کچھ نہیں سیکھتے تماشا سے

اوریا مقبول جان  پير 7 جولائی 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

پانچ سے چھ لاکھ آبادی کے شہر بنوں میں کوئی یہ اندازہ تک نہیں لگا سکتا کہ یہاں صرف چند دنوں میں شمالی وزیرستان سے سات لاکھ لوگ آ کر آباد ہوئے ہیں۔ خانماں برباد، اپنے ہی وطن میں مہاجر اور اپنے ہی علاقے میں اجنبی۔ یہ وہ شہر ہے جہاں یہ لوگ کبھی کسی ضروری کام سے آتے اور جلد اپنی خوبصورت وادیوں میں لوٹ جاتے۔ قبائلی رسم و رواج میں گندھے ہوئے ان لوگوں نے کبھی ہجرت کا سوچا بھی نہیں ہوگا۔

ان کے آباؤ اجداد تو اپنا علاقہ اور وطن اس وقت چھوڑتے جب ان کے لیے وہاں رہنا ناممکن ہو جاتا۔ جب زمین جانوروں کو چارہ اور انسانوں کو پانی دینے سے انکار کر دیتی یا پھر کوئی مضبوط گروہ، قبیلہ یا فاتح انھیں علاقہ بدر کر دیتا۔ وہ نئے علاقوں کو اپنا مسکن اور وطن بنا لیتے اور صدیوں وہیں رہتے۔ لیکن یہ کیسی ہجرت ہے کہ جس میں واپس لوٹنے کی آس بھی موجود ہے اور دربدر ہونے کا درد بھی۔ اس درد کو بنوں شہر کے لوگوں نے جس طرح سنبھالا ہے ایسی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ یہی سات لاکھ اگر لاہور یا کراچی آ جاتے تو لوگ خوف سے دروازے بند کر لیتے۔

بڑے بڑے اسٹیڈیم، کھلے میدان اور بوسیدہ سرکاری عمارتیں ان کی پناہ گاہیں ہوتیں، تبصرے شروع ہوتے، شہر کا امن و امان خراب کرنے کی باتیں ہوتیں، ماحولیات کے ماہرین اٹھ کھڑے ہو جاتے۔ کسی کو سہولیات پر اضافی بوجھ کا قلق ہوتا اور کوئی ماحول کی خرابی کا رونا روتا۔ یہ سات لاکھ ان بڑے شہروں میں اگر عارضی پناہ گاہوں سے اپنی حیثیت کے مطابق کچی بستیوں میں منتقل ہونا شروع ہوتے، روزگار کے لیے نکلتے، شہر کے لوگوں کو بحث کا ایک اور موضوع میسر آ جاتا۔

لیکن سلام ہے بنوں شہر کے عوام کو کہ انھوں نے ان سات لاکھ لوگوں کے لیے اپنے دروازے ایسے وا کیے جیسے کوئی ان کا عزیز ترین رشتہ دار مدتوں بعد ملنے آ گیا ہو۔ اس لیے کہ ان چھ لاکھ لوگوں میں جو بنوں کے شہری ہیں، کوئی سیاسی لیڈر نہیں جو قومی یکجہتی کے نام پر ریلی تو کرتا ہے لیکن اس کے کارکنان ان ہی مہاجرین کے خون کے درپے ہوتے ہیں۔ کوئی تجزیہ نگار، دانشور نہیں جو آپریشن کی حمایت میں کئی سال شور مچاتا ہے لیکن اسے ان مہاجرین کی صورت میں دہشت گردی کے فروغ کا خطرہ نظر آتا ہے۔

جس قوم میں منافقت رچ بس گئی ہو اس کا کیا رونا۔ ان کو میرے آقا سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے حال پہ چھوڑ دیا تھا۔ غزوۂ احد کی وہ تلوار ’’عضب‘‘ بھی کفار کے خلاف اٹھی تھی لیکن عبداللہ بن ابی کی سرپرستی میں جو تین سو کلمہ گو منافقین تھے انھیں ان کے حال پہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ وہ آقا جو صرف کلمہ پڑھنے پر جنت کی بشارت دے اس کی تلوار کسی بظاہر مسلمان کلمہ گو منافق پر اٹھتی۔ لیکن جب ہر طرف نظریات فروشی کا دور ہو تو کوئی بھی کسی کے نام پر دکان سجا دے۔

دکانیں ہی تو ہیں جو چاروں جانب سجی ہیں۔ مسلک کی دکان، عقیدے کا خوانچہ جہاد کا اسٹال، آزادی اور سیکولرازم کی ریڑھی، ریاست کا سپراسٹور، ہر کوئی اپنا مال بیچ رہا ہے۔ جس کو جس شخصیت کے پوسٹر سے منافع ہوتا ہے وہ اسے آویزاں کر دیتا ہے۔ ایسی منافقت میں بنوں شہر کا سچ حیران کن لگتا ہے انھوں نے جس طرح اسلامی اخوت کا مظاہرہ کیا وہ ایک مثال ہے لیکن اس ہجرت نے جن داستانوں کو جنم دیا ہے اس کے خوف سے دل کیا، روح تک کانپ رہی ہے۔

سیلاب یا طوفان آنے سے پہلے لوگ تاروں پر لٹکتے کپڑوں کو بھی سائے میں لے آتے ہیں، جانور باندھ دیتے ہیں، لیکن یہاں تو بس ایک ان کا وقفہ کرفیو کے درمیان اور پھر تیس تیس گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرتے بچے، عورتیں اور بوڑھے۔ چیک پوسٹ پر کم از کم چھ گھنٹے لمبی قطار میں پوچھ پڑتال کا انتظار۔ کتنوں کی وہیں پر موت۔ جانور ساتھ لے کر آنے والوں نے سبزہ دیکھا تو انھیں وہیں چھوڑ دیا کہ انھیں تو رزق مل گیا، ہمارا للہ حافظ و ناصر ہے۔ دو بچوں کو ہاتھوں پہ ڈالے ایک خاندان اندر داخل ہوا۔ ڈاکٹر کو اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ بچے زندہ یا مردہ۔

تھوڑی زندگی کی رمق محسوس ہوئی تو کمرے میں لے جانے لگا تو باپ نے کہا ڈاکٹر صاحب ہمارے نزدیک یہ بچے مر چکے تھے۔ اگر یہ زندہ بچ گئے تو آپ کے ہوئے۔ مجھے تو اپنی بیٹیوں کے لیے سر چھپانے کی جگہ کا انتظام کرنا ہے۔ ڈاکٹر یہ کہانی الخدمت کے سربراہ عبدالوحید خان کو سناتے ہچکیوں سے رونے لگا۔ کون ہے وہاں جو ان کی دیکھ بھال کر رہا ہے، شدت پسندی کے نام پر گالیاں کھانے والی جماعت اسلامی کی تنظیم، فلاح انسانیت، جس کو امریکا سے لے کر پاکستان کے شام کی ترنگ میں جھولتے دانشور تک سب بھارت کے ساتھ امن تباہ کرنے پر گالیاں دیتے ہیں۔

لیکن ریلیاں نکالنے والے، چوراہوں پر موم بتیاں جلانے والے، بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر انسانوں کے دکھ میں میں رونے والے کہیں نظر نہیں آتے۔ کیوں آئیں۔ یہ لوگ تو آفت و مصیبت میں ہجرت کر رہے ہیں یہ کوئی عشق کے جنون میں ماں باپ کا گھر چھوڑنے والی ’’خوش قسمت‘‘ لڑکی تو نہیں۔ کیسے ہو سکتے ہیں جس کے لیے گھروں کے دروازے بھی کھلیں اور آنکھ میں آنسو بھی آئیں۔

لیکن اس معاملے میں پوری قوم کی سرد مہری اور خاموشی سے ایک خطرناک کیفیت ضرور نظرآتی ہے۔ ایسی گفتگو کبھی بھی گزشتہ ساٹھ سالوں میں وزیرستان یا قبائلی علاقہ جات کے عوام میں نظر نہیں آئی۔ اب وہ سوال کرنے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری سرزمین پر یہ بارہواں آپریشن ہے۔ ہم بارہ دفعہ گھر سے بے گھر ہوئے، کبھی سوات سے تو کبھی باجوڑ اور کبھی اورک زئی سے۔ ہمیں دربدر کر کے کیا آپ کے شہر پر سکون ہوگئے۔ کیا ازبک، تاجک، چیچن اور طالبان لاہور کراچی اور راولپنڈی میں نہیں۔ کیا وہاں وہ لوگوں کے درمیان عدالتیں نہیں لگاتے۔ اغوا برائے تاوان نہیں ہوتا۔ ایک تو پھٹ پڑا، گریبان ایسے پکڑا کہ پھاڑ دے گا۔ کہنے لگا میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب لاہور کے ماڈل ٹاؤن، کراچی کے ڈیفنس اور راولپنڈی کے راجہ بازار والوں کو صرف ایک دن کی مہلت دی جائے گی کہ نکلو ہم آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں یہ تیرہواں آپریشن ہے، ہر آپریشن کے بعد یہ اعلان ہوتا ہے کہ ہم نے امن بحال کر دیا۔ ہم نے دہشت گردی کی کمر توڑ دی لیکن مجھے نہ اس آپریشن کی افادیت اور امن کے قیام پر بحث کرنا ہے کہ ایسا کرنا تو غداری کے مترادف ہے۔ مجھے ان بارہ آپریشنوں سے ہجرت زدہ خاندانوں کے المیے سے ہے۔ اس ملک کے ساتھ جو جس نے کرنا ہے کر گزرے کہ یہی مہلت کے دن ہیں بلکہ مہلت کے آخری دن ہیں۔ کیا وہ لوگ جو اپنے گھروں میں چین سے بیٹھ کر ان ہجرت کرنے والوں کی قطاروں کو ایسے دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے جنگ عظیم دوم کی فلم چل رہی ہو، وہ چین سے رہ پائیں گے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ہجرت کی گنگا الٹی بہی ہے۔

1979ء سے مہاجرین افغانستان سے پاکستان آ رہے تھے۔ گزشتہ 35 سال سے، لیکن اس دفعہ افغانستان کے صوبہ خوست میں شمالی وزیرستان کے عام لوگ اپنی غیرت و حمیت کے جنازے کے ساتھ وہاں پہنچے ہیں۔ آج سے تین سال قبل شام کی سرحد پر کھڑے جب میں مہاجرین کے لٹے پٹے قافلوں کو دیکھ رہا تھا تو میرے ساتھ میرے لبنانی دوست نے کہا تھا پتہ نہیں یہ کب واپس جائیں گے لیکن جب بھی گئے نفرت اور غصے میں بھرے ہوئے جائیں گے۔

عراق میں امریکی غلام نوری المالکی کی حکومت نے بھی جب امن کے نام پر اپنے مخالف گروہوں کو القاعدہ اور دہشت گرد کہہ کر مارنا شروع کر دیا تو یہ مظلوم عراقی، شام، اردن، لبنان، مصر حتیٰ کہ یورپ تک جا پہنچے۔ ہجرت کرنے والوں کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ نہ گھر بار، نہ مال و دولت، نہ نوکری اور نہ کاروبار۔ بس ایک جان ہوتی ہے جو ویسے ہی دکھوں کی ماری ہوئی۔ اس وقت دنیا بھر کے مہاجرین میں سے 90 فیصد مسلمان ہیں اور ساٹھ فیصد کے قریب پاکستان سے لے کر مصر تک کے علاقے تک محدود ہیں۔ ان کی نفرتیں یکساں ہیں اور ن کے نزدیک دشمن بھی یکساں ہے۔

انھیں معلوم ہے کہ کس نے ان کے دشمن کا ساتھ دیا، ان کی غلامی کی اور اس کے خوف اور ذاتی ایجنڈے کے تحت امن کے نام پر انھیں دربدر کیا۔ کسی کو اندازہ ہے کہ داعش ان عراقی مہاجرین کی کوکھ سے نکلی جو شام میں پناہ گزین ہوئے تھے۔ سرحدیں پامال ہو چکیں، پہلے حکومتوں نے کیں پھر ان کو حکومتوں کے خلاف لڑنے والوں نے کیا۔ لیکن اب حکومتوں کے خلاف لڑنے والوں اور مہاجرین کا جو اتحاد بنتا جا رہا ہے یہ خوفناک ہے۔

حکومتیں ایک دوسرے کو فوجی ساز و سامان اور تنخواہ دار سپاہی بھیجا کرتی ہیں لیکن مقابل میں لوگ بے سر وسامان ہوتے ہیں ان کے پاس گنوانے کو جان کے سوا کچھ نہیں بچا ہوتا ہے۔ یہی وہ خطرناک مرحلہ ہوتا ہے جب آدمی یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ ڈرون، ہوائی جہاز کے بم، توپ کے گولے یا مشین گن کی گولی سے مرنے سے بہتر ہے کہ چار لوگوں کو ساتھ لے کر مرے اور اگر ایسے لوگوں کے نزدیک سرحدیں بھی بے معنی ہو جائیں تو پھر… سوچتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں:

ہے تعجب کہ ہم تماشائی

کچھ نہیں سیکھتے تماشا سے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔