(پاکستان ایک نظر میں) - انقلاب نہیں گوڈگورننس کی ضرورت ہے

ملیحہ خادم  ہفتہ 12 جولائی 2014
اگر انقلاب فرانس جیسا پاکستان میں پیش آگیا تو  اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ کیا ہم کسی نپولین بوناپارٹ کے لیے تیار ہیں جو بے سمت ہوتے لڑکھڑاتے انقلابی فرانس کو یورپ کی ایک طاقت کی شکل دے گیا۔ فوٹو: فائل

اگر انقلاب فرانس جیسا پاکستان میں پیش آگیا تو اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ کیا ہم کسی نپولین بوناپارٹ کے لیے تیار ہیں جو بے سمت ہوتے لڑکھڑاتے انقلابی فرانس کو یورپ کی ایک طاقت کی شکل دے گیا۔ فوٹو: فائل

گزشتہ کچھ سالوں سے  ہم پاکستانیوں کو انقلاب کی بہت خواہش ہو گئی ہے۔ ٹی وی ٹاک شو سے لے کر ڈرأنگ روم تک ہر خاص و عام انقلابی بنا ہوا ہے ۔ زیادہ تر تختہ مشق انقلاب فرانس بناتے ہیں اور نہایت شد و مد کے ساتھ پاکستان اور  قبل از انقلاب  فرانس کا موازنہ کرتے ہوئےانقلاب فرانس کی مثال  دی جاتی ہے ۔

انقلاب فرانس انقلابیوں میں بے حد پرکشش ،متاثرکن ،خونی کافی حد تک کامیاب انقلاب تھا جس نے   نہ صرف فرانس بلکہ  یورپ کے ہمعسر شاہی خاندانوں کے اقتدار کو ہی زک پہنچائی اور آنے والے زمانوں کے لٔے مثال بن گیا ۔ لیکن ہمارے لوگ جسطرح اس کی دلیل ے رہے ہیں وہ نہایت لچسپ ہے۔ در حقیقت پاکستان اور قبل ازانقلاب  فرانس کی مماثلتوں کے باوجود ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔

اول فرانس میں انقلاب راتوں رات نہیں آگیا تھا بلکہ دانشور  اور مفکرین  عوامی راے  کافی عرصے سے اس ضمن میں ہموار کرتے آرہے تھے ، دوم معاشی دیوالیہ پن، نچلے طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ جبکہ امراء کےلیے خصوصی مراعات، شاہی خاندان کی شاہ خرچیاں، کسانوں کی ابتر حالت، کلیسا کا بے پناہ اثرورسوخ، امریکہ کی جنگ آزادی اور انگلستان کی خوشحالی وہ وجوہات تھیں جو بیسٹایل پر حملے کا سبب بنی اورپھر انقلابی دستے کی قیادت بے حد پر جوش گروہ کے ہاتھ میں تھی ۔

انقلاب کے لیے جو فکری اساس درکار ہوتی ہے پاکستانی دانشور اور مفکر اسے فراہم کرنے میں تاحال ناکام ہیں ۔ یہاں کوئی مونٹیسکو نہیں ہے، کوئی والٹیر نہیں ہے ، کوئی رووسو نہیں ہے نہ ہی سوشل کانٹریکٹ جیسی انقلابی انجیل  لکھی گئی ہے ۔  پھر عوام میں انقلابی روح کیوں کر پیدا ہو ؟  بیشک ہم بھی طبقاتی کشمکش کا شکار ہیں لیکن پھر بھی وہ نوبت نہیں ہے جب حقوق کی جنگ سڑکوں پر لڑی جائے ۔  ہماری معیشت کمزور ہے دوالیہ نہیں ہے۔ فرانسیسی کلیسا کے برعکس پاکستان میں مذہبی اداروں کا  بے حد احترام ہے۔

اگرچہ ہمارے حالات ہمیں اسی جانب دھکیل رہے ہیں جہاں نظام یکسر تبدیلی کا متقاضی ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ گھڑی ابھی نہیں آئی جب انقلاب ہمارے دروازے پر دستک دینے لگے اور وہ بھی فرانس جیسا ۔

بالفرض انقلاب کے شوقین لوگ انقلاب فرانس پاکستان میں برپا کر بھی دیں تو آگے کیا ہوگا ؟ کوئی ڈانٹن، مرابیو،سینٹ  جسٹ، ایبے سائیس ، رابسپیئیر جیسا قائد میسر نہیں جو بپھرے ہجوم کو قابو کرے ، کیونکہ ہم تو ویسے ہی قیادت کے بحران کا شکار ہیں ۔  وہ تمام خون جو انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں بہا اور پھر انقلاب کے سرپرستوں کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔

اگر ایسا ہی خونی منظرنامہ پاکستان میں پیش آگیا تو  اس کی ذمہ داری کون لے گا ؟ کیا ہم کسی نپولین بوناپارٹ کے لیے تیار ہیں جو بے سمت ہوتے لڑکھڑاتے انقلابی فرانس کو یورپ کی ایک طاقت کی شکل دے گیا ۔

بلاشبہ پاکستان میں لیڈران اور حکمرانوں کی جانب سے نا اہلی، کوتاہی کی ایسی داستانیں رقم کی جارہی ہیں جو عوامی بے چینی کا باعث بن رہی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر معاشرے کے سیفٹی والز ہوتے ہیں ، ہمارے یہ والزابھی ناکارہ نہیں ہوئے ہیں ۔ ہمیں انقلاب سے زیادہ گڈ گورننس ، مضبوط جامع حکمت عملی کی ضرورت ہےہم قیادت کے بحران کا شکار ہیں۔ ایسے حکمرانوں کی تلاش  ہے جو انتظامی امور کو احسن طریقے سے چلائے۔

انقلابی نعرے کتنے ہی محسورکن کیوں نہ لگیں ، زمینی حقائق میں انقلاب شکست و ریخت اور متحرک تبدیلی کاوہ عمل ہے جو پہلے سے موجود نظام ، افراد کو یکسر پلٹ دے – دور حاظر میں انقلاب ایران کے  علاوہ کوئی ایسا انقلاب نہیں ہے جو انقلاب کی تعریف پر پورا اترے ۔ نام نہاد عرب اسپرنگ کے نام پر انقلاب کا خواب  دیکھنے والی قومیں یا تو انتشار کا شکار ہیں یا پھر السیسی کی منتظر ۔ انقلاب اور انتشار میں بہت باریک لائن ہوتی ہے بغیر نظریئے ، واضح ہدف، قائدین اور عوام کی ذہنی و فکری تربیت کے انقلاب نہیں انارکی پھیلتی ہے جسکا متحمل پاکستان نہیں ہوسکتا ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔