ہائیکورٹ کو جونیئر ججز سے متعلق سخت ریمارکس سے پہلے تحقیق کرنی چاہیے، سپریم کورٹ

غلطی انسانی فطرت ہے، جج بھی غلطی کر سکتے ہیں، بدنیتی ثابت کرنا لازم ہے، عدالت عظمیٰ

فوٹو: فائل

اسلام آباد:

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ ہائیکورٹ کو جونیئر ججز سے متعلق سخت ریمارکس سے پہلے تحقیق اور احتیاط لازمی کرنی چاہیے۔

انسداد دہشت گردی عدالت کراچی کے جج ذاکر حسین سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے اور ریمارکس کے خلاف کیس کے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ ہائیکورٹ ججز کو جونیئر ججز پر سخت ریمارکس سے پہلے تحقیق اور احتیاط لازم ہے۔

جسٹس محمد مظہر کا تحریر کردہ 12 صفحات کا فیصلہ جاری  کردیا گیا، جس کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس محمد مظہر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔

انسداد دہشتگردی عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج ذاکر حسین کے 2 عدالتی احکامات سندھ ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیے تھے ۔ ہائیکورٹ نے ملزم کو پولیس کے بجائے جوڈیشل کسٹڈی میں دینے اور جے آئی ٹی کے قیام پر اعتراض کیا تھا۔ علاوہ ازیں ہائی کورٹ نے والد کی جج کے چیمبر میں موجودگی کو بھی بدنیتی قرار دیا تھا۔

سندھ ہائیکورٹ نے انسداد دہشتگردی عدالت کراچی کے ایڈمنسٹریٹو جج سے انتظامی اختیارات واپس لینے کی سفارش کی تھی ، جس پر انسداد دہشتگردی عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج ذاکر حسین نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ اور ریمارکس کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا  تھا۔

سپریم کورٹ نے جونیئر جج کیخلاف ہائیکورٹ ججز کے سخت ریمارکس خارج کر دیے اور اپنے فیصلے میں کہا کہ پٹیشنر کا انتظامی عہدہ بحال نہیں کیا گیا، کیونکہ نیا جج مقرر ہو چکا تھا۔ سندھ حکومت نے 26 فروری 2025 کو جج کے اختیارات واپس لے لیے تھے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پٹیشنر کو وضاحت کا موقع دیے بغیر سخت الزامات لگائے گئے۔ ہائی کورٹ کو جونیئر ججز کے خلاف اظہارِ رائے سے پہلے منصفانہ سماعت کا حق دینا چاہیے۔ سخت عدالتی ریمارکس ججز کے کیریئر پر دائمی اثر چھوڑتے ہیں۔ عدلیہ میں باہمی احترام اور ڈسپلن کو مقدم رکھا جائے۔

سپریم کورٹ  نے کہا کہ عدالتی ریمارکس اگر اخبارات یا فیصلوں میں آئیں تو ہمیشہ کے لیے ریکارڈ کا حصہ بن جاتے ہیں۔  ایسے الزامات خفیہ رپورٹ کے ذریعے چیف جسٹس ہائیکورٹ کو بھیجے جائیں۔ عدالتیں جونیئر ججز کی رہنمائی کریں، تنقید نہیں۔ پٹیشنر کو دفاع کا موقع نہ دینا آرٹیکل 10-A کی خلاف ورزی ہے۔

فیصلے کے مطابق سخت ریمارکس زبانی الزامات کی بنیاد پر دیے گئے، جو ناقابل قبول ہے۔ جج کی تحقیر عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو متاثر کرتی ہے۔ غلطی انسانی فطرت ہے، جج بھی غلطی کر سکتے ہیں، بدنیتی ثابت کرنا لازم ہے۔

Load Next Story