طوفانِ بلا
دنیا بھر میں ہونے والے موسمیاتی تغیرات نے ایک سنگین صورت حال اختیار کر لی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں مختلف ممالک اور خطوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قدرتی آفات انسانوں کے لیے ایک بڑی آزمائش ہوتی ہیں اور ایسے ناقابل تلافی نقصانات کا سبب بنتی ہیں جو پورے نظام زندگی کو ہلا کر رکھ دیتی ہیں۔ زلزلے، سیلاب، آندھیاں اور طوفانی بارشیں جو تباہی و بربادی لاتی ہیں ان کے اثرات سالوں تک زائل نہیں ہوتے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر میں طوفانی بارشوں نے جو تباہی پھیلائی ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ 300 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے، ندی نالوں میں طغیانی، لینڈ سلائیڈنگ، بادل پھٹنے جیسے واقعات اور سیلابی ریلوں نے کئی گاؤں دیہات تو صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔
صوابی اور بونیر میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصانات سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کے مال مویشی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے، مکانات منہدم ہو گئے اور سامان زندگی برباد ہو گیا۔ بازار، سڑکیں، اسکول اور اہم عمارتیں پانیوں میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں لوگ امداد کے منتظر ہیں۔ بارشوں کا یہ سلسلہ دراز ہو کر اب پنجاب، بلوچستان اور سندھ کے علاقوں تک پھیل گیا ہے۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق آیندہ تین سے چار دن تک مزید تیز اور موسلا دھار بارش کی پیش گوئی کی ہے۔ ملک کا سب سے بڑا بین الاقوامی شہر کراچی جو تجارتی حب کہلاتا ہے اور سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔
منگل کو ہونے والی تیز بارش کے سبب سڑکیں تالاب بن گئیں، گاڑیاں پانی میں ڈوب گئیں اور اہم شاہراہوں پر اس قدر ٹریفک جام ہو گیا کہ لوگوں کو رات اپنی گاڑیوں میں سڑکوں پر گزارنا پڑی۔افسوس کی بات یہ ہے کہ کراچی جیسے ملک کے اہم تجارتی شہر میں آج تک نکاسی آب کا کوئی معقول اور فول پروف انتظام نہیں بنایا جا سکا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے دعوؤں اور وعدوں کے باوجود شہر قائد کی زبوں حالی کا کوئی چارہ نہ کر سکیں۔ نتیجتاً یہ شہر عالمی سطح پر اپنی عزت اور وقار کھوتا جا رہا ہے اور عالمی سروے رپورٹس کے مطابق رہائش کے لحاظ سے کراچی اب تنزلی کا شکار ہے، جو صوبائی حکومت کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ آخر یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟
آسمانی و زمینی حادثات، سانحات اور موسمی تبدیلیوں سے رونما ہونے والے واقعات صاحب بصیرت حکمرانوں کے لیے ایک سبق ہوتے ہیں کہ وہ آیندہ ایسے دل خراش اور تباہ کن حوادث سے محفوظ رہنے کے لیے بہتر سے بہتر اقدامات کریں لیکن ہماری بدقسمتی اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کسی بھی حادثے کے بعد خواب غفلت سے یکدم بیدار ہوتے ہیں، متاثرین کو ہنگامی بنیادوں پر مدد فراہم کی جاتی ہے، پھر ان کی بحالی اور نقصانات کے ازالے اور آیندہ ایسے سانحات سے محفوظ رہنے کے لیے تدابیر اختیار کرنے اور ٹھوس اقدامات اٹھانے اور جامع منصوبہ بندی کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ان کی تشہیر کی جاتی ہے، جب وقت گزر جاتا ہے پانی سر سے اتر جاتا اور متاثرین کی آہ و فغاں کی شدت کم ہو جاتی ہے تو پھر حکومتی دعوے، وعدے اور سارے منصوبے دبیز فائلوں میں دب کے رہ جاتے ہیں۔
5 اکتوبر 2005 کے پی کے اور آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے جس میں 7,300 افراد جاں بحق اور لاکھوں بے گھر ہوئے تھے کے متاثرین آج تک ازالے کے لیے بھٹک رہے ہیں۔ اس خوفناک سانحے کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (HDMA) کا قیام عمل میں لایا گیا تھا کہ مستقبل میں آنے والی قدرتی آفات سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے قبل از وقت تمام تیاری کی جا سکے۔ بعدازاں پنجاب اور سندھ میں آنے والے سیلابوں کے متاثرین بھی تاحال مکمل طور پر بحالی اور نقصانات کے ازالے سے محروم ہیں جو ہمارے حکمرانوں کی انتظامی نااہلی و غفلت اور لاپرواہی کا ثبوت ہے۔
لے دے کر فوج ہی ایک واحد ادارہ ہے جو بارشوں، سیلابوں اور زلزلوں سمیت تمام قدرتی آفات کے موقع پر سب سے آگے کھڑا نظر آتا ہے اور ہم وطن متاثرین کو امداد کی فراہمی میں پیش پیش رہتا ہے۔
پاک فوج کے دستے سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور 7 ہزار کے قریب افراد کو ریسکیو کیا جا چکا ہے اور 6 ہزار سے زائد افراد کو امداد فراہم کی گئی ہے۔ فوج کے آٹھ یونٹس کے پی کے میں سرگرم ہیں اور 9 آرمی طبی میڈیکل کیمپوں کے ذریعے ڈاکٹروں کی ٹیم متاثرین کو طبی امداد فراہم کر رہی ہے۔
متاثرہ علاقوں میں غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) کے کارکن بھی امدادی کاموں میں مصروف عمل ہیں جو یقینا حوصلہ افزا بات ہے، گزشتہ اتوار کراچی سینئر سٹیزن گروپ کے روح رواں معروف سائنٹسٹ ڈاکٹر نعیم الدین کنول نے معزز ممبر اصغر امام خالد کی رہائش گاہ پر ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں جسٹس سید پیر علی شاہ، میجر فرقان صابری، شہید میجر عدیل کے والد شاہد زیدی اور دیگر معززین شہر نے شرکت کی۔ وہاں بھی مذکورہ صاحبان علم و دانش نے پاک فوج کی قومی خدمات کا ذکر اور آزمائش کے لمحات میں ملی یکجہتی کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ سوشل میڈیا پر جو منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے سب کو مل کر اس کا مقابلہ اور تدارک کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ وطن عزیز حقیقتاً آج نازک دور سے گزر رہا ہے۔
داخلی و خارجی سطح پر متعدد سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، بھارت عبرت ناک شکست کے باوجود ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے، بارشوں اور سیلابوں کی شکل میں پوری قوم کو ایک طوفان بلا کا سامنا ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے من حیث القوم سب کو اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔