں بھرمار ہو گئی تھی۔ ہر شاخ پر سیکڑوں الو آن بیٹھے۔ اور ایک اداس شام تمام شاخیں یک دم ٹوٹ گئیں۔ گلستان اجڑ گیا۔‘‘

مجمعے میں خاموشی چھا جائے گی۔ پھر ایک بوڑھا ہنسے گا ’’ہمیں اُن الوئوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ وہ نہ ہوتے، تو شاید ہم کبھی یہاں کھدائی کے لیے نہیں آتے۔ شاید یہ تہذیب کبھی نہیں مٹتی۔ یہ اپنی زرخیز زمینوں، بندرگاہوں اور معدنی ذخائر کے طفیل ترقی کے زینے عبور کر جاتی۔ اس کی ثقافتی سرحدیں پھیلنے لگتیں۔ باصلاحیت نوجوان اسے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لا کھڑا کرتے۔ اس کے محنت کش دنیا کے لیے مشعل راہ بن جاتے۔ مگر افسوس، الوئوں کے باعث یہ ہو نہ سکا۔‘‘

تخیل کا گھوڑا سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ اور میں سوچ رہا ہوں؛ کیا بوڑھے ماہر کا اندازہ دُرست ہے؟ کیا الو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں؟ کیا اُنھوں نے ہمارے فکر ی چشموں کو آلودہ کر دیا؟کیا وہی گلستان کے زوال کا سبب بنیں گے؟

اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے، تو ہمیں سنجیدگی سے اُن شاخوں کو بچانے کے جتن کرنے ہوں گے، جو حماقت کے بوجھ سے اب جُھکنے لگی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔