عید کا پیغام

ایم آئی خلیل  ہفتہ 26 جولائی 2014
   ikhalil2012@hotmail.com

[email protected]

مملکت اسلامیہ میں عید کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں، بچے عید کے کپڑے سلوا رہے تھے بلکہ ایک دوسرے سے پوچھ گچھ کا عمل بھی جاری تھا کہ کون کس قسم کے کپڑے بنوائے گا۔ ادھر دارالخلافہ میں بھی بچے عید کے کپڑے بنوانے، رومال خریدنے، جوتے خریدنے میں مگن تھے، بچے ایک دوسرے کو عید کی تیاریوں کا احوال سنا رہے تھے، لیکن شہزادے خاموش تھے انھوں نے چپ کی چادر تان رکھی تھی، بچوں کے چہروں کی اداسی والدہ سے برداشت نہ ہو رہی تھی کہ انھوں نے خلیفۃ المسلمین کو مجبور کردیا کہ بچوں کے لیے عید کے کپڑے بنوا لیے جائیں۔ لیکن رقم تو ہاتھ میں نہ تھی بالآخر ناچار قلم ہاتھ میں اٹھایا اور چند الفاظ حصول قرض برائے دو ماہ تحریرکر ڈالے۔

بچوں کے چہرے کھل اٹھے تھے شہزادوں کو نئے کپڑے پہننے کا یقین ہوگیا تھا۔ ان کی خوشی دیدنی تھی۔ لیکن والدہ گومگوں کی کیفیت میں تھی کہ معلوم نہیں قرض ملتا بھی ہے یا نہیں۔ مہتمم بیت المال اس پرچی کو حکم کا درجہ دیتا ہے یا شرعی جواز تلاش کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ لیکن مہتمم بیت المال سرکاری خزانچی نے پرچی کے جواب میں وہ تاریخی الفاظ رقم کردیے جو رہتی دنیا تک دنیا کے ہر صاحب اقتدار کو جھنجھوڑتی رہے گی۔ لکھ دیا گیا کہ اس بات کی ضمانت دی جائے کہ قرض لینے والا 2 ماہ تک زندہ رہے گا۔ اس وقت اسلامی حکومت کے سربراہ حضرت عمر ؓ تھے۔ ان کا کیا ردعمل تھا۔ جب حضرت عمر نے یہ ٹکا سا جواب پڑھا تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ انھوں نے ایسے شخص کو بیت المال کا خزانچی مقرر کیا ہے اور اطمینان کا سانس لیا۔

آج کے دور میں حکمران ایک طرف حکام ایک طرف بڑے عہدیدار ایک طرف معمولی اثرو رسوخ رکھنے والا شخص بھی بینکوں سے ہزاروں روپے نہیں لاکھوں روپے نہیں بلکہ کروڑوں روپے بطور قرض لے کر ہضم کرجاتا ہے۔ اور بعض تو اسے بڑی ڈھٹائی سے اپنا حق سمجھتے ہوئے معاف کرا لیتے ہیں۔ اور جنھیں امین بنایا جائے منتظم بنایا جائے ان میں سے کئی غبن میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ بہرحال اس سال پہلے کی طرح حضرت عمر کے بچوں کے عید کے کپڑے پھر نہ بن سکے۔ عید سعید کے موقعے پر بچوں کے لیے عید کے کپڑے اظہار مسرت کا ذریعہ ہوتے ہیں جس سے وہ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔

عید کا مطلب بھی خوشی ہے۔ مختلف اقوام جس دن کو بھی وہ مقرر کرلیتی ہیں اور تہوار والے دن وہ خوشی مناتے ہیں۔ عیدالفطر جسے چھوٹی عید بھی کہا جاتا ہے ان بچوں کے لیے بڑی ہی خوشی کا دن ہوتا ہے جو طرح طرح کے کپڑے زیب تن کیے ہوئے اپنے عزیز و اقارب سے عیدیاں وصول کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اسی معاشرے میں لاکھوں بچے وہ بھی ہیں جن کے کپڑے میلے کچیلے ہوتے ہیں۔ پیروں میں جوتیاں نہیں ہوتیں حزن و ملال کی تصویر بنے ہوتے ہیں۔

دوسری طرف عالم اسلام کے مختلف حصوں میں بدامنی جنگ پھیلی ہوئی ہے۔ عید کے اس موقعے پر ہمیں ان مسلمانوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ خصوصاً فلسطینیوں پر آتش و آہن کی بارش کی جا رہی ہے۔ غزہ کی گلیاں خون سے بھری پڑی ہیں۔ آئی ڈی پیز جو اس وقت گھر سے بے گھر ہوچکے ہیں۔ لہٰذا یہ عید جہاں ہم سادگی کے ساتھ منائیں وہاں اس بات کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ غریب نادار افراد لاکھوں محنت کش بچے جن کے والدین کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بچوں کے کپڑے بنواسکیں۔

تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب فرمانروائے حکومت کے بچوں کو عید کے کپڑے میسر نہیں آرہے تھے ان دنوں اسلامی مملکت اتنی خوشحال تھی کہ کوئی شخص زکوٰۃ لینے والا نہیں مل پا رہا تھا۔ اور پوری قوم خوش حال تھی۔ آج بھی بہت سے صاحب استطاعت افراد ایسے ہیں جو غریب بچوں میں خوشیاں بانٹتے ہیں۔ غریب افراد کی مالی امداد کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو ان غریب بچوں، نادار افراد کی دست گیری کرسکتے ہیں۔ عید کے دن بھی ننگے پیر، پھٹے کپڑے پہننے والوں کو نئے کپڑے دلوا سکتے ہیں۔ اسی طرح ان نادار افراد کو بھی عید کی بھرپور خوشیاں میسر آسکتی ہیں۔

عیدالفطر کو ’’یوم الجائزہ‘‘ بھی قرار دیا گیا ہے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے پورے مہینے عبادت پر انعام دیے جانے کا دن ہوتا ہے، جو مسلمانوں کو مغفرت کی شکل میں دیا جاتا ہے، اور پورے رمضان المبارک کے ایک ماہ میں روزہ رکھنے کے بعد اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ نان شبینہ کو ترسنے والے افراد کس طرح بھوکے پیٹ رات بسر کرتے ہوں گے۔ اس طرح روزہ داروں میں اس بات کا احساس بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ اپنے معاشرے کے غریب افراد کی خبر گیری کی جائے۔

اسلامی معاشرے میں اس طرح کی خبر گیری، دست گیری امداد کے ذریعے معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور یہ معاشی سرگرمیوں میں اضافے کے باعث خوشحال افراد کی خوشحالی میں بھی مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ناداروں کی ضروریات بھی پوری ہوجاتی ہیں۔ کیونکہ غریب افراد کے ہاتھ میں جیسے ہی تھوڑی بہت رقم لگتی ہے وہ فوری طور پر ان سے ضروریات زندگی پوری کرلیتے ہیں۔ بچوں کے کپڑے، جوتیاں، کھانے پینے کی اشیا اور دیگر بہت سی ضروریات پوری کرنے کے باعث معیشت میں ان اشیا کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے جس کے باعث وہ افراد جو ان معاشی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں ان کی بھی آمدنی میں لامحالہ اضافہ ہوتا ہے۔

تاجروں کا کاروبار بڑھتا ہے، انھیں یہ شکایت نہیں رہتی کہ ’’مندا ہے‘‘ کاروبار ٹھپ ہے، آمدن نہیں ہو رہی۔ اسلام نے زکوٰۃ اور فطرہ اور دیگر خیرات و صدقات ایک دوسرے کی امداد کے لیے صاحب حیثیت افراد کو ترغیب بھی دی ہے اس کے ساتھ ہی ان کے لیے آخرت میں نجات و ثواب کا ذریعہ بھی بناکر اس عمل کی جانب راغب کیا ہے جس کے باعث مسلمان بڑے ذوق و شوق کے ساتھ اس مالی عبادت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اسلام نے مسلمانوں کی معاشی بحالی کا بھی انتظام کردیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام اس بات کی شاہد ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جب خلافت سنبھالی تو اس وقت مسلمان بدحال اور مسائل کا شکار تھے۔ لیکن زکوٰۃ خیرات امداد پر عمل پیرا ہونے کے باعث تھوڑے ہی عرصے میں اسلامی دنیا خوشحال ہوگئی۔ لیکن ایسا اس وقت ہوا جب خلیفۃ المسلمین ایسے شخص تھے جو انتہائی ایماندار اور دیانت کی مثال تھے۔خلیفۃ المسلمین نے رقم نے دینے پر بیت المال کے مہتمم کو معطل نہیں کیا بلکہ ایک شخص کے صحیح انتخاب پر اﷲ کا شکر ادا کیا۔

ہمارے یہاں آئے روز اس مسئلے پر کئی افراد معزول کیے جاتے ہیں۔ او ایس ڈی بنا دیے جاتے ہیں، برطرف کردیا جاتا ہے، معطل کردیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ عوام کی رقم جو ٹیکس سے وصول کی جاتی ہے اسی طرح عوام کا نام بطور قرض دار لکھوا کر قرض حاصل کرلیا جاتا ہے۔ عوام کی رقم سے جو منصوبے تشکیل دیے جاتے ہیں پھر ان پر ناقص میٹریل لگا کر رقم ہضم کرلی جاتی ہے۔ اسی طرح کرپشن کی صورتحال میں اب اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔

حکومت کا بھی فرض ہے کہ ایسے معاملات کی تحقیقات کرے اور عوام کی رقوم کا بالکل صحیح اور مناسب استعمال کیا جائے۔ عوام کی معیشت کی بحالی کے لیے فلاحی منصوبے شروع کیے جائیں۔ اگر صرف تعلیم اور صحت کی تمام تر سہولیات حقیقی معنوں میں فراہم کردی جائیں، یہاں حقیقی معنوں کا استعمال اس لیے کیا گیا کہ سرکاری اسپتالوں میں چلے جائیں کہ جہاں علاج معالجہ کی سہولت مفت میسر آئے گی لیکن دوا نہیں مل رہی اب دوا کے لیے پیسوں کی ضرورت، آپریشن ہونا ہے لیکن اس کے اخراجات اٹھانا پڑ رہے ہیں، اس طرح مفت سہولت کا کام ہے، اسی طرح تعلیم مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہے، ایک طالب علم انٹر کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل نہیں کرسکتا کہ فیس کے بھاری اخراجات کیسے برداشت کرے گا۔

اگر صرف ان دو شعبوں میں ہی مفت خدمات فراہم کردی جائیں تو عوام کی جیب سے رقوم دیگر معاشی سرگرمیوں میں خرچ ہوں گی جس کے باعث دیگر شعبوں کی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوجائے گا اور معیشت کے دیگر شعبے پھلنے پھولنے لگیں گے اور معاشی جمود کی کیفیت طاری نہیں ہوگی۔

بہرحال 1435 ہجری کی عید سعید کی آمد آمد ہے۔ ہم اس موقعے پر مسلمان بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرسکتے ہیں جو اس وقت مسائل و مصائب کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی معاشرے میں ہمارے اردگرد موجود ان افراد کا بھی بھرپور خیال کریں جو اعانت کے مستحق ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔