(پاکستان ایک ںظر میں) - سیرو تفریح موت کا کھیل بن گئی

سلیم ناصر  جمعـء 1 اگست 2014
ہمارے ہاں المیہ ہے کہ ہمیشہ سانحے کے بعد حکومت کو ہوش آتا ہے اور وہ بھی وقتی طور پر سرگرمیاں انجام دینے کے بعد آئندہ کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کیا جاتا۔ فوٹو: ایکسپریس

ہمارے ہاں المیہ ہے کہ ہمیشہ سانحے کے بعد حکومت کو ہوش آتا ہے اور وہ بھی وقتی طور پر سرگرمیاں انجام دینے کے بعد آئندہ کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کیا جاتا۔ فوٹو: ایکسپریس

عید آپکی ہو، میری ہو یا پھر کسی بھی تیسرے شخص کی ، سب کی خوشیاں سانجھی ہوتی ہیں اور اِس تہوار کے حوالے سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں بندے کی خوشی زیادہ ہے اور فلاں کی خوشی کم۔ عام طور پر کہا اور سنا جاتا ہے کہ ساحل سمندر پر بیٹھ کر ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ دور کی جا سکتی ہے،اس سے بڑھ کر آپ سمندری لہروں کو دیکھتے ہوئے لطف اندوز بھی ہوسکتے ہیں ۔

خیر یہ تو سنی سنائی باتیں ہیں ، مگر ابھی خبر یہ ہے کہ عید کے موقع پر کراچی کے ساحل سمندر کا رخ کرنے والوں میں سے 33 افراد کو سمندر کی تیز لہروں نے اس جہان فانی سے رخصت کردیا۔ غربت ایک ایسی بلا کا نام ہے جو انسان کو ہر ہر طریقے سے اور ہرہر موقع پرمحرومی کا سبب بنتی ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ عید کے موقع پر عوام کی ایک بڑی تعداد سی ویو، کلفٹن، ہاکس بے اور دیگرسستی تفیریحی مقامات کا رخ کرتی ہیں۔

اعتراض یہ ہرگز نہیں کہ لوگ کیوں سستی تفریحی مقامات کا رُخ کرتی ہے  بلکہ اعتراض تو یہ ہے کہ ریاست اِس خوشی کے موقع پر بھی عوام کی حفاظت میں بھی ہمیشہ کیوں ناکام رہتی ہے؟۔  ریاست کو مورد الزام ٹھہرانے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ لوگوں کی اِس کوتاہی سے نظر چورائی جائے جس کے سبب وہ اِس دنیا سے ہی محروم ہوگئے۔

میں اِس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمارا وطیرہ بن چکا ہے کہ ہر غلط کام کا الزام حکومت پر ڈال کر خود کو پاک کرلیا جائے کیونکہ اگر یہ 33 افراد سمندر گئے ہیں تو کیونکہ اِن کے والدین کو یہ بات نہیں معلوم تھی؟ اور اگر معلوم تھی تو پھر کیوں اُنہوں نے اپنے بچوں کو یہاں جانے سے نہیں روکا جبکہ حکومت کی جانب سے سمندر میں نہانے پر پابندی بھی عائد کردی گئی تھی؟

عید کے موقع پر جب کوئی اپنوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوتا ہے تو اس کا درد صرف اپنے کی محسوس کرسکتے ہے،دوسرے ایام میں اگر کوئی اپنوں کو چھوڑ جائے تو اس کی مثال ایسی ہے کہ جب کسی کے جسم پر چوٹ لگ جائے اور پھر جیسے جیسے زخم ٹھیک ہوتا رہتا ہے درد میں کمی آتی ہے لیکن عید کے موقع پر اپنوں سے جدا ہونے والوں کو میں جسم کے کسی حصے کو ناکارہ ہونے سے تشبیح دوں گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب آنے والی ہر عید میں متاثرہ والدین اپنے جگر کے ٹکڑوں کو یاد کر کے روتے رہیں گیں۔ اگر یہ بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اِن 33 جانوں کے ضیاع کا مطلب 33 خاندانوں کی ہمیشہ کے لیے عید کی خوشیاں ختم ہوگئی کیونکہ اب جب بھی عید آئے گی اُن کو اپنے پیاروں کی محرومی یاد آتی رہے گی۔

ہمارے ہاں المیہ ہے کہ ہمیشہ سانحے کے بعد حکومت کو ہوش آتا ہے اور وہ بھی وقتی طور پر سرگرمیاں انجام دینے کے بعد آئندہ کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب نہیں کیا جاتا۔ ابھی تو سیاسی جماعتوں کے نمائندے بھی جائے وقوعہ کا دورہ کررہے ہیں، حکومت بھی ریسکیو میں مصروف ہے لیکن یہ کب تک؟ صرف اُس وقت تک جب تک میڈیا پر یہ خبر گرم ہے۔ جہاں میڈیا کو اِس سے اچھا موضوع مل گیا پھر کونسا سمندر اور کونسا المیہ ۔۔۔۔ اور پھر کونسی حکومت اور کونسی امدادی کارروائیاں ۔۔۔ بس سب ماضی کا قصہ بن جائے گا۔

اگر حکومت اس معاملے میں سست اور کاہل ہے تو خدا را والدین اپنے بچوں کو ایسے مقامات پر روکنے کی پوری کوشش کریں اگر آپ کا بچہ ناراض ہوتا ہے تو اس کی پرواہ کیئے بغیر ان کو ایسے مقامات پر جانے سے روکے کیوں کہ عمر بھر کے پچتاوے سے وقتی طور کی ناراضی لاکھ درجہ بہتر ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔